"خبردار جو ان دو گھنٹوں مجھے آپی کہا تو۔ چمڑی ادھیڑ دونگی"
سادہ کرتے کے ساتھ تنگ پجامہ اور بالوں کی پونی ٹیل باندھے خوبصورت سی لڑکی کرسی پر بیٹھی ان تینوں کو ڈانٹ رہی تھی۔
ابھی تو وہ کھیر سے انصاف کرکے پڑھنے بیٹھے تھے۔ احمد اور رعیم نے مل کر انیہ کو تحفے میں گھڑی ، بیڈمنٹن کٹ اور چاکلیٹ کا ڈبہ دیا تھا۔
"میم کہا کرو جب میں پڑھا رہی ہوں تو۔ گاٹ اٹ؟" تینوں نے سر اثبات میں ہلایا۔ پچھلے ایک ہفتے سے اینی انہیں پڑہا رہی تھی۔ اس کا کالج ختم ہوا اور یونیورسٹی میں ایڈمشن کے لیے ابھی کچھ دن باقی تھے تو بوریت دور کرنے کے لیے وہ ان کو پڑھانے لگی۔ ساتھ میں محلے کی اور بچی مریم بھی تھی جسکی والدہ ڈانٹ ڈپٹ کر اسے بھیجتی تھی
۔"آپی!" انیہ نے کوئی سوال پوچھنا تھا لیکن آپی بول کر اسکی بولتی بند ہوگئی۔"مریم۔ مریم آپی! انیہ تم اسے بلا رہی ہونا" احمد نے فوراً مدد کی اور رعیم کو دیکھا کہ "ڈائلاگ مارو کوئی"۔
"جی میم ۔ہم ان کو مریم آپی کہہ رہے ہیں ۔ ماشاءاللة بہت اچھا پڑھ رہی ہے" رعیم بھی ہنسی ضبط کرتے ہوئے بولا
۔ انیہ کا سانس بحال ہوا "جی میم سچی" ۔
اول جماعت میں پڑھنے والی مریم حیرانی سے اپنے سے بڑوں کو دیکھ رہی تھی۔"میم جی! بھائی لوگ جھوٹ۔۔۔" مریم کے الفاظ منہ میں رہ گئے کیونکہ احمد نے کتاب یوں اٹھائی کہ اسکے منہ پر لگی۔
"مریم۔ چلو میم کو ریڈنگ کرکے سناؤ۔ بہت باتیں کرتی ہو۔ "
"مریم آپی" رعیم نے اصلاح کی۔ "ہاں آپی جاؤ" اپنے ڈراموں پر انکی ہنسی بمشکل قابو میں تھی۔
اینی آپی تو ان دو گھنٹوں میں ایسے ہوتی کہ کچا چبا جانے کے بعد پوچھتی ہاں اب بولو۔ ورنہ وہ کافی سلجھی ہوئی اور سویٹ تھی۔ان کی کمپنی میں بندہ بور نہیں ہوتا تھا۔
"درخت ہمارے لیے بہت ۔۔۔ مفید ہیں۔ درخت اگانا شجر۔۔ کاری کہلاتا ہے" مریم اٹکتے ہوئے پڑھ رہی تھی۔
"اوکے اب زبانی یہی لائن سناؤ" اینی نے کتاب اس کے ہاتھ سے لے کر ایک طرف رکھی
۔"درخت کاری ہمارے لیے بہت مفید ہے۔ ۔۔۔مفید اگانا ۔۔درخت کہلاتا ہے" اس نے بڑے آرام سے جملہ کہہ دیا۔
اختتام پر احمد کے گھر کی لائبریری قہقہوں سے گونج اٹھی۔" بہت اچھے۔ شاباش" اینی نے اس کا گال تھپتھپایا۔
وہ جو انکے ہنسنے پر گڑبڑا گئی تھی سنبھل کر مسکرا دی۔"جاؤ 'درخت کاری' کرو چھٹی ہوگئی ہے"
دو گھنٹے ختم ہوئے تو اینی اپنی فورم میں لوٹ آئی
۔وہ باہر نکلی تو اینی کا ہنس ہنس کر برا حال تھا۔
"احمد چنّو! میرے بھائی کل سے ہم درخت کاری کرینگے ٹھیک" اینی ہنستے ہوئے بولی۔
"ریم تم مفید اگانا اوکے" وہ ہنستے ہوئے رعیم سے مخاطب ہوئی۔ اینی رعیم کو ریم کہتی تھی جس پر وہ بہت چڑتا تھا لیکن ابھی ہنستی ہوئے اسنے نوٹ ہی نہیں کیا۔
"انیہ ۔۔۔۔کچھ نہیں چھوڑو" ہنسی اتنی شدت سے آرہی تھی کہ اس سے کچھ بولا نا گیا
۔"قسمیں اب میرا دل کر رہا ہے درخت کاری کرنے کو ۔ چلو اٹھو سب" ہنسی روک کر اینی اٹھ کھڑی ہوگئی۔لان میں پودوں کو پانی دیتے ہوئے انکی ہنسی بے ساختہ تھی۔
"آپی آپ کیا کر رہی ہیں؟" پھولوں کو پانی دیتے ہوئے انیہ نے گھاس پر بیٹھی ہنسی سے نڈھال ہوتی اینی کو دیکھا۔ وہ یونہی چھوٹی چھوٹی باتوں کو انجوائے کرتی تھی۔
"میں بیٹھی ہوں لیکن انّو تم درخت کاری کر رہی ہو" اینی نے مسکرا کر کہا۔ وہ انیہ سے اٹیچ ہوچکی تھی جسکا ثبوت یہ نک نیم تھا۔ اینی کو جو بھی پسند آتا یا جس سے بھی اسکی دوستی ہوتی وہ اسے بڑے پیار سے نیک نیم دے دیتی۔
"ملاحظہ فرمائیے۔ میری آپی جان کو دیکھیے جو ہنس ہنس کر نڈھال ہو رہی ہیں ابھی کچھ دیر پہلے خونخوار چڑیل بنی ہوئی تھیں۔ میم کہا کرو مجھے ورنہ چمڑی ادھیڑ دوں گی"
احمد نے اینی کی نقل اتار کر کہا تو اینی نے اپنی چپل اتار کر احمد کی طرف اچھالی جسے اسنے کیچ کرکے "آخ" کرتے ہوئے دور اچھالدی
"مریم آپی ۔ " احمد کے جملے میں آپی سن کر اینی کو دوبارہ ہنسی آنے لگی۔ باقی سب نے بھی ہنسنے میں اسکا ساتھ دیا۔

VOCÊ ESTÁ LENDO
فرض سے پیار
Ficção Geral(Completed) Story of three friends Raeem,Anya and Ahmed. Story of a police officer, story of passion and a story of friendship and love.