فرض سے پیار-۱۱

1K 91 33
                                    




  وہ کب سے اسکا ہاتھ تھامے بیٹھا اسے دیکھ رہا تھا۔ڈاکٹر نے بتایا کہ وہ ٹھیک ہے گولی کندھے کو زخمی کرکے گزری ہے۔ علاج ہو رہا ہے۔لیکن رعیم بے ہوش ہے۔ کچھ دیر میں انشاءاللہ ہوش آجائے گا۔
کل دوپہر کو اسے ہسپتال لایا گیا تھا اور وہ بے ہوشی کی حالت میں تھا۔ اب فجر ہونے کو تھی۔ جب اسے کمرے میں شفٹ کیا گیا احمد تب سے اس کے پاس بیٹھا تھا۔
مشن کامیاب رہا تھا۔ بچوں کو باحفاظت واپس لے جایا جا چکا تھا اور مجرموں کو سزا سنائی جا چکی تھی۔
رعیم اپنا ہاتھ کسی کے ہاتھ میں محسوس کر رہا تھا۔ اس نے آنکھیں کھولی تو اوپر سفید چھت پر نظریں جا ٹکی۔
اسنے نظریں گھما کر دائیں جانب بیٹھے احمد کو دیکھا۔وہ جو فکرمند سا اڑے حواسوں کے ساتھ بیٹھا تھا اسے آنکھیں کھولتا دیکھ کر مسکرایا۔احمد کا دل چاہا اس کے گلے لگ جائے لیکن اسے ڈرپ لگی ہوئی تھی۔
"تم ٹھیک ہو؟ درد تو نہیں ہورہا؟ کچھ چاہئے؟ ڈاکٹر کو بلاؤں؟" وہ فکرمندی سے پوچھ رہا تھا اس کے اس طرح فکرمندی مندی سے سوال پہ سوال کرنے پر رعیم مسکرایا
۔"پولیس آفیسر۔۔۔ اس طرح کی شکلیں نہیں بناتے" ۔
رعیم اسکی فکر مندی کو ختم کرنے کے لیے بولا۔ اسے بولنے میں دقت ہورہی تھی۔
"ہاں بہت بہادر ہوتے ہیں جانتا ہوں۔ لیکن جب پولیس آفیسر کا بیسٹ فرینڈ ہسپتال میں پڑا ہو تو ایسی شکلیں ہی بنتی ہیں" وہ منہ بسور کر بولا۔
رعیم کو ہنسی آئی۔"ہائے! میں کتنا خوش قسمت ہوں۔ الحمداللہ"
"مکھن نا لگاؤ اب۔ ایک تو بندہ فکر میں آدھ موا ہوجائے اور دوسرے کو پروا نہیں۔ ساری رات بیٹھا رہا اور دعائیں کی۔ رعیم تمہیں اس حال میں دیکھ کر پتا ہے کیا حال تھا میرا؟" وہ مصنوعی غصے سے کہتا آخر میں روہانسا ہونے لگا۔
"میں جانتا ہوں احمد اس دنیا میں تمہارے نزدیک میری کیا اہمیت ہے۔ میں خود کو واقعی خوش نصیب کہتا ہوں۔ میری زندگی میں ہونے کے لیے شکریہ احمد" ۔
وہ دل کی بات کہہ رہا تھا۔ احمد مسکرایا
۔"آپ نے تو شرمندہ کردیا۔ " احمد ماحول کو مزید بہتر کرنے کے لیے بولا۔
"اب جلدی سے ٹھیک ہوجاؤ ۔ مجھے شادی کرنی ہے۔ تمہارے چکر میں میں بڈھا ہوجاؤں گا"
"تمہیں تو شادی کی پڑی رہتی ہے۔ میں تو بالکل ٹھیک ہوں۔ " رعیم اٹھ کر بیٹھنے لگا تو احمد نے بیٹھنے میں اس کی مدد کی۔
"ویسے کوئی اور بھی ہے جسے تمہاری فکر ہے" احمد شریر سی مسکراہٹ لیے بولا۔رعیم چونکا ۔
"کون؟"
احمد نے آنکھوں سے باہر کی طرف اشارہ کیا۔ رعیم نے اس سمت دیکھا۔ شیشے کی کھڑکی کے اس پار بینچ پر انیہ بیٹھی تھی۔
ٹھوڑی پر چہرہ ٹکائے وہ اسی طرف دیکھ رہی تھی۔ لیکن شیشہ ایسا تھا کہ صرف اندر سے باہر دیکھا جا سکتا تھا
۔"انیہ یہاں کیسے؟ احمد تم نے اسے بھی بتا دیا؟ کب آئی؟" وہ پریشان ہوا
۔احمد گلاس میں پانی انڈیل رہا تھا۔ "یہ لو پانی پیو پہلے۔ بتاتا ہوں سب"۔
رعیم نے اسے گھورتے ہوئے پانی کا گلاس تھاما اور پھر ایک نظر باہر ڈال کر پانی کا گھونٹ بھرا اور واپس پکڑا دیا
۔"اینی آپی آئی ہوئی تھی گھر۔ انیہ اور آنٹی بھی آئے تھے۔ انیہ نے ضد کی تھی کہ اینی آپی سے ملنا ہے۔ لیکن اصل وجہ تو آپ تھے موصوف" وہ چھیڑنے کے انداز میں مسکرایا
۔"جب مجھے تمہارے بارے میں پتا چلا تو میں فورا نکلا لیکن دروازے پر انیہ ملی۔ سفید چہرے کے ساتھ۔۔۔"
"مجھے رعیم سے ملنا ہے ابھی اسی وقت" وہ ٹو دی پوائنٹ بات کر رہی تھی۔
"کیوں؟" میں نے پوچھا۔
"پتا نہیں مجھے عجیب سا فیل ہو رہا ہے ویسے بھی مجھے ان سے ملنا تھا بس۔۔۔۔" وہ انگلیاں مڑوڑتی بول رہی تھی۔
"لیکن انیہ ۔۔۔"
"ابھی مطلب ابھی" ۔ وہ پیر پٹخ کر بولی اور پھر۔۔۔۔ میری زبان پھسل گئی۔ میں نے سب کچھ بتا دیا۔ میں اسے ہسپتال نہیں لایا کیونکہ گھر میں ابھی میں نے کچھ نہیں بتایا تھا
۔ رات میں اسکے اتنے فون آئے کہ اسے اسپتال آنا ہے تو مجبوراً مجھے اسے لینے جانا پڑا۔
اتنا روتی ہے وہ اف۔۔۔ فکر مت کرو تھوڑی دیر میں وہ واپس جانے والی ہے اپنے گھر۔ تمیں ملواؤں؟۔
"نہیں" رعیم تو بے اختیار مسکرا رہا تھا فوراً ہاتھ اٹھا کر احمد کو روکا
۔"بس کہہ دو میں ٹھیک ہوں اور آرام کر رہا ہوں۔ اسے کہوں گھر جائے۔ پھر میں ایک سرپرائز دوں گا" رعیم نے آنکھ دبا کر کہا تو احمد کا قہقہہ بے ساختہ تھا۔
"میسنے ! اوکے تم آرام کرو میں ہینڈل کرتا ہوں سب" وہ مسکراتا باہر نکل گیا۔
رعیم گہری سانس لیتا باہر دیکھنے لگا۔وہ اس سے کچھ بات کرتا نظر آرہا تھا۔

فرض سے پیارDonde viven las historias. Descúbrelo ahora