فرض سے پیار-۴

537 53 2
                                    




  چھٹیاں اسے طرح ہنستے کھیلتے گزر گئی۔ اب تو ان میں دوستی ہوگئی تھی لیکن احمد اور انیہ ایک دوسرے کو اب بھی زچ کرتے تھے۔ چھٹیاں ہونے پر تو وہ اس قدر دکھی تھے کہ منہ لٹکائے آخری چھٹی پر باقاعدہ آنکھوں میں قطرہ قطرہ پانی رکھ کر 'نقلی' آنسوں بھی بہائے ۔
ایکٹر احمد نے تو باقعدہ لان میں بیٹھ کر اپنی امی کی دو چار چوڑیاں بھی توڑی تھی ۔ "ہماری خوشیاں ہائے" ۔
چھٹیاں کھیل کود میں ایسے گزر گئی کہ پتا ہی نہیں چلا
۔انیہ کا ایڈمیشن بھی انہیں کے سکول میں ہوگیا تھا۔
"کیا ہوا انیہ اتنی اداس کیوں ہو؟" وہ سکول سے واپس چلتی آرہی تھی۔ سکول پاس ہی تھا تو پیدل آنا جانا آسان تھا۔
انیہ نے سر اٹھا کر دیکھا۔
سائکل ہر رعیم کھڑا اسے ہی دیکھ رہا تھا۔"کچھ نہیں"
"تو پھر ہمارے ساتھ کیوں نہیں آئی؟" وہ زیادہ تر اکھٹے واپس آتے تھے لیکن آج وہ پہلے ہی آگئی۔"ایسے ہی" انیہ دوبارہ قدم اٹھانے لگی۔ رعیم نے فوراً آگے بڑھ کر سائکل اس کے عین سامنے کھڑی کردی۔
انیہ نے کوئی ردعمل نہیں دکھایا۔"بتاؤ کیا بات ہے؟" رعیم بغور اسے دیکھ رہا تھا۔
انکی دوستی تھی لیکن اتنی گہری نہیں۔ انیہ کچھ خاموش رہی پھر بولی۔
"مجھے بیڈمنٹن کھیلنا نہیں آتا اور مجھے اتنا اچھا لگتا ہے اور میں اسپورٹ میں حصہ لینا چاہتی ہوں لیکن نہیں لے سکتی کیونکہ مجھے کھیلنا نہیں آتا" بات ختم کرکے وہ رکی نہیں اور تیز تیز قدم اٹھاتی آگے بڑھ گئی۔
رعیم کچھ سوچ رہا تھا اور اسے روکنے کی بھی کوشش نہ کی۔ مرچی کو دکھ لگ گیا۔

۔ڈور بیل بجا کر اب وہ دروازہ کھلنے کا منتظر تھا۔ چند لمحوں بعد خالدہ نے دروازہ کھولا۔"اسلام علیکم آنٹی" رعیم نے مسکرا کر سلام کیا۔
"وعلیکم اسلام بیٹا کیسے ہو ؟ خیریت صبح صبح؟"
سنڈے کو دس بجے بچوں کے لیے صبح ہی ہوتی ہے۔
"الحمداللة۔ انیہ ہے؟"
"ابھی تو گھوڑے بیچ کر سو رہی ہے" خالدہ نے ہنستے ہوئے کہا۔"آنٹی وہ اٹھے تو کہنا مجھے ضروری کام ہے۔ "
"اچھا! اندر آجاؤ"
"نہیں آنٹی تھینکس ۔ انیہ اٹھے تو اسے بتا دینا۔اللة حافظ" ۔ وہ جانے کےلیے مڑا تو خالدہ بھی خدا حافظ کہتے ہوئے دروازہ بند کرنے لگی۔
کرسی پر براجمان ہوتے ہوئے اسنے سامنے بیٹھے دونوں لڑکوں کو دیکھا
'۔جینز اور اوپر فراک۔ ٹوپی غائب۔ شکر حلیہ بہتر ہوا۔ آنٹی نے سنائی ہونگی'۔ احمد اسے دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا۔"کیا کام ہے؟" جمائے روکتے ہوئے وہ رعیم سے مخاطب ہوئی۔
"تمہیں بیڈمنٹن کے مقابلے میں حصہ لینا ہے؟"
"دل تو بہت کر رہا ہے مگر مجھے کھیلنا نہیں آتا" اداس سی شکل بناتے ہوئے انیہ نے رعیم کو جواب دیا۔
احمد بیٹھا چپس سے انصاف کر رہا تھا۔"تم ہاں یا نا میں جواب دو"
"لیکن مجھے کھیلنا۔۔۔" اسکی بات مکمل ہونے سے پہلی ہی رعیم دوبارہ بولا۔
"ہاں یا نا؟" انیہ خاموش رہی۔ دل تو بہت کر رہا تھا مگر کھیکنا آتا ئی نہیں تو کیا فائدہ۔
"انیہ تالیاں بجانے والوں میں سے نہیں ہے۔ لیکن ۔۔۔" وہ آرام سے کہہ رہی تھی۔اور ہاتھوں سے بال ٹھیک کر رہی تھی
۔"کیا ہے منی! مرچی جیسی بچی ہو اور یہ فضول ڈائلاگ مار رہی ہو" احمد چڑکر بولا
۔"منی؟ کتنی بار کہوں منی مت بولا کرو۔ دوست ہو اس لیے لحاظ کرلیتی ہوں ورنہ۔۔۔" وہ اپنے منہ پھٹ انداز میں لوٹ آئی تھی۔
"او خدایا! ورنہ؟ ورنہ کیا؟ کھا جاؤ گی مجھے؟ اے میرے رب یہ ظلم و ستم دیکھنے سے پہلے مجھے آئس کریم کیوں نصیب نہ ہوئی؟" احمد کے بھی ڈرامے شروع ہو گئے۔
احمد کی ماما نے اردو میں ماسٹرزکر رکھا تھا تو احمد کے ڈائلاگ کبھی کبار بہت کمال کے ہوتے تھے۔
"مجھے کوئی شوق نہیں ہے ہڈیوں کا ڈھانچہ کھانے کا" بڑی بے نیازی سے کئتے ہوئے وہ پھر سے بال سہلانے لگی
۔"کیا کہا؟۔۔۔" احمد اٹھا ہی تھا کہ رعیم جو ان کی 'چوں چڑاک' پر سر پکڑ کر بیٹھا تھا چینخا۔
"بس کردوو! کوے کھائے ہیں کیا؟"
"احمد نے پہلے کیوں منی کہا مجھے؟"
"مجھے میرے خدا نے زبان عطا کی ہے تو استمعال نہ کروں؟"دونوں پھر شروع ہوگیے تو رعیم کا دل چاہا اپنا سر پیٹ لے۔
"اف اللة ! بس" وہ ذرا زور سے چینخا تودونوں خاموش ہوگئے۔
"بہت شکریہ" رعیم نے طنزاً کہا
۔"انیہ ہم تمہیں بیڈمنٹن سکھائے گے تم اپنا نام دے دو۔ ابھی دو ہفتے ہے سورٹس میں اچھی خاصی پریکٹس ہوجائے گی" انیہ اچھل پڑی
"سچ؟"جبکہ احمد نے 'یم سکھائے گے' پر برا سا منہ بنایا۔
'خود میڈل جیتتا ہے اور سکھائے گے ہم ۔ واہ رعیم'
۔"ہاں ہم آج سے شروع کردینگے۔ ویسے بھی چھٹیوں کے بعد بوریت آگئی ہے زندگی میں۔" رعیم پرسکون ہو کر بولا۔احمد بھی خوش ہوا ۔ کھیل کود،مزا اور احمد پیچھے رہے نا بابا نا۔
"او یس! ہاں ضرور۔ بالکل زبردست فرمایا رعیم" احمد کو رعیم ہر پیار آیا۔ 'ہم' اس لیے کہ میرا دوست میرے بغیر تھوڑی لطف اٹھائے گا کھیل کود سے۔
"شکر ! اب عائشہ کی بچی کو میں ہراؤں گی۔ کلاس فیلو ہے میری اسنے چیلنج کیا تھا مجھے کہ میرے مقابل کھیلنا۔ اب دیکھنا میں اس کی ایسی کی تیسی کرتی۔ تھینک یو"
رعیم مسکرا دیا جبکہ احمد اس مرچی کی باتوں پر ہنس پڑا۔
تو یہ نہ کھیلنے کی نہیں ہارنے کی اداسی تھی۔※※※

فرض سے پیارDonde viven las historias. Descúbrelo ahora