سیاہ سڑک ویران سڑک پہ وہ گاڑی بہت تیز رفتار چل رہی تھی اور لڑکھڑا بھی رہی تھی.....یحییٰ پوری رفتار سے گاڑی چلا رہا تھااس کی آنکھیں شراب کہ نشے سے بار بار بند ہورہی تھیں اس نے ایکسیلیٹر کو دبایا گاڑی کی رفتار اور تیز ہوئی تھی گاڑی میں دھیمی آواز میں گرہن لگے ہوئے دل کا گانا بج رہا تھا......وہ بہکی سی گاڑی خاموش سڑک پہ رواں تھی سامنے ایک عاد گاڑی آئی تھی جسے بچانے کے لیے یحییٰ نے کئی شارپ ٹرن مارے تھے.....وہ دھت سا گاڑی چلاجارہا تھا.....اسے رہ رہ کر جنایا یاد آرہی تھی آج بہت عرصے بعد اس نے زندگی کی فلم کو پھر سے دیکھا تھا وگرنہ وہ کوئی لمحہ ایسا آج تک نہیں گذار سکا تھا جس میں اس کی یادیں شامل نہ ہوں.....واقعی اس کا دل کو گرہن لگ چکا تھا.....وہ اس کی زندگی سے گئی تو نور بھی اپنے ساتھ لے گئی صرف ایک گرہن دے گئی تھی......آج وہ اس سے شدید عشق کرتا تھا کہ اس کے نام پہ جی رہا تھا لیکن بالکل خالی تھا.....بس ایک بار ایک بار وہ مل جائے یہ اسے کہہ دے اور پھر ہر خلا پر ہوجائیگا.....وہ سوچوں میں غرق گاڑی چلا رہا تھا کہ سامنے سے آتی ایک کار کو دیکھ کہ دھیان میں لوٹا لیکن بچانے کے لیے مارا ہوا وہ شارپ ٹرن اسے پول سے ٹکرا گیا.....اس کا سر پورے زور سے اسٹیرنگ سے ٹکرایا اور پھٹ گیا اس میں شدید خون رس رہا تھا.....اسے جسم بہت ہلکا سا محسوس ہورہا تھا اور اردگرد سناٹا سا چھاتا لگ رہا تھا ایسے میں اسے بس اتنا محسوس ہوا تھا کہ کسی نے اسے تھاما ہے اور پھر ہر سو اندھیرا چھاگیا......
چند لمحوں بعد اس کی آنکھ کھلی تھی اسے زندگی کا احساس ہواتھا لیکن سانس بہت مشکل سے آرہا تھا.....وہ جس جگہ تھا وہ پورا کمرہ سفید دیواروں کریم لکڑی کہ فریم سے مزین کسی اعلیٰ درجے کہ اسپتال کا کمرہ تھا.....اس نے بمشکل سانسوں کو تھامنے کی کوشیش کرتے ہوئے گردن کو موڑنے کی کوشیش کی تب ہی کوئی اس کے پاس آیا....."آرام سے....ڈاکٹر نے آپ کو مو کرنے سے منع کیا ہے....ڈیڈ".....اس کے کانوں میں کچھ جانی پہچانی سی آواز گونجی.....ایسی آواز اس نے اپنے منہ سے برسوں پہلے سنی تھی جب وہ جوان ہوا کرتا تھالیکن اس لمحے اس کا سار ا دھیان ایک ہی لفظ پہ ٹک گیا تھا..."ڈیڈ"....اس نے بہت مشکل آواز کی سمت موڑی حالانکہ دل بہت جلدی سے موڑلینے کا چا ہ رہا تھا..... اس نے دیکھا وہاں ایک حسین سا نوجوان لڑکا کھڑا تھا جس کا انداز بالکل اس جیسا تھا.....شکل کہ خط بھی اس جیسے بس آنکھیں بڑ ی بڑی سیاہ
آنکھیں بالکل جنایا جیسی تھیں.....تو اس کے سامنے اس کا بیٹا کھڑا تھا.....اس کا جوان جہان بیٹا.....اس کے چہرے پہ فکر اور پریشانی دونوں تھی تو کیا وہ اسے جانتا تھا کیا وہ اس کے لیے پریشان اور فکرمند تھا.....اگر یہ سچ تھا تو اس وقت اسے اپنے ہرشکوے کا جواب مل گیا تھا کوئی گلا کوئی شکوہ باقی نہیں تھا.....وہ اسے چھونا چاہتا تھا لیکن ہاتھ اُٹھا نہیں پارہا تھا.....اس لڑکے نے اس کہ کانپتے ہاتھ کو دیکھ کر اسے روکا...."نہیں ڈیڈ آپ کا ہاتھ کمزوری کی وجہ سے شل ہوگیا ہے آپ حرکت مت دیں اسے....آپ کو بہت گہری چوٹ آئی ہے بہت خون بہا ہے آپ کا..... میرا خون آپ سے میچ ہوگیا ہے اب خطرے سے باہر ہیں لیکن آپ کو بہت زیادہ نگہداشت کی ضرورت ہے".....ہاں وہ اس کے لیے فکرمند تھا وہ اسی کا بیٹا تھا.....اس نے پہلی بار اپنی واحد اولاد کو دیکھا تھا......وہ کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن بول نہیں پارہا تھا اس کی نظریں کمرے میں جنایا کو ڈھونڈ رہی تھیں.....سوائے نظروں کے اورجسم کا کوئی اعضو اس لمحے میں اس کا ساتھ دینے کو تیار نہ تھا.....اس لڑکے نے اس کی نظروں کہ مفہوم کو سمجھتے ہوئے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا....."مام چرچ گئیں ہیں....آپ کے لیے دعائیں کرنے....بس آتی ہی ہونگی".....اس کی اطلاع پہ یحییٰ کی آنکھوں سے آنسوں گرے اس نے انگلی سے پونچھ دیا....."وہ آج بھی آپ سے محبت کرتی ہیں اور آج بھی آپ کی منتظر ہیں انہوں نے آج تک اپنا نام جنایا یحییٰ التراش ہی رکھا ہوا ہے.....وہ ہرروز آپ کے لیے دعائیں مانگتی ہیں میں کہتا ہوں کے آپ کیوں ایسے شخص کو یاد کرتی ہیں جس نے آپ کو چھوڑ دیااتنی ازیت دی مجھے تک نہیں دیکھا جس نے آپ کے ساتھ اتنا برا کیا.....تو میری ہر بات کا بس ایک ہی جواب ہوتا ہے ان کے پاس اگر اپنے باپ کے لیے دل میں برائی رکھی تو تمہیں کبھی معاف نہیں کرونگی.....اور میں صرف ان کی معافی کہ ڈر سے آپ کی عزت پہ مجبور ہوں اور صرف ان کی خوشی کی خاطر آپ سے محبت کرنے پہ مجبور ہوں".....وہ لڑکا سپاٹ سا بولا تھا اور یحییٰ کی نے کرب سے آنکھیں میچ لیں تھیں وہ معافی مانگنا چاہتا تھا صفائیاں دینا چاہتا تھا اپنے بیٹے کوگلے لگا کے پیار کرنا چاہتا تھا اس کے چہرے کو چومنا چاہتا تھا لیکن وہ بے بس تھا ہر چیز کے لیے بے بس.....رونے کی وجہ سے اس کا جسم لرز رہا تھا سانس لینا آہستہ آہستہ اور مشکل ہورہا تھا..... اس لڑکے نے اس کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھا...."آپ کو رونے یا شرمندہ ہونے کی کوئی ضرور ت نہیں سب کچھ بیت چکا ہے ابھی آپ کا رونا آپ کی صحت کے لیے ٹھیک نہیں ہے"....اس کے کہنے پہ یحییٰ نے پیار بھری نظروں سے اسے دیکھا تھا...."ویسے میرا نام یوسف التراش ہے مام نے رکھا ہے".....وہ بولا تو یحییٰ کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ ابھری تھی.....اسی لمحے اس کی نظروں سے دکھائی دیتے منظر میں جنایا نمودار ہوئی تھی بہت بوڑھی سی، بال سرمئی سے تھے چہرے پہ جھریاں تھیں صحت خاصی بھر گئی تھی لیکن آنکھوں میں چمک آج بھی ویسی ہی تھی....."یحییٰ....تت تم....ٹھیک ہو"....وہ کہتی ہوئی آگے بڑھی تھی جلدی سے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا تھا.....اور اس کے سرہانے آبیٹھی اس کے سر کو اس نے دوسرے ہاتھ سے تھامتے ہوئے چہرے کو اس سے لگایا تھا.....وہ بہت ر ورہی تھی.....اور مسلسل کہے جارہی تھی...."دیکھا یوسف میں کہتی تھیں ناں.....تمہارے ڈیڈ ہمارے پاس آئینگے مجھے یقین تھا وہ میرا ہے.....دیکھا وہ آگیا ناں..... پتہ نہیں مجھ سے کہاں دعاؤں میں کوتاہی ہوئی جو تم دونوں یوں حادثے کی زد میں آگئے لیکن پھر بھی گاڈ نے بچالیا".....وہ روتے ہوئے کہہ جارہی تھی یحییٰ کولگا زندگی بھر کی وہ بے چینی بے سکونی ایک لمحے میں بس اس کا لمس ملتے ہی ختم ہوگئی ہے.....وہ آج بھی ویسے ہی تھی ویسے ہی پاگل وہ سچ کہتی تھی وہ اسے تباہ کرگیا لیکن وہ محبت کرنا چھوڑ نہیں سکی.....وہ اسے کہنا چاہتا تھا کہ وہ اسے محبت کرنے لگا ہے جب وہ اسے چھوڑ
گئی تب اسے پتہ چلا کہ وہ اس سے محبت کرتا تھا بے حد محبت.....خدا نے اس کی خواہش کو پورا کردیا تھا.....اسے اس سے ملوادیا بلکہ اس کی اولاد تک سے ملوادیا تھا وہ بس اسے کہنا چاہتا تھا کہ وہ اسے محبت کرتا ہے.....لیکن اب سانسیں بہت دشوار ہورہی تھیں اس نے کہنے کے لیے منہ کھولا لیکن سانس اکھڑنے لگی......یوسف نے جلدی سے ڈاکٹر کو آواز لگائی.....جنایا اس کے اور قریب ہوگئی...."یحییٰ کیا ہوا.....نہیں کچھ کہو مت بس پرسکون رہو.....ڈاکٹرز آتے ہونگے تمہیں کچھ نہیں ہوگا میری جان".....وہ محبت سے کہہ رہی تھی اور یحییٰ کی تکلیف بڑھ رہی تھی اسے جسم بہت ہلکا سا محسوس ہورہا تھا اور پیروں سے جان نکلتی لگ رہی تھی اس نے لمبی سانس لی جنایا نے جلدی سے پانی کا گلاس اس کے لبوں سے لگایا اس نے ایک گھونٹ پانی بھرا ہلکی سی آواز کچھ ااآہ قسم کی منہ سے نکالنے کی کوشیش کی جنایا نے اسے کہنے سے روکنے کی کوشیش کی لیکن وہ کہنا چاہتا تھا....."یحییٰ نہیں یحییٰ اگر تم معافی مانگ رہے ہو تو سن لو میں کبھی تم سے خفا ہی نہیں تھیں یحییٰ تم بہت اچھے تم میرے ساتھ ہمیشہ اچھے رہے تم نے کبھی مجھ سے خیانت نہیں کی بے وفائی نہیں کی انسان سے غلطی ہوتی ہے تم سے بھی ہوئی لیکن مجھ سے بھی بحیثیت بیوی کوئی خطا ہوئی ہوگی سب کچھ درگزر کردو یحییٰ تمہاری جنایا آج بھی تمہاری ہے تم سے محبت کرتی ہے اور اسی لیے زندہ ہے میں ہمیشہ تم سے پیار کرتی رہوں گی یحییٰ کیونکہ تم سے بچھڑنے کہ بعد میں جانا میرا وجود اس دنیا میں خدا نے اسی لیے بھیجا تھا تم سے پیار کرنے کے لیے میں جانتی ہوں تم آج بھی مجھ سے پیار نہیں کرتے اور یہ ضروری بھی نہیں تمہارا پیار تمہارے بیٹے کی صورت مجھے مل گیا وہ مجھ سے بہت محبت کرتا ہے".....وہ آنسوؤں کہ درمیان کہہ جارہی تھی یحییٰ کی آنکھیں متواتر بہہ رہی تھیں اور ایک خلش سی دل میں اتری نہیں وہ ویسا نہیں تھا وہ بدل گیا تھا جنا یا غلط سمجھ رہی ہے مجھے وہ جانتا تھا سب کچھ ختم ہونے جا رہا تھا وہ ختم ہونے جا رہا تھا وہ جانتا تھا یہ عورت ہمیشہ اسی کی رہنے والی ہے اسے بھروسہ تھا اس پہ بس ایک بار ایک بار اسے کہنا چاہتا تھا اسے چاہتا ہے اس محبت کرتا ہے اس کا ہے......بس ایک بار یاخدا اتنی مہلت دو.....لیکن اب سانسیں اور اکھڑرہی تھیں.....آدھے جسم کی جان جاچکی تھی ڈاکٹرز آکے اسے الگ کرنا چاہتے تھے لیکن اس نے جنایا کہ پکڑ نے کی کوشیش کی تھی ہاتھوں کی لرزش اسے سمجھا گئی تھی اسی لیے جنایا اس کے پاس سے نہیں ہٹی...جنایا ماننا نہیں چاہ رہی تھی جو حقیقت اسے سامنے دکھ رہی تھی.....جنایا اسکی پیشانی چوم رہی تھی اس کا پورا جسم شدید پسینے سے بھیگا ہوا تھا......وہ کہنا چاہتا تھا اس نے منہ کھولا کچھ باہر نہیں آیا.....اور اب وقت ختم ہورہا تھا آنکھوں کہ گرد سفید دھند چھاگئی تھی......اور پھر دو لمبی سانسوں کہ بعد یحییٰ کہ جسم نے ایک جھٹکا کھایا اور ساکت ہوگیا......اور اسی کیساتھ بیٹھی جنایا بھی پتھر سی ہوگئی......وہ جاتے ہوئے بھی اسے کہہ نہیں سکا کہ اس سے محبت کرتا ہے...... ڈاکٹر ز نے سوری لفظ کیساتھ اس کی آنکھیں بند کر کے چہرے پہ سفید چادر ڈال دی.....یوسف کی آنکھوں میں نمی سی تھی اس نے آج ہی باپ کو پایا اور ہمیشہ کے لیے کھودیا تھا اس نے پشت سے جنایا کو پکڑا تھا اورحیران رہ گیا اس کا جسم ٹھنڈا تھا برف جیسا.....اور اگلے لمحے وہ اس کا جسم ڈھلک کہ یحییٰ پہ گرگیا تھا.....اس کے کانوں میں جنا یا کی آواز گونجی تھی....تمہارے ڈیڈ کہا کرتے تھے محبت کی ایک ہی ڈائمینشن ہے....تنہائی.....اور آج وہ تنہا رہ گیا تھا....اس کے ماں باپ چلے گئے تھے....جن سے وہ محبت کرتا تھا وہ چلے گئے تھے....اور وہ تنہارہ گیا تھا.....بالکل اپنے باپ کی طرح.....بالکل اپنی ماں کی طرح....بس ایک آواز کیساتھ۔
محبت کی ایک ہی ڈائمینشن ہے.....تنہائی۔
![](https://img.wattpad.com/cover/199420231-288-k795585.jpg)
YOU ARE READING
banjaranama بنجارہ نامہ
Mystery / Thrillerبنجارہ نامہ میرے مختصر سے رائٹنگ کریر میں تحریر کی گئی اب تک کی سب سے مشکل ترین ناول ثابت ہوئی اس ناول کو لکھنے میں اگر میں یہ کہوں کہ میں نے اپنے ایمان تک کو دائو پہ لگا یا ہے تو غلط نہ ہوگا۔ یہ ایک ڈارک ناول ہے جس میں آپ کو متنازعہ موضوعات پڑھنے...