episode 1(پہلا تعارف،پہلا تاثر)

4K 99 40
                                    






اگر کائنات میں موجود تمام پھول یکساں ساحت اشکال اور ایک رنگ کہ وہ ہوتے تو یہ دنیا بہت ہی بے رنگ سی ہوتی ،اسی طرح اگر تمام انسان ایک جیسی عادات و اطوار اور فطرت کے ہوتے تو یہ زندگی اتنی رنگین نہ ہوتیں جتنی ان شخصی احتلافات ،عادات اور اطوار میں فرق کی بنا پر ہے ۔میری کہانی کے کردار بھی پھولوں کی طرح ہیں ،مختلف رنگ ڈھنگ لیے لیکن ذاتی اختلافات انہیں ایک دوسرے کی زندگی میں پیار کی خوشبو 
بکھیرنے  سے کبھی روک نہیں پائے، بلکہ سب ایک ساتھ گلدستے میں پروئے ہوئے ہیںاور ایک دوسرے کی زندگی میں   ہر سوں خوشبو پھیلا رہے ہیں ۔

زندگی کی تلخ شام میں 
اگر ہوا کا رخ بدل جائے 
پل بھر کی دیر نہ ہو 
اور شاداب کریا اجڑ جائے 
جب جیون بھر کے وعدے کر کے
اپنا کوئی بچھڑ جائے 
جب رو کے پکارو لوٹ آؤ 
اور جان سے پیارا مکر جائے 
جب لمبی بہت ہی دوری ہو 
پرانکا جانا ضروری ہو 
زندگی کی کالی راتوں میں
  تم صبر کے چراغ جلا لینا 
  جب یاد آئے پیارا بہت 
  تم مانگ کر اللہ سے دیکھ لینا 
  مشکل وہ  تمہاری مٹا  دے گا 
  تمہارے صبر پر دیکھنا 
  اللہ اجر بہت بڑا دیگا 
  
زندگی انسان سے بہت سے امتحانات لیتی ہے اور یہ امتحان یہ آزمائشیں اللہ نے انسان کی انسان کی زندگی میں پتا کیوں اس کی ہوتی ہیں تاکہ وہ آزماے کے کون اس سے سچی محبت کرتا ہے ہم اللہ سے محبت کے دعوے تو بہت کرتے ہیں ،کبھی سوچا ہے بیٹا ہم ان میں سے کتنوں پر پورا اترتے ہیں ہم پر کوئی ذرا سی تکلیف یا مصیبت آجائے  توہم پورن مایوس اور ناامید ہو جاتے ہیں ایسا پتہ کیوں ھوتاھے بیٹا کیوں کہ ہماری زندگیوں میں صبر کی بہت کمی ہے اگر ہم صبر کے دامن کو مضبوطی سے تھام لے اور اس بات پر پورا یقین رکھیں کہ بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے تو پھر ہمیں کسی اور کے ساتھ کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔
یہ جملہ صرف لفظوں پر مشتمل نہیں تھے بلکہ کسی کی پوری زندگی کے تجربے کا نچوڑ تھے یہ گفتگو ایک ماں اپنی بیٹی سے مخاطب ہوکر کر رہی تھی اور یہ وہ نصیحتیں ہیں جن کی آج ہم میں سے ہر ایک کو سخت ضرورت ہے ،یہ گفتگو ایک ایسی صابر ماں کی ہے جس نے حقیقتا زندگی کی ہر آزمائش کا ڈٹ کا صبر سے مقابلہ کیا اور اللہ کو اپنے لئے سہارا کافی جان لیا ۔

رقیہ بیگم کی عمر صرف 15 سال تھی جب ان کی شادی زاہد صاحب سے ہوئی زاہد صاحب رشتے میں ان کے پھوپھو زاد تھے دونوں نے اپنی زندگی کے جو ماہ و سال ساتھ گزارے وہ بلاشبہ ایک خوشگوار ازدواجی زندگی کی بہترین مثال تھے ،رقیہ بیگم نے اپنے شریک حیات کے ساتھ اچھا اور پیار و محبت سے وقت گزارا لیکن قسمت کو شاید کچھ اور ہی منظور تھا ،ان کے نصیب میں شاہ زیادہ عرصہ ساتھ رہنا لکھا ہی نہیں گیا تھا ،زاہد صاحب اچانک حرکت قلب بندہونے کی وجہ سے وفات پا گئے اور رقیہ بیگم اور پانچ معصوم سے بچوں (محسن علی ،اینا نور ،امل نور، معاذ اور ‏ معیز )کو چھوڑ کر اس فانی دنیا سے کوچ کرگئے ،شاید سچ ہی کہا جاتا ہے کہ اچھے لوگ دنیا سے جلد رخصت ہو جاتے ہیں 

"محبتوں کے حسین رنگ"Where stories live. Discover now