خانہ بدوش

99 4 2
                                    

( آگے بڑھنے سے قبل انتباہ و انتساب پڑھ لیں، نیز یہ کہانی حساس موضوعات پر مبنی ہے، کمزور دل افراد اسے اپنی زمہ داری پہ پڑھیں)

انتساب

میرے دادا مرحوم اختر حسین کے نام جن سے لکھنے کا فن مجھ ورثے میں ملا۔

السلام علیکم!
اس حصے کو میں نے خانہ بدوش کا عنوان یوں دیا کیونکہ یہ مذکورہ کتاب اور اس کہانی کو قلمبند کرنے میں جو جہد مجھے ملی ہے اس تذکرہ شامل ہے۔ مذکورہ کہانی بنجاروں (یعنی دنیا کی تاریک رنگینیوں میں لپٹے ) افراد کی داستان ہے سو مجھے بھی مختصر عرصے کے لیے خانہ بدوشی اختیار کرنی پڑی تھی۔
یہ کہانی میرے مختصر سے قلمی کریئر کی اب تک کی سب سے مشکل کہانی ثابت ہوئی ہے۔ کیونکہ اس میں موجود دو عنوان نان فکشن ہیں جنہیں میں نے فکشن میں تبدیل کرنے کی پوری کوشش کی ہے، اس کہانی میں میں نے اپنے دو سال پہ مبنی ریسرچ رپورٹ شامل کی ہے۔
سب سے پہلا عنوان مذہب کا ہے، میرے نزدیک مذہب انسان کی پہچان ہوتی ہے (چاہے ظاہری ہو) اور اس میں میں نے جو موضوع چنا ہے وہ شیطان پرستی سے متعلق ہے یعنی عرف عام میں لادینیت وغیرہ، انسان کس طرح شیطان کے قریب ہوتا ہے اپنی بربادی و تباہکاریاں دیکھتے ہوئے بھی، اور ایسے انسان کے جذبات، احساسات وجوہات نیز وہ تمام باتیں جو ہم عام طور پر نہیں جانتے یا ان کا جاننا ضروری نہیں سمجھتے اس میں آپ پڑھ سکیں گے۔ شیطان پرستی سے متعلقہ تمام ریسرچ میری خود کی ہے، اپنی اس ریسرچ میں میں نے فرانسیسی ربی یوزف سربیاسکی سے رہنمائی لی تھی، ٹرینیٹی چرچ اور چرچ آف کیمبرج کے اسٹوڈینٹ اور پادریوں کی رہنمائی مجھے حاصل رہی، انہیں خوشی تھی کے بحیثیت مسلمان میں نہ صرف انہیں ان کے عہدے کے حوالے سے متعبر مانتی ہوں بلکہ ان کے مذہب کے لیے لکھتے ہوئے میں نے انہی سے مدد لی۔ اس کے علاوہ اس سیاہ دنیا سے تعلق رکھنے والے افراد سے سوشل میڈیا فورمز کے ذریعے جو معلومات حاصل ہوئی میں نے قلمبند کیا، اور آپ کو جان کر حیرت ہوگی بحیثیت انسان میں نے ان بالکل اپنے جیسا پایا عام سا ، انہیں قریب سے جاننے اور عقیدے کو سمجھنے کے لئے میں نے ان لوگوں کی تعلیماتی پروگرام جوائن کیے بذات خود اس عقیدے کو  اپنانے کا بہانا گڑا اور یقین کیجیے وہ وقت زندگی کا کا مشکل ترین وقت تھا، میں نمازوں میں اپنے ایمان کی سلامتی اور شیطان سے بچنے کی دعائیں مانگتی ماہر نفسیات سے سیشنز لیتی، مگر اللّٰہ نے مجھے چھوڑا نہیں میرا ساتھ دیا اور مجھے یہ باور کروایا کہ میں کیا ہوں!....
اب دوسرا حصہ، بہت اہم ہے ، اسی کی دہائیوں میں نیویارک اپنے بدترین حالات سے گذر رہا تھا، اسی میں ہی ایک رات ایسی گزری کہ اس میں کئی قتل ایک ساتھ ہوئے نیز مافیا کے رحم و کرم پر شہر تھا، ڈرگز اناج کی طرح دستیاب تھا، نیز تعصب پرستی و وائٹ سپرمیسی اپنے عروج پر تھی، نیویارک کے سینئر شہریوں نے اپنی آپ بیتی مجھے یوں سنائی گویا ابھی گزری ہو، اس حصے کے لیے مجھے بہت ریسرچ کرنی پڑی تھی نیویارک باسیوں سے ان کا اس دہائی میں استعمال ہونے والے لب و لہجہ اور رہن سہن جو معلوم ہوا میں نے تحریر کردیا۔ اس کے علاؤہ اس حصے کو میں نے شہر آفاق ناول بلیک نائٹ سے متاثر ہو لکھا ہے۔ اس کہانی میں تعصب کے تناظر میں پروان چڑھے مجرم کو دیکھیں گے، جو ایک ایسا انسان ہے جسے نظام نے بنایا اور معاشرے کو اس نے وہی دیا جو معاشرے نے اسے دیا تھا۔
کہانی کا تیسرا حصہ محبت پہ مبنی ہے، یہ کتھا بہت عجیب ہے کیونکہ اس میں میں نے اس عشق کا زکر کیا ہے جس میں چاہ نہیں ہوتی، یہاں اس عشق کی بات ہے جو یکطرفہ ہوتی ہے، اور اس کی ایک ہی ڈائمنشن ہے تنہائی۔ عشق کو ٹھکرانے والے یا اس کی بے حرمتی کرنے والوں کے دل کیسے گہن کھاتے ہیں آپ اس میں پڑھ سکیں گے۔
ہاں اس میں میں نے ایک مِتھ یعنی دیومالا بھی لکھی ہے، یہ میری اپنی تخلیق ہے، جانے کیسے لکھا گئ میں بھی حیران ہو۔
آخری حصہ انتقام پہ تحریر ہے، انتقام وہ جذبہ ہے جو کسی طور چین نہیں لینے دیتا، اور یہ کبھی نہ ختم ہونے والا چکر ہے، آپ بدلہ چاہیے حق پہ کی  یا ناحق کہیں نہ کہیں آپ بھی اس میں اتنا ہی مرتے ہیں جتنا سامنے والے کو مارنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ کہانی میں نے قصہ چہار درویش سے متاثر ہو کر لکھی ہے، مگر یہ دریویشوں کی رام کتھا نہیں بلکہ بنجاروں کے گناہوں کی کتھا ہے۔ میری گزارش ہے کہ کہانی پڑھ کر انہیں جج مت کیجئے گا بس سبق لیجئے گا۔
اس کے تمام جملہ حقوق ادارہ عمران ڈائجسٹ خواتین ڈائجسٹ گروپ کے پاس محفوظ ہیں۔
میں بہت شکر گزار ہوں ان تمام لوگوں کا جن کی وجہ سے یہ کہانی مکمل ہونا انجام پائی ہے۔ مگر سب سے زیادہ شکر گزار میں اپنے اللّٰہ کی ہوں جس نے قدم قدم پر میرا ساتھ دیا۔
امید کرتی ہوں آپ کو یہ ناول پسند آئیگی، آپ کی رائے میرے قلم کی زندگی کی وجہ بنے گی سو رائے دینا نہ بھولیے گا۔
آپ دعاؤں کی طلبگار ہوں۔
یمنی اختر۔

banjaranama بنجارہ نامہWhere stories live. Discover now