Episode 3(زندگی اب بھی مسکراتی ھے (

996 54 24
                                    

زندگی ہ اب بھی مسکراتی ھے
کہیں کسی گھر کے آنگن میں 
بچوں کی شرارتوں میں۔
زندگی اب بھی مسکراتی ھے 
ان کی مسکراہٹوں  میں ۔۔۔
زندگی اب بھی مسکراتی ھے 
کہیں ماں کی گود میں سر رکھے 
کسی بیٹی کے افسانوں میں 
زندگی اب بھی مسکراتی ھے 
کہیں جھولے پر بیٹھے شام سے پہلے 
کسی لڑکی کی کھنکھناتی چوڑیوں میں   
زندگی اب بھی مسکراتی ھے 
کہیں شام کی چائے پر 
سب گھر والوں کی گپ شپ میں 
زندگی اب بھی مسکراتی ھے 
اندھیری رات میں سنائےجانےوالے 
قصے کہانیوں میں 
زندگی اب بھی مسکراتی ھے 
بابا کے کندھے پر سر رکھ کے 
کوئی خواہش منوانے میں
زندگی اب بھی مسکراتی ھے 
بھیا سے لڑنے جھگڑنے میں 
بہنوں کو ستانے میں 
زندگی اب بھی مسکراتی ھے 
بس ذرا غور سے دیکھنے کی ضرورت ہے ۔
صبح کی اجلی کرنے جلال آباد ہاؤس کے کشادہ لان میں اپنی ہلکی ہلکی روشنی بکھیر رہی تھی ،چڑیوں کی چہچہاٹ نے ماحول کو مزید رونق بحشی ہوئی تھی ۔صبح کے اس نظارے میں ہر طرف ایک قسم کا فسوں طاری تھا ۔حقیقت میں جو منظر طلوع سحر کے وقت ہوتا ہے وہ دن کے کسی اور حصے میں میسر آ ہی نہیں سکتا ۔ہر طرف ایک عجیب سا سکون اور سکوت چھایا ہوا ہوتا ہے ۔

آہستہ آہستہ دن کی چہل پہل اپنے پورے زور و شور سے شروع ہوجاتی ہے ۔ہر کوئی اپنی اپنی سرگرمیوں اور مصروفیات میں مگن ہو جاتا ہے ۔ہر کسی کی دوڑ اپنی منزل اور مقاصد کے حصول کی طرف ہوتی ہے ۔اور ہر روز انسان اپنی خواہشات اور خوابوں  کے راستوں پر چلتا ہوا نئے نئے اسباق سیکھتا ہے اور نئی نئی چیزیں دریافت کرتا ہے اور اصل میں اسی کا نام زندگی ہے ۔

اپنے مقاصد کے حصول کے لئے پوری کوشش اور محنت کرنا ہر انسان کا حق ہے ۔اور انہیں حاصل کرنے کے لئے ہر ممکن تگ ودو  کرنا ہر انسان پر لازم ہے ۔لیکن ان سب سے زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ آپ پرامید ہوں میرے ہر فیصلے اور آنے والے کل کے بارے میں کے اللہ جو بھی کرے گا وہی ہمارے حق میں بہتر ہو گا اور اسی میں ہماری بھلائی ہو گی ۔

انسان کو امید کا دامن کبھی بھی نہیں چھوڑنا چاہیے کیوں کہ یہ امید ہی تو ہے جس پر دنیا قائم ہے ۔ بعض اوقات حالات و واقعات ہماری مرضی کے بالکل خلاف چل رہے ہوتے ہیں ۔  ۔  ۔ ایسے وقت میں پریشان ہونے یا گھبرانے کے بجائے اللہ پر توکل رکھنا چاہیے کچھ ہو رہا ہے اس کی مرضی اور رضا کے مطابق ہو رہا ہےاور وہ کبھی بھی ہمارے حق میں کچھ برا نہیں چاہے گا ۔
________________________________________________________

ایک یاد سنہری آئی مجھے 
تیرے سنگ ہی  زندگی تھی 
جب تیز گرم دوپہروں میں 
باہر کھیلا کرتے تھے 
جب آنگن میں چڑیاں آتی تھی
ہم پیچھے بھاگا کرتے تھے 
جب دو دو سر پے چٹیاں تھیں  
اور یہ ہاتھ میں ہمارے گھڑ یا تھی 
جب لکھتی چھوٹی راتیں تھیں 
اور لمبی ہماری باتیں تھی 
کھلونا ٹوٹنے پر جب رویا کرتے تھے 
کسی کے آنے پر جوٹھا سویا کرتے تھے 
بس وہی لمحے سب سچے تھے 
وہ لمحے بہت ہی اچھے تھے 
جب ہم سب بچے تھے 
ایسی ہی ملی جلی کیفیات کا شکار امل نور ہو رہی تھی ۔بہت سال پہلے ان کے بابا ان کو چھوڑ کر اپنے مالک حقیقی کے پاس چلے گئے تھے ۔امل نور  نے اس بات کو دل سے لگا لیا تھا وہ اپنے بابا سے بے حد پیار کرتی تھی اس نے اپنے بابا کے ہاتھوں کو پکڑ کر چلنا سیکھا تھا اور اب جب وقت آیا تھا ان ہاتھوں اور کندھوں کو سہارا دینے کا تووہ  اُس کے پاس موجود ہی نہ تھے ۔بابا کے چلے جانے کے صدمے نے اس کے اندر ایک خلا سا چھوڑ دیا تھا ۔
وہ کسی سے بھی زیادہ گلتی ملتی نہیں تھی ۔اپنے گھر والوں اور قریبی دوستوں کے علاوہ تو وہ کسی سے زیادہ بات چیت بھی روا نہیں رکھتی تھی ۔اس کے دل میں یہ ڈر بیٹھ گیا تھا کہ وہ جس سے بھی زیادہ مانوس ہو گی وہ انسان بابا کی طرح اسے چھوڑ کر چلا جائے گا ۔بابا کے جانے کے واقعے امل نور کی شخصیت پر ایک بہت گہرا گھاو اور اثر چھوڑ ا تھا ۔  ۔  ۔ 

"محبتوں کے حسین رنگ"Where stories live. Discover now