episode 2(رشتوں کی مضبوط ڈوریں)

1.4K 61 16
                                    

[ ] اس طرح رشتوں کو ملا رکھا ہے 
[ ] گھر ہوں جیسے مانند شاداب گلشن 
[ ] چہروں پر مسکراہٹوں کو سجا رکھا ہے 
[ ]  ڈر نہیں لگتا اب ان سرد ہواؤں سے 
[ ] بھایئا کی طرح خود کو مضبوط بنا رکھا ہے 
[ ] آئے نہ آنسو  کسی کی آنکھ میں 
[ ] یہ فرض اپنے کندھوں پر اٹھائے رکھا ہے 
[ ] ڈرتی نہیں ہوں زندگی کی تلخ حقیقتوں سے 
[ ] میرے بابا نے مجھے جینے کا سلیقہ بتایارکھا  ھے 
[ ] 
[ ] زندگی کبھی بھی انسان کے لئے آسان نہیں ہوتی انسان ہر روز نت نہیں مشکلات سے گزرتا ہے ،اسے ہر حال میں جینا ہی پڑتا ہے ،الجھی گتھیاں خود سمجھانی پڑتی ہیں ،حالات کتنے بھی کٹھن کیوں نہ ہو ان کے اندر سروائیو کرنا پڑتا ہے اسی کودانشمندی کہتے ہیں انسان حقیقت میں ایک بہت بڑا سروائیور ہے جوہر دن مختلف قسم کے حالات سے ہو تو گزارتا ہے اور اپنی طاقت اور قوت کے مطابق محنت اور کوشش کرتا رہتا ہے ،یہ کوشش اور محنت زندگی میں آگے بڑھنے کی ہوتی ہے دنیا کے نظام کے ساتھ چلنے یا دوڑنے کی کوشش ہوتی ہے ۔
[ ] اگر ہم اس دور میں اپنے خونی ریشتوں دوستوں اور پیاروں کو ساتھ لے کر چلے نہ تو یقینا ہماری راہ کی مشکلات کسی نہ کسی حد تک کم ہو جائیں گی دوسروں کی راہ سے کانٹے اٹھانے والوں کہ اپنے راستے سے بھی پتھرہٹادیئے  جائیں گے کیونکہ کسی کی خیر اور بھلائی کے بارے میں سوچنا بغیر کسی نفع ونقصان کی پرواہ کیے یہی اصل میں احسان ہوتا ہے اور اللہ محسنین کا اجر کبھی ضائع نہیں کرتا ۔
[ ] لیکن اگر ہم دوسروں کی راہ کوہار دار بنائیں گے ،تو یاد رکھئے گا کہ دنیا بہترین مکافات عمل کی جگہ ہے ایک دن ہمیں اسی اپنی کانٹوں بھری راہ سے گزرنا پڑے گا لیکن اگر ہم اپنے پیاروں کو ساتھ لے کر قدم با قدم ہاتھ تھام کر چلیں تو سفر بہت آسان ہو جائے گا  اور منزل ہمارےسامنے ہماری منتظر ہوگی ۔
[ ] یاد رکھیے گا کی رشتوں کی دور بہت نازک ہوتی ہے یہ ڈور  اعتبار اور اعتماد کے ساتھ جڑی ہوتی ہے  ،ذرہ سا کسی رشتے میں اعتبار کو ٹھیس پہنچی یہ ڈور ایک جھٹکے سے ٹوٹ جاتی ہے ،جس طرح نازک چیزوں کو بڑی احتیاط سے رکھا جاتا ہے اسی طرح نازک رشتوں کو بھی بڑی احتیاط سے رکھنا پڑتا ہے ۔
[ ] رشتہ اک پھول کی طرح نازک ہوتا ہے جسے جتنا پانی دیتے رہو وہ وہ خوب رونق دے گا اور اگر اسے ذرا بھی سختی سے پکڑو گے تو وہ پتیاں پتیاں ہوکر بکھر جائے گا جیسے پھول ایک گلدستے میں اچھے لگتے ہیں ویسے ہی سب رشتے بھی ایک لڑی میں پروئے خوبصورت لگتے ہیں ۔
[ ] اپنی زندگی کے بہت سے خوشگوار لمحات اور مواقع اکثرہم چھوٹی چھوٹی غلط فہمیوں کے پیچھے برباد کر دیتے ہیں اور بعد میں صرف پچھتاوا ہمارا مقدر بن جاتا ہےہم  بس یہی سوچتے رہ جاتے ہیں کہ کاش ہم ایسا نہ کرتے۔
[ ] ہر رشتے میں اعتبار کا عنصر بہت لازمی ہوتا ہے ،یوں سمجھ لیجئے ہر رشتے کی بنیاد ہی اعتبار پر ہوتی ہے چا ہے  وہ دو ستی کا ہو  ،خونی رشتوں کا ہو ،پیارومحبت کا ہو یا کوئی کاروباری تعلق ہو اگر رشتوں میں اعتبار نہ رہے تو بعض اوقات انتہائی قریبی اور عزیز رشتے بھوجھ لگنے لگ جاتے ہیں  اور وہ ایک ایسی ناگوار چیز کا نام ہے جیسے کوئی بھی خوشی سے اٹھانا نہیں چاہتا جب بھی انسان بوجھ اٹھاتا ہے بہت بوجھل دل کے ساتھ اٹھاتا ہے ،لیکن اٹھانا ضرور پڑتا ہے چاہے وہ رشتوں کا بوجھ ہو یا کسی تعلق کا یا پھر مجبوری میں بندھے ہوئے کسی بندھن کا ۔
[ ] ۔۔،۔۔۔،۔
[ ] چھوٹوں کے کمرے میں پہنچ کر چچی جان کیا دیکھتی ہیں کہ معیذ تیار کھڑا  بال برش کر رہا ہے عمان باتھ روم  کے دروازے کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑا ہے )
[ ] آسیہ بیگم :یہ آج تم لوگ کیسے خودباخود جاگ گئے اور یہ  معاذ کیا واش روم میں ہے۔
[ ] عمان: چچی جان ہم تو اسی وقت جاگ گیئے  تھے جب آپ نین بھائی کو صلواتیں سنا رہی تھی اور یہ معا ذ ہمیشہ باتھ روم میں جا کر سو جاتا ہے میں کب سے انتظار کر رہا ہوں ۔
[ ] آسیہ بیگم : عمان تم چلو میرے ساتھ ،دیا آپی کا باتھ روم یوز کر لو اور معیذ کو ساتھ لے کر فورا نیچے پہنچو۔ (معاذ اور معیذ ذ دونوں جڑواں تھے اور دونوں کی شکل و صورت بھی تقریبا ایک جیسی تھی بس معاذ  کے دائیں گال پر ایک  تل تھا جس کی بدولت گھر والے ان کی شناخت کر  پاتے تھے ۔معاذ ،معیذ  اور عمان تینوں ہم عمر تھے اور نویں جماعت کے طالب علم تھے ۔
[ ] )آسیہ چاچی اب  عمان  کو ساتھ لے کر دیالوگو  کہ کمرے میں داخل ہوئی جہاں زارا آئینے کے سامنے کھڑی بالوں کا پف بنانے میں مصروف تھی اینا نور عبایا پہن رہی تھی ۔
[ ] آسیہ چاچی :زارا  بیٹا تمہیں پتا بھی ہے جب تائی اماں کو یہ سب کچھ پسند نہیں ہے تو پھر تم وہی کام کیوں کرتی ہو جس پر وہ ناراض ہو ں۔ 
[ ] زارا:   اماں آج آپ مجھے بتا ہی  دیں تائی ا ماں کو  آخر پسند ہی کیا ہے ،انہیں تو ہماری جائز بات پر بھی اعتراض ہوتا ہے اگر ہم ان کی مرضی کے مطابق چلنے لگ جائیں تو یونیورسٹی میں پینڈو کہلائے جائیں گے ۔
[ ] آسیہ چاچی :زارا بیٹا یہ تم کیسی باتیں کرتی رہتی ہوں اپنے ساتھ ساتھ مجھے بھی سب کے سامنے شرمندہ کرواتی ہو۔(آسیہ بیگم تھوڑا برہم ہوئی)
[ ] اینا نور: چچی جان آپ پریشان مت ہوں ہم تو ہمیشہ سکاف لیتی ہیں،   اس لئے جب  بال نظر ہی نہیں آئیں گے تو تائی اماں کو کیا اعتراض ہوگا  ،آپ نیچے چلے ہم بس ابھی آتی ہیں  ۔ 
[ ] آسیہ بیگم :اور ہاں یہ دیا کد ھر ہے نظر نہیں آرہی ۔
[ ] اینا نور:وہ چچی جان دیا ،امل ،رومیسہ اور اسمارہ کو اٹھانے گئی تھی شاید اب  انکو تیاری میں ہیلپ کروا رہی ہوگی۔
[ ] 
[ ] آسیہ بیگم اب نیچے سیڑھیوں کی جانب   چل دی تھی کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ دیا سب کو لے کر ناشتے کی میز پر آجائے گی ۔دیا انتہائی سمجھدار اور عقل مند لڑکی تھی اس نے چھوٹے بہن بھائیوں کی بہت سی ذمہ داریاں اپنے سر لے رکھی تھی اور انہیں بخوبی پورا کر رہی تھی ذوالقرنین  پر اس کا کوئی زور نہیں چلتا تھا کیوں کہ دیا اور وہ دونوں ہم عمر تھے زلقرنیں  اسکے ساتھ بہت فرینک تھا اس کی کسی نصیحت یا بات کو سنجیدگی سے نہیں لیتا تھا ۔
[ ] دیا انہیں تیار کروا چکی تھی اور اب وہ تینوں (امل ،رومیسہ اور اسمارہ) اپنے اپنے عبایا پہننے میں مصروف تھی ۔
[ ]  دیا:  زوئی  یہ تم نے ابھی تک عبایا کیوں نہیں لیا پتہ تو ہے نیچے سب لوگ ناشتے پر انتظار کر رہے ہیں ۔
[ ]  دیا اب اپنے کمرے کا رخ کر چکی تھی جہاں زارہ اور اینا دونوں تیار کھڑی تھی  بس زارا نے ابھی عبایا نہیں لیا تھا۔
[ ] زارا: ایک تو یہ ہمارے گھر میں صبح صبح تیار ہونے کا حکم نامہ پتا نہیں کیوں جاری کردیا جاتا ہے ھالا کے ہماری یونیورسٹی ٹائمنگ 9 بجے  ہیں آپ پہلے ہی عبایہ لے کر بیٹھو تو ناشتے کی میز اس کا سارا خلیہ   خراب ہوجاتا ہے ۔
[ ] دیا: اچھا اب زیادہ باتیں  نہ بناؤ اور فورا نیچے آ جاؤ ۔
[ ] ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،۔
[ ] لوگوں کے گھر میں عموما ڈائنیگ روم  میں کھانے کی ایک میز  ہوتی ہے ،لیکن ان کے گھر میں کثرت افراد کی وجہ سے دو عدد ڈائننگ ٹیبل  موجود تھے ۔
[ ] بڑے ابا کی یہ خاص عادت تھی  جب تک گھر کے تمام افراد ڈائننگ روم میں موجود نہ ہو  وہ ناشتہ شروع نہیں کرتے تھے سب جب نیچے آگئے تو ناشتہ صرف کیا گیا۔
[ ] تقریبااب  سب افراد ناشتے سے فارغ ہو چکے تھے ۔
[ ] بڑے ابا  ذوالقرنین،  تم آج  بچیوں کو یونیورسٹی تک چھوڑ آنا ،زید کو فیکٹری سائٹ پر ایک ضروری کام سے نکلنا ہے اور ہم انہیں وقت پر پہنچا دینا کسی قسم کی کوتاہی نہیں ہونی چاہیے ۔
[ ] نین :جی بڑے ابا ہم بس ابھی نکلتے ہیں بےبس اوپر سے گاڑی کی چابی لے کر آیا ۔
[ ] )ساڑ ھے آٹھ بج رہے تھے اور کالج اور سکول والے تو کب کے  ڈرائیور کے ساتھ جا چکے تھے لیکن یونیورسٹی والوں کی ذمہ داری گھر کے مردوں پر تھی) 
[ ] دیا:  (زارہ سے سرگوشی کرتے ہوئے )یہ  اینا اس وقت کیدر ہے تم دونوں فوگاڑی میں بیٹھنے کی تیاری کرو ورنہ اماں  کا پتا تو ہےصبح ہی صبح آجکل کینسر کے سست پن پر پورا لیکچر دے ڈالیں گی  ۔
[ ] زارا:  وہ اینا اوپر کمرے سے نوٹس اٹھانے گئی تھی اب بس آتی ہی ہوگی ۔
[ ] )سیڑ ھیوں کا خوبصورت منظر عام )
[ ] نین جاگتی سوتی آنکھوں کے ساتھ چابیاں لینے اوپر جا رہا تھا ،دوسری طرف اینا اپنے ہی خیالوں میں گم نوٹس اٹھائے سیڑھیاں اتر رہی تھی ،بے دھیانی میں دونوں اس طرح ٹکرائے کہ ہوش اس وقت آئی جب اینا اپنے منگیتر صاحب کی بانہوں میں جھول رہی تھی ۔اینا نے فوران سے پہلے خود کو کمپوز کیا اور کیا دیکھا کہاس کے سارے نوٹس سیڑ ھیو  ں پر بکھڑے پڑے ہیں۔ 
[ ] اپنے رشتے کو بیان کیسے کروں میں 
[ ] میں بولوں نہ تو بھی  سمجھ جاتا ہے وہ 
[ ] وہ بتائے نہ تو بھی جان جاتی ہوں میں 
[ ] 
[ ] نین:  یہ صبح صبح تم  کس کے خیالوں میں  کھوئی ہوئی تھی ،یا مجھ سے ٹکرانے کا کوئی خاص شوق ہے تمہیں ۔
[ ] اینا نور:  بالکل غلط سمجھ رہے ہیں آپ ،نہ تو میں کسی کے بارے میں سوچ رہی تھی اور نہ ہی مجھے آپ سے ٹکرانے کا بیہودہ شوق ہے ۔
[ ] ذوالقر نین: میرے علاوہ کسی کے بارے میں سوچنا بھی مت ورنہ تمہیں میرا پتا تو ہے ہی( اس نے اینا کو گھورتے ہوئے کہا) 
[ ] اینا:  (حود سے سرگوشی کرتے ہوئے)نیند سے آنکھیں کھلتی نہیں موصوف اور دھمکیاں  دیکھو مجھے دے رہا ہے )
[ ] نین: تم تم نے کچھ کہا مجھ سے یا خود سے باتیں کرنے کی بیماری لاحق ہو گئی ہے ۔
[ ] اینا: میں  یہ سوچ رہی تھی کہ اگر میں ابھی یہاں سے تائی اماں کو آواز لگاؤں تو وہ آپکی آنکھیں اور عقل دونوں کا خوب علاج فرمادیں گی۔ 
[ ] نین اس ڈر سے کہ کہیں اینا تائی اماں کو آواز لگا ہی نہ دے فوران اس کے ہونٹوں پر ہاتھہ رکھ دیا ••••پھر کیا تھا دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں ایسا کھوئے کہ اردگرد کے ماحول کا کوئی ہوش نہ رہا۔
[ ] ذوالقرنین ایک پر کشش اور وجیحہ پرسنلٹی کا مالک انسان تھا، کھانے میں تھوڑا پیٹو اور سونا اس کی کمزوریاں تھی لیکن اس کے باوجود اس کی آ نکھوں کی چمک اورسرخی مائل چہرہ دیکھنے والوں کو پہلی ہی نظر میں مبہوت کر دیتا۔ذوالقرنین ایم بی اے کرنے کے بعد آجکل گھرمیں ہی ہوتا تھا ،ویسے تو اس کا ارادہ فیملی بزنس جوائن کرنے کا کی تھا لیکن اپنی سستی کی وجہ سے ابھی وہ کام میں کوئی خاص  انڑسٹ  نہیں لے رہا تھا !
[ ] دوسری طرف اینا نور بھی کسی سے کم نہیں تھی ،وہ 23 سال کی چھوٹی چھوٹی آنکھوں ، دودھیا رنگت اور گلابی ہونٹوں کی مالک ایک پیاری اور  معصوم سی لڑکی تھی ،جس کا دل بہت نرم اورہر  کسی کی خیر خواہی کا ہواش مند ہی ہوتا۔ 
[ ] اینا نور ،امل سے دو سال بڑی تھی،وہ دونوں بہنیں اور سہیلیاں زیادہ لگتی تھی  انہیں دیکھ کر ایسے لگتا تھا جیسے ایک جان دو قالب ہوں۔ 
[ ] دونوں  بہنوں سے بڑے بھائی محسن علی تھے ،بڑے بھیا نے بابا کے جانے کے بعد انہیں بالکل بابا کی طرح پیار کیا تھا ،بڑے آباد تایا جان اور چچا جان نے اپنی طرف سے انہیں کبھی باباجان کی کمی محسوس نہ ہونے دیں ۔
[ ] ۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔،۔
[ ] 
[ ] زارا :تم گاڑی آہستہ نہیں چلا سکتے نین، دیکھ نہیں رہے میرا سارا کاجل پھیل گیا ہے ۔
[ ] ذوالقرنین: حد کرتی ہو تم بھی زوئی،  اب تمہیں دیکھوں یا گاڑی چلاوں۔ 
[ ] زارا :تم تو ایسے کہہ رہے ہوں جیسے تم نے کبھی گاڑی چلاتے ہوئے پیچیچھے  مڑ کر دیکھا ہی نہ ھو ،جسے دیکھنا ہوتا ہے اسے گھور گھور  کر بھی دیکھ لیتے ہو ۔(زارا کااشارہ اینا کی طرف تھا )
[ ] اینا نور: یہ تم لوگ مجھے کیوں اپنی لڑائی میں گھسیٹ رہے ہو  اور زوئی تم  یہ سب کچھ گھر میی کرلیا کرو ناں کیا ضرورت ہے اس موٹو سے منہ مار ی کرنے کی ۔
[ ] ذوالقرنین:   ہاں ہاں جیسے تائی اماں تو تم لوگوں کو یہ سب کچھ کرنے دیں گے نہ انھی کے ڈرسے تو تم لوگ میری گاڑی میں یہ سب کچھ کرتی ہوورنہ ہمت ہو تو کسی دن گھر سے یہ زیب و زینت اختیار کرکے آنا ۔
[ ] زارا:پتا تو ہے تمہیں تائی اماں کا وہ تو بس یہی چاہتی ہیں کہ ہم ایسے ہی منہ اٹھاکر یونیورسٹی چلے جائیں اور پھر باقی سب کے منہ دیکھتے رہ جائیں ۔
[ ] اینا نور: اب پلیز  تم دونوں یہ لڑنا بند کرو گے میری  سمجھ میں نہیں آتا کہ تم دونوں بات کرتے کرتےجھگڑنے کیوں لگتے ہو ۔
[ ] ،نین  :(اینا  نور سے )آپ بتا ئیں میڈم کس کی سائیڈ پر ہیں ،اپنے منگیتر یا کزن کی ۔
[ ] اینا نور:  آف کورس ،اپنی بیسٹ کزن اور فرینڈ ز ارا کی ۔
[ ] (زارا  یہ سن کر خوشی سے جھوم اٹھی اور اسے گلے لگا لیا )
[ ] ذوالقرنین: تم اپنے منگیتر سے دغا اور اس کے دشمن سے وفاداری نبھاکر  اچھا نہیں کر رہیں اینا نور۔ (اس نے مصنوعی خفگی والے انداز میں کہا )
[ ] 
[ ] اینا نور؛ میں تو ایسے ہی کروں گی آپ بتائیں کیا کر لیں گے آپ ۔
[ ]  نین: بھگا کر لے جاؤں گا تمہیں ۔
[ ] اینا نور: بھگا کر دکھائیں پھر ۔
[ ] زارا۔ دماغ تو نہیں حراب ہو گیا تمہارا   نین، گھر میں اگر کسی کو پتا چل گیا ناں، خاص کر بڑے ابا کو تو تمہاری وہ تاریخی چھترول ہوگی نہ کہ ساری عمر یاد رہے گی ۔
[ ] نین: چلو ٹھیک ہے پھر ،زارا کو میں  یونیورسٹی اتارتا ہوںاور ہم دونوں پھر چلتے ہیں کسی اچھی سی جگہ پر ڈیٹ کے لئے ۔
[ ] اینا نور تو ڈیٹ کہ سن کر ہی شرم سے لال پیلی ہو رہی تھی ،اور ابھی کچھ دیر پہلے کا سارا کانفیڈنس بھک سے اڑ چکا تھا ،کیوں کہ وہ اچھی طرح جانتی تھی  کہ ذوالقرنین ان لوگوں میں سے ہے جو ایک بار اگر کچھ کرنے کی ٹھان لے  توپھر اسکو کر کے ہی دم لیتے ہیں ۔
[ ] نین: زارا گھر میں بتائے گا کون اگر تم نے بتا یا نہ تو میں بھی بتاؤں گا بلکے حوالے کرونگا تائی اماں وہ ساری میک اپ کاسمیٹکس اور ڈائجسٹ جو تم لوگوں نے مجھ سے منگوائے تھے وہ میرے پاس ہی پڑے ہیں ابی ۔😂
[ ] زارا اب اینا کی منتیں کر رہی  ۔تھی کہ وہ اس کے بھائی کے ساتھ چلی جائے ۔
[ ]  ۔،۔۔۔،۔۔۔۔۔،۔۔۔۔
[ ] دادی جان: ہمیں زندگی  میں میانہ روی اختیار کرنی چاہیے کوئی بھی چیز حد سے بڑھی ہوئی نہیں ہونی چاہیے یہ نہیں کہ کھاتے ہیں تو کھاتے ہی رہ جائیں ،سوتے ہیں تو سوتے ہی رہ جائے ،سوتے ہیں تو سوتے ہی رہ جائیں کوئی چیز پسند نہ آئے تو دن رات اسی کے حصول میں سرگرداں ہیں اگر لباس و آرائش کے شوقین نے تو بس کو اٹھتے بیٹھتے ہی ہیں فکر لاحق رہے کہ ہمیں فیشن کے مطابق چلنا ہے بھئ ماڈرن دور کے لوگ جو ٹھہرے 
[ ] زارا: اینا تم پلیز اس کے ساتھ چلی جاؤ ورنہ تمہیں پتا تو ہے اس کا یہ پورے گھر میں ہنگامہ برپا کر دے گا اور تائی اماں ہم دونوں پر مزید پابندیاں عائد کردیں گی جو مجھے بالکل بھی گوارا نہیں ہے۔ 
[ ] 
[ ] ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[ ] (،دادی جان گھر کے چھوٹے بڑوں سب کو رات کو کچھ کام کی باتیں سمجھاتی تھی ،رات کے کھانے کے بعد لاونج میں ایک  مخفل سی لگی ہوتی اور سب دادی اماں سے مختلف سوال کیا کرتے اور دادی ان کے تشفی بخش جواب دیتی)
[ ] کھانے کی بات ہو تو ہمیں زندہ رہنے کیلئے کھانا چاہیے نہ کہ کھانے کے لیے زندہ رہنا چاہیے جابہ متوازن غذا نہیں کھاتے تو وہ جسمانی طور پر بیمار اور روحانی لحاظ سے بھی سستی اور کاہلی کا شکار ہو جاتے ہیں ۔
[ ] اگر سونے کی بات کرے تو زیادہ سونا انسان کو سست کردیتا ہے دیکھا جائے تو اللہ کی دیگر مخلوقات کیسے رات کو وقت پر سوتے اور صبح طلوع آفتاب سے پہلے اٹھ کر اللہ کی حمد و ثنا کرتے ہیں ۔
[ ] اور اگر ہم اپنی دیگر خواہشات کا جائزہ لیں تو ان میں بھی اعتدال سے کام لینا چاہیے کیوکہ اسراف کرنے اور حد سے بڑھنے والوں کو اللہ پسند نہیں فرماتا ۔
[ ] پر ہم بچوں ایک اور بات رزق اور روزی کی فکر میں ہلکان ہونا چھوڑ دو وہ رب  جو سمندر کی تہوں میں موجود محلوق کو رزق  فرایم کرتا ہے وہ آپ کے لئے بھی اسباب پیدا کر دیگا لیکن اسباب سے کیسے فائدہ اٹھانا ہے یہ میرے بچوں آپ پر منحصر ہے ۔
[ ] اس کے ساتھ ہی آج کالیکچر اپنے اختتام پر پہنچتا ہے مجھے امید ہے کہ آپ سب لوگ ان باتوں پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے اب سب  اپنے اپنے کمروں میں سونے کے لیےچلے جائیں کیوںکہ رات بہت ہو رہی ہےاور صبح وقت پر اٹھنا بھی ہوتا ہے سب کو ۔(دادی جان اب سب کو سونے کا خکم نامہ جاری کر رہی تھی) 
[ ] 
[ ] ،،،۔۔۔،۔۔
[ ] ماں جیسی صابر بھی 
[ ] باپ جیسی بہادر بھی 
[ ] صورت کی پریوں جیسی 
[ ] پھولوں کی کلیوں جیسی 
[ ] بیٹیاں تو گڑیوں جیسی ہوتی ہیں 
[ ] چڑیوں کی مانند اک دن 
[ ] اڑ جاتی ہیں 
[ ] یاد جب اپنوں کی آتی ہے 
[ ] چپکے چپکے رو لیتی ہیں 
[ ] بیٹیاں بہت نازک ہوتی ہیں 
[ ] ۔۔۔۔۔۔۔۔ا مل  نور کی کزن رومیسا اسمارہ اسے بے حد عزیز تھی،تینوں کے درمیان لازوال دوستی تھی وہ ایک ہی روم شیر کرتی تھی ،جب ایک ساتھ ہوتی تو انھیں دن رات کا کوئی ہوش نہ تھا  ،بس اپنی ہی مستی میں گم ہوتی ،ان کے درمیان وہ کزنز والی روایتی لڑائیاں کبھی بھی وقوع پذیر نہیں ہوئی تھی بس ان کے درمیان کچھ ایسا تھا جو یہ ثابت کرتا تھا کہ خون واقعی پانی سےگاڑھا ا ہوتا ہے ۔
[ ] حیرت کی بات یہ تھی کہ تینوں کےشوز سائز مختلف تھے پھر بھی وہ انتہائی مہارت سے ہو تو ایک دوسرے کے جوتوں اور کپڑوں میں فٹ  لیتی ،عمل نور ،رومیسہ اور اسمارہ کی آوازیں جب گھر میں گونجتی تو ایسے لگتا جیسے ایک دم سے ہیں آسمان پر قوس قزح کے رنگ بکھر گئے ہو ۔
[ ] بہت دور اک نگری میں 
[ ] نادان سی لڑکی رہتی تھی 
[ ] وہ چاند سے باتیں کرتی تھی 
[ ] بے نام سے سپنے بُنتی تھی 
[ ] اندھیروں سے وہ ڈرتی تھی 
[ ] بارش پے وہ مرتی تھی
[ ] تتلی جو پکڑے ہاتھوں میں 
[ ] پھولوں سی وہ لگتی تھی 
[ ] چھوٹی چھوٹی باتوں پر 
[ ] گھنٹوں بیٹھ کے ہنستی تھی 
[ ] کچھ ضدی سی کچھ اڑیل سی 
[ ] کچھ سیڑیل سی وہ لگتی تھی 
[ ] بہت دور اک نگری 
[ ]  نادان سی لڑکی رہتی تھی 
[ ] اسمارہ کیوٹ سی موٹی موٹی آنکھوں ،گوری رنگت درمیانے قد ،ٹھوڑی پر تل لیے بالکل کوئی گڑیا معلوم ہوتی ہو جب مسکرانے سے اس کے گال پر ڈیمپل پڑھتے تو یہ معصوم سا چہرہ مزید حسین لگتا۔ محترمہ تھوڑی معصوم طبیعت کی مالک ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر موڈ آف کرلیتی ہیں ،اور تھوڑی زندگی بھی ہیں  ہیں لہٰذا جب اپنی منوانے پر آئے تو پھر مجال ہے کہ کسی دوسرے کی بات پر کان دھریں ۔
[ ] س رومیسا لمبے سلکی بال ،لمبی سی آنکھیں اور عمر میں امل نور اسمارہ سے چھوٹی ہے لیکن قد کی مناسبت سے  پورے خاندان سب سےاونچی ہیں جب بولتی ہے تو اتنی سپیڈ سے کے امل کو اسے بریک اور اسمارہ کو الفاظ کی تشریح کرنا پڑتی ہے ۔
[ ] محترمہ نہ صرف کوکنگ ایکسپرٹ ہیں ،بلکہ بلا کی کانفیڈنٹ بھی کوئی کچھ غلط کہے تو سہی مقابل کا منہ بھی توڑ سکتی ہیں اور اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ موقع محل کوئی بھی ہو ہمیشہ سیلفی لینے کے لیے تیار کھڑی ہوتی ہے ۔سارے گھر والے اور دوست خصوصا تایا ابا اس سے فرمائش کرکے پلاؤ یا بریانی بنواتے یہاں تک کہ اس کی کلاس فیلوز بھی  اسے نہیں بخشتے ۔••••

جاری ہے۔۔۔۔۔۔

Dont forget To Give Your View and Coment below.

Also vote for our  Story If You Like It.

"محبتوں کے حسین رنگ"Donde viven las historias. Descúbrelo ahora