فرض سے پیار-۳

618 61 4
                                    




  دو سال۔ پورے دو سال اسے اسی طرح محنت کرنا پڑی تھی۔ پہلے خود پر محنت کرکے خود کو بنایا تھا اور اب وہ چاہتا تھا کہ اس کے آفس کا ہر فرد اپنے فرض سے واقف ہو۔
ایک پولیس آفیسر سے لوگوں کی اتنی امیدیں وابستہ ہوتی ہے اور اگر وہ اپنے شغل میں لگا رہے تو عوام جرائم اور نقصانات تلے ڈوب جائنگے۔
شروع میں تو تھانے میں لوگوں کو اس بات کا احساس دلانا ناممکن تھا لیکن دو سال کم عرصہ نہیں ہوتا کسی کو بدلنے کے لیے۔
وہ اسی طرح سنجیدگی سے، لوگوں کی کمزوریوں سے، خوف سے انہیں سکھاتا رہا اور اس طرح اس تھانے میں موجود سب لوگ پورے دل سے اپنی ذمہ داری نبھا رہے تھے۔

آسان تو کچھ نہیں ہوتا۔ بس یہ کچھ کرنے کی لگن ہی اسے آسان بنا دیتی ہے۔
نو بج رہے تھے۔ سارا شہر دھوپ کی شدت سے تپ رہا تھا۔ جیپ تھانے کے باہر روک کر وہ اترا۔ایک قدم وہ آگے بڑھا ہی تھا کہ شور کسی شور کی وجہ سے چونک کر مڑا۔ لڑکیوں کا گروپ جو اچھلتا ہوا ادھر ہی آرہا تھا۔
اس کے قریب آکر رکیں تو خوشی سے چیخنے لگیں۔ "سر آپ کے بارے میں بہت سنا ہے۔ آپ کو دیکھنے کا شوق تھا بہت آج وہ بھی پورا ہو گیا۔"
ان میں سے ایک خوشی بولی تھی۔ باقی کھڑی مسکرا رہی تھیں۔
وہ اسی طرح خاموش کھڑا رہا۔ "سر آپ بہت کمال کے انسان ہے"
دوسری بھی بولی تھی۔ اب بیزار ہوکر اسنے آگے بڑھنا چاہا لیکن وہ تو اسے گھیرے کھڑی تھیں۔"اتنا ہینڈسم اے ایس پی ہے اس شہر کا" بہت ہی منہ پھٹ لڑکی تھی۔ کوئی لحاظ ہی نہیں۔
اسنے ایک ناگوار نظر اس پر ڈالی اسے دیر ہو رہی تھی۔ لیکن وہ تو اسکا مکمل جائزہ لے رہی تھیں۔
سیاہ گھنے بال، صاف چہرے پہ لگی سن گلاسس اور ہلکی ہلکی شیو، فخر سے اٹھا سر، پولیس وردی میں وہ بلا کا ہینڈسم لگ رہا تھا
۔ ‏"Excuse me please" وہ آگے بڑھنا چاہ رہا تھا لیکن یہ لڑکیاں۔۔۔
"سر آپ جیسے جانثار لوگوں پر ہم بہت فخر کرتے ہیں اور پورا وطن آپ سے محبت کرتا ہے" ایک لڑکی نے فخریہ انداز میں کہا اور مسکرائی تو وہ ہلکا سا مسکرایا۔ "بہت شکریہ۔"
وہ ساری لڑکیاں مسکرا دی۔ اتنی خوبصورت مسکراہٹ
۔ "مجھے کام ہے پلیز راستہ دیجیے" شائستہ اور سنجیدہ لہجے میں اسنے کہا تو انہوں نے راستہ چھوڑا وہ فوراً آگے بڑھ گیا
۔تھانے میں داخل ہوتے ہی فوراً سب چوکنے ہوگئے۔ ادھر ادھر نظر ڈالتا وہ اندھر داخل ہو رہا تھا۔ سلام کا جواب دیتا اور اپنے سے عمر میں بڑوں کو خود سلام کرتا۔ خود کو لاپروا ظاہر کرتے ہوئے بھی وہ ہر چیز سے واقف تھا۔
شجاع نے سلام کرنے کے بعد ساتھ کھڑے علی کے کان میں کچھ کہا تھا۔ تنویر اسے کل کے کیس کو ڈسکس کر رہا تھا۔ چلتے چلتے ہو آفس میں آبیٹھے۔
"ہوں تو سلمان باز نہیں آیا" وہ جانتا تھا وہ باز آنے والی چیز نہیں ہے۔"اب کی بار ہمیں بڑا جال بچھانا پڑے گا" تنویر نے گویا مشورہ دیا
"اس بار وہ خود اپنے جال میں پھنسے گا" سنجیدگی سے کہتا وہ "سلمان نیازی" کی فائل ڈھونڈنے لگا۔ تنویر جاچکا تھا۔
وہ بیٹھا فائل میں اسکے متعلق ملنے والی انفارمیشن کا مطالعہ کر رہا تھا تھبی دروازے پر دستک ہوئی۔"سر فاروقی ! میں اندر آجاؤں؟"
"یس آفیسر علی"
"سر مجھے کچھ کہنا تھا"
"کہو" علی اب بھی اسکی نظروں کے حصار میں تھا۔ وہ یوں دیکھتا تھا جیسے آنکھوں سے ہی پوسٹ ماٹم کرلے گا۔
"سر ایمان سے صرف شجاع نے یہ کہا تھا کہ "سر ایسے چلتے ہوئے کتنے خوبصورت لگتے ہیں" اور میں نے کہا تھا ہاں تو  اور کیا" اس نے چونک کر علی کو مصنوعی غصے سے دیکھا۔
۔"میں نے کچھ کہا کیا؟"
"ہی ہی سر! کوئی یقین نہیں آپ کب کس کو چماٹ لگادیں یا مٹھائی کھلا دیں یا اکیلے جنگل میں چھوڑ آئیں۔۔۔"
اور اے ایس پی یوں دیکھ رہا تھا جیسے کہ رہا ہو "منہ پھٹ کہیں کہ بس کردو" علی اسکی شکل دیکھ کر چپ ہوگیا ۔
پھر ہنسنے لگا۔"کام کی بات کرو علی" ۔ علی کہ منہ سے بمشکل "سڑیل" ادا ہوتے ہوتے رکا۔
"سر میں بتانے آیا تھا کہ ایک عورت آئیں تھی میں نے بہت پیار سے ان کا کیس نپٹایا" علی نے مسکرا کر کہا تھا تو اس سارے میں پہلی بار اے ایس پی بھی مسکرا دیا

فرض سے پیارTahanan ng mga kuwento. Tumuklas ngayon