قسط نمبر ٨

132 4 0
                                    

تمام گھر والے اب ذیشان کے سامان کی پیکنگ کر رہے تھے. وہ پہلی مرتبہ گھر سے دور جارہا تھا. اسی لئے سب بہت ایکسائٹڈ تھے، سوائے اسورہ کے...

وہ کافی دنوں سے اسورہ سے اپنے روئیے کی معافی مانگنا چاہ رہا تھا. لیکن ابھی تک اس کو موقع نہیں مل پایا تھا. کمرے میں ثریا، صفیہ، اسورہ اور ودیعہ، اب مل کر ذیشان کی پیکنگ میں مدد کروارہی تھیں. ثریا بیگم ذیشان سے چائے کا پوچھ کر کچن کی جانب روانہ ہوگئیں. ادھر ارتضیٰ، صفیہ بیگم کے لیے خالہ کا فون سننے کا کہنے آیا جس پر وہ فون سننے چل پڑیں. ودیعہ کیوں پیچھے رہتی؟ اس کے بھی فون پر اس کی بچپن کی سہیلی حمیرا کا فون آیا تھا تو وہ باتوں میں ایسا مگن ہوئی کہ بات کرتے کرتے کمرے سے باہر ہی نکل پڑی.

اسورہ اب ذیشان کی طرف پیٹھ کئے بیٹھی اس کے کپڑے تہہ کر رہی تھی. اس کی مگن ہو کے کام کرنے کی عادت کافی پختہ تھی.

"آسی..." ذیشان کی آواز پر جو اسورہ نے پلٹ کر دیکھا تو اس کو احساس ہوا کہ کمرے میں اس وقت صرف وہ اور ذیشان موجود ہیں.

وہ بیڈ پر سے تقریباً اچھل کر کھڑی ہوئی کہ ذیشان، اکیلے پن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کہیں اتنے دنوں سے اس کو نظرانداز کرنے کا بدلہ نہ لینا چاہتا ہو.

" اسورہ کیا مجھے معافی مل سکتی ہے؟" وہ دروازے کی طرف بڑھ رہی تھی کہ ذیشان کی آواز پر اسے رکنا پڑا.

"میں ملک سے باہر جارہا ہوں اور جانے سے پہلے میں سب سے معافی مانگنا چاہتا ہوں ان سب سے جن کا میں نے دل دکھایا ہے. بد قسمتی سے تم بھی ان لوگوں میں شامل ہو." یہ کہتے ہوئے اس نے اسورہ کو ایک لفافہ تھمادیا.

"شانو بھائی... وہ..." اسورہ نے اس کے ہاتھ سے لفافہ لے تو لیا تھا لیکن اس کے بارے میں پوچھنے کی ہمت نہ کرسکی. اسے فیصلہ کرنے میں دقّت ہورہی تھی کہ آیا یہ وہ ہی ذیشان ہے یا واقعی تبدیل ہو گیا ہے اور شرمندہ ہے.

اسورہ کی سوچ کا غبارہ دھاڑکر کے پھٹا.

"ہا...ہا...ہا...ہا...ہا...  " ذیشان کا قہقہہ چھت پھاڑ تھا.

اسورہ کچھ لمحوں کے لیے تو ہکا بکا رہ گئی.

"معافی.. اور وہ بھی تم سے؟
تم کوئی میری ہیروئین ہو جو تم سے معافی مانگوں؟
ہنہ.. شکل دیکھی ہے اپنی کبھی آئینے میں؟
معافی... ہاہ..." ذیشان نے شاید کچھ زیادہ ہی بول دیا تھا.

اسورہ اپنے ہاتھ میں پکڑے لفافے کو اپنی بند مٹھیوں کی نذر کر چکی تھی. وہ آگے بغیر کچھ کہے سنے اپنے کمرے کی جانب بھاگتی چلی گئی. کمرے میں پہنچ کر اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا. کنڈی لگاتے ہی وہ وہیں گھٹنوں میں سر دے کر رونے بیٹھ گئی.

ابھی حسن و عشق میں فاصلے
عدم اعتماد کے ہیں وہی

انہیں اعتبار وفا نہیں
مجھے اعتبار جفا نہیں

چاہا ہے تجھ کو (مکمل)Donde viven las historias. Descúbrelo ahora