گرمی کا زور آج کچھ ٹوٹتا ہوا محسوس ہورہا تھا. آسمان پہ کئی جگہ بادلوں کا بھی بسیرا تھا. شاید اس مقدس مہینے کی برکت سے ہی اللہ رب العزت نے روزےداروں پہ موسم کی سختی کچھ کم کرنے کی ٹھانی تھی.
ثريا بیگم بستر سے انگڑائی لیتی اٹھیں. گھڑی پہ نظر پڑی تو بالوں کا جوڑا بناتے ہوئے آٹھ کھڑی ہوئیں. صبح کے دس بج رہے تھے. بستر وغیرہ سمیٹ کے نیچے باورچی خانے میں پہنچیں تو صفیہ خانم کام میں مصروف تھیں.
"السلام عليكم"! دیکھو بھلا آج ١٥ تاریخ ہوگئی ہے رمضان کی، پتا ہی نہ چلا، کیسے پر لگا کے اُڑ گیا یہ مہینہ. صفیہ خانم نے سلام کے بعد گفتگو شروع کی.
ہاں نا بھابھی اور کیا، بس ایسے ہی اتنی جلدی نیکیوں کا موسمِ بہار ہم سے رخصت ہورہا ہے. ثريا بیگم نے بھی اپنے دکھ کو بیان کیا.
کافی دیر ان خواتین کی گفتگو جاری رہی کہ دروازے پر گھنٹی بجی.
"یہ اس وقت کون ہو سکتا ہے؟" صفیہ خانم نے ذہن پہ زور دیا.
"کچرے والا یا اخبار والا ہوگا، پیسے لینے آیا ہوگا." وہ خود ہی سوال اور جواب کرتے ہوئے دروازے کی جانب بڑھیں. دروازہ کھولنے پر جو کچھ انہوں نے دیکھا، اس پر انکی آنکھیں کچھ دیر تک یقین کرنے سے قاصر رہیں.
-------------------************------------
مشیر الدین اور بشیر الدین کے گھر خوشیاں جھوم جھوم کر وارد ہوئی تھیں. اللہ کی بابرکت ذات نے جہاں بڑے بھائی مشیر الدین کو اولادِ نرینہ سے نوازا تھا وہیں اپنی بیشمار نعمتیں مرتضیٰ اور فاطمہ کی صورت میں بشیر الدین پر بھی برسائیں. ایک ساتھ دو پوتوں اور ایک پوتی کے آنے کی خوشی میں صغیر الدین پھولے نہ سمائے اور پورے محلے میں مٹھائی بانٹ کر اپنی خوشیوں کو دگنا کیا. وہ تینوں بچوں کو پیار کرتے نہ تھک رہے تھے. ان کے کانوں میں اذان دیتے وقت مارے جذبات کے صغیر صاحب کی آنکھیں بے اختیار چھلک پڑیں.-------------------*********----------------
" شانو بھائی، آسی ایمپریس، ارتضیٰ تم بھی ایمپریس". بھائی جان کو ڈھونڈنے سے ہمیشہ اسکی جان جاتی تھی، مرتضیٰ چھپتا ہی ایسی جگہ تھا کہ ودیعہ کا دماغ بھی ادھر نہ پہنچ سکتا تھا. وہ ابھی مرتضیٰ کی تلاش میں ادھر اُدھر نظریں دوڑا ہی رہی تھی کہ پوری قوت سے نکالی گئی" بھنڈا" کی آواز پر وہ لرز کے رہ گئ. ودیعہ سدا کی نازک مزاج کہ آج تک اس کے باپ نے بھی اس سے اونچی آواز میں بات نہ کی، مرتضیٰ کے بھنڈا کہنے پر سہم گئی. اور وہ بےچاری محض مرتضیٰ کی وجہ سے اس "چھپن چھپائی" کے کھیل میں تیسری مرتبہ چور بننے جارہی تھی."اب میں باری دے دیتا ہوں، وہ تھک گئی ہوگی". ذیشان کے دل میں بڑا بھائی ہونے کا احساس جاگا.
ابھی ودیعہ اپنے بھائی کو تشکرانہ انداز میں ٹھیک سے دیکھ بھی نہ پائی تھی کہ اسورہ آگے بڑھی.
"نہیں بھئی نہیں شانو بھائی، یہ چیٹنگ ہے، ہم نہیں مانتے، کیوں بھائی لوگ؟ " اسورہ نے مرتضیٰ اور ارتضیٰ سے اپنی بات کی تصدیق چاہی.
"بالکل، اسورہ کی بات سو فیصد درست ہے، چور کو باری تو دینی ہوگی، اور بار بار دینی ہوگی. " مرتضیٰ "باربار" پہ زور دیتا ہوا ودیعہ کو چڑاتے ہوئے بولا.
اور بے چاری ودیعہ کو ایک بار پھر سے باری دینی پڑی.
-------------------*********----------------
صغير صاحب کے گھرانے کو اگر ایک آئیڈیل گھرانہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا. انہوں نے واقعی بچوں کی ایسی تربیت کی تھی کہ گھر میں پیار محبت کی فضا ہمیشہ قائم رہے. یہی وجہ تھی کہ گھر کے تمام بچوں کو بہن بھائی کی طرح رکھا گیا. ذیشان کو شانو بھائی، مرتضیٰ کو بھائی جان اور فاطمہ کو آپی کہلوایا گیا. باقی تینوں چونکہ تقریباً ایک ہی ایج گروپ سے تعلق رکھتے تھے، اسلئے ان لوگوں کے نِک نیم رکھے گئے. بشیر کی بیٹی، فاطمہ اور مرتضیٰ کی چھوٹی بہن اسورہ کو آسی کہا گیا. ذیشان اور ارتضیٰ کی بہن ودیعہ کو وادی کہتے. ارتضیٰ کو میجر صاحب کہا جاتا. اسے بچپن سے فوج میں جانے کا شوق تھا.------------------**********----------------
دروازے پر موجود شخص کو دیکھ کر ثریا بیگم، جو کافی دیر سے صفیہ خانم کا انتظار کر رہی تھیں، ان کے پیچھے ہی دروازے تک چلی آئیں. ہونق ہونے میں انہیں لمحہ نہ لگا."السلام علیکم!" لہجہ بھرپور عزت لیے ہوئے تھا. سلام کا جواب نہ پا ایک دفعہ پھر اپنائیت بھرے لہجے میں سلام کیا گیا.
"وعلیکم اس س... سلام" صفیہ خانم ذیشان کو اچانک دیکھ کر ابھی تک سنبھل نہیں پائی تھیں.
ثريا بیگم نے بھاوج کو سہارا دیا اور خود کو ہوش میں لاتے ہوئے ذیشان کو دعاؤں سے نوازا. دونوں خواتین کو بوکھلایا ہوا دیکھ کر ذیشان کا چھت پھاڑ قہقہہ گونجا تھا."سرپرائز! میں نے سوچا بہت ہوگیا، بھلا کوئی مذاق ہے، پوری پانچ عیدیں میں نے آپ لوگوں سے دور پردیس میں گزاری ہیں. اب کی بار تو کچھ بھی کر کے عیید اپنوں میں منانی ہے. بلکہ عید سے پہلے آپ لوگوں کے ہاتھ کے پکوڑے اور دہی بڑے بھی تو کھانے ہیں. ذیشان نے مزے لیتے ہوئے بتایا.
----------------*********-------------------
How's that?
YOU ARE READING
چاہا ہے تجھ کو (مکمل)
Short Storyحاضرِ خدمت ہے میری پہلی کہانی... "چاہا ہے تجھ کو " دراصل ہلکی پھلکی کہانی ہے جس میں خوشی بھی ہے تو غم بھی اور محبت بھی ہے تو نفرت بھی... یہ کہانی ہے بچپن کی محبت کا پل بڑھ کر جوان ہونے کی... یہ کہانی ہے جانو بھائی اور آسی کی... وادی کی اور بھائی...