چند برس پہلے
اسورہ دہم جماعت میں تھی. سائنس کا مضمون ہونے کے ناطے فزکس کا جرنل بنارہی تھی. وہ اپنی چیزوں کا، خاص طور پر اپنی کتابوں، کاپیوں کا خود سے بھی زیادہ خیال رکھتی تھی. اس وقت بہت ہی انہماک سے ایک بہت ہی پیچیدہ ڈائگرام بنا رہی تھی کہ اچانک صفیہ خانم کی آواز پہ اس کا ارتکاز ٹوٹا.
"آسی بٹیا! کھانا کھالیں." صفیہ خانم ایسے ہی پیار کرتی تھیں اسے.
"جی تائی٠" اسورہ اپنی چیزیں جرنل کے ساتھ ہی وہیں میز پر احتیاط سے رکھتی ہوئی کھانے کی طرف چل پڑی.ذیشان اپنے لیپ ٹاپ پر پریزینٹیشن تیار کر رہا تھا، ایم-بی-اے کا آخری سیمسٹر چل رہا تھا اسکا. کھانے کی آواز پر اس نے وہیں سے ہانک لگائی.
"امی! ابھی بھوک نہیں، تھوڑی دیر بعد کھاؤں گا کھانا.""اؤے میجر! ادھر آ." کھانے کی طرف جاتے ہوئے اس نے ارتضیٰ کو آواز دی.
"جی شانو بھائی." ارتضیٰ احترام کرتا تھا اس کا."یہ لے بال پکڑ، ذرا آفریدی کی روح جاگی ہے، کیوں نا ایک میچ ہوجائے ." ارتضیٰ کو بال دے کر خود پاس پڑے اسورہ کے جرنل کو بلّا بنا کر کھیلنے لگا.
" کیا غضب کر رہے ہیں شانو بھائی، اسورہ کا جرنل ہے یہ، خون خرابہ ہوجائے گا اگر ان کے جرنل کو ذرا آنچ بھی آئی جو." ارتضیٰ نے بڑا ہی کوئی خوفناک نقشہ کھینچا.
" ہننہ... کچھ نہیں ہوتا یار، دیکھ لیں گے اسورہ کو بھی." ذیشان کی لاپرواہی کا عالم دیکھنے والا تھا.
"ذیشان... ارتضیٰ!! "تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ صغیر صاحب کی کڑک دار آواز سے دونوں ایک لمحے کے لیے دہل گئے.
ذیشان نے مارے گھبراہٹ کے اسورہ کا جرنل(جو کہ کہیں سے بھی اب نہیں لگ رہا تھا) کھڑے کھڑے میز پر پھینکا. جو پھسلتا ہوا اور خود کو نہ سنبھالتے ہوئے پاس پڑے دوات کی شیشی سے جا ٹکرایا.
ذیشان اس بات سے قطعی بے خبر تھا کہ اسورہ کا جرنل اب کالی روشنائی میں تر بتر ہوگیا ہے. وہ ارتضیٰ کو ساتھ لئے کھانے کی جانب روانہ ہوا جہاں صغیر صاحب کا شاہکار لیکچر ان کے لیے ایپیٹائزر(appetiser) کا کام کرگیا تھا.
"دسترخوان پہ ایک ساتھ کھانا کھانے سے گھر میں برکت بڑھتی ہے. آج کل کی نسل کا ڈھنگ ہی نرالا ہوچلا ہے. الگ کھانا کھائیں گے اور وہ بھی اپنے بستر پر چڑھ کر. لاحول ولا قوۃ." صغیر صاحب کا غصہ ابھی بھی سوا نیزے پر تھا.
"ارے! آسی بٹیا، تم یہاں کیا برتن دھونے کھڑی ہوگئی ہو. جاؤ جا کے اپنا جرنل مکمّل کرو." صفیہ خانم گویا ہوئیں.
"ارے نہیں تائی، بس تھوڑے ہی سے تو ہیں برتن، دھو کے پھر کرلیتی ہوں کام." اسورہ دل سے ان کی عزت کرتی تھی. کھانا ختم کر کے وہ دو چار برتن دھورہی تھی.
صفیہ خانم نے اگلے ہی لمحے اس سے نقلی ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے اس سے سکاچ برائٹ لیا اور اسے فوراً کچن سے باہر جانے کا حکم دیا.
اور اسورہ چار و نا چار تائی کا حکم مانتے ہوئے کچن سے چل پڑی اپنے جرنل کی طرف."اللہ میری تائی امی کو خوش رکھے، کتنا خیال رکھتی ہیں وہ سب کا." وہ اپنی تائی کے حسنِ سلوک کا سوچتی ہوئی میز کی طرف بڑھ رہی تھی، لیکن میز خالی دیکھ کر وہ ٹھٹھکی.
زمین پر نظر پڑتے ہی وہ وہ بس گرتے گرتے بچی. اس نے جھک کر اپنا جرنل اٹھایا اور حواس قابو میں نہ رکھ پائی. فلک شگاف چیخ کے ساتھ ہی وہ ہوش و خرد سے بیگانہ ہو چلی تھی.
---------------***********-----------------
اسورہ کے بستر کے گرد پورا گھر جمع تھا، سوائے ذیشان کے. صغیر صاحب کو ذرا دیر نہ لگی سارا معاملہ سمجھنے میں. اسورہ کی اپنی پڑھائی کے معاملے میں سنجیدگی سے وہ اچھی طرح سے واقف تھے، رہی سہی کثر ارتضیٰ کے گواہی بیان نے پوری کردی. ذیشان اب ان کے کمرے میں کھڑا تھا.
آسی کو ہوش آگیا تھا، لیکن سر ابھی بھی بھاری بھاری سا تھا. ذیشان ویسے تو سر جھکائے کھڑا تھا لیکن وقتاً فوقتاً کن اکھیوں سے اسورہ کو بھی دیکھ رہا تھا. فرق یہ تھا کہ اس بار ذیشان کے دل میں شرارت کے بجائے افسوس تھا کہ اس سے انجانے میں اتنی بڑی غلطی ہوگئی تھی.
"تائی میرا جرنل؟" اسورہ نے بمشکل آنکھ کھولی اور ساتھ بیٹھی صفیہ خانم سے استفسار کیا.
ابھی صفیہ خانم نے منہ ہی کھولا تھا کچھ جواب دینے کے لیے کہ اسورہ صاحبہ پھر بے ہوش ہوگئیں.
دادا جان کی رگ و پے میں اس وقت خون کے بجائے غم و غصّہ دوڑ رہا تھا.
اسورہ کے مجرم کو دیکھ کر ان کا پارہ سیماب پا ہوا جارہا تھا. ابھی دادا جان کی ڈانٹ ختم ہوئی تھی کہ صفیہ خانم نے زوردار طریقے سے اس کے کان مروڑے اور سزا سنادی.
"چاہے تمہیں اس کے لیے اپنی پریزینٹیشن ہی نہ کیوں چھوڑنی پڑے، پہلے اسورہ کا جرنل نئے سرے سے بناؤ." صفیہ خانم نے گویا ذیشان کے سر پر بم پھوڑا.
"جی اچھا امی!" اپنی ماں کے یہ بدلے تیور دیکھ کر وہ بھونچکا رہ گیا اور فقط سر ہلا کر ہی رہ گیا.
--------------------*********---------------جاری ہے..
رائے سے آگاہ کرنا نہ بھولئے..
VOCÊ ESTÁ LENDO
چاہا ہے تجھ کو (مکمل)
Contoحاضرِ خدمت ہے میری پہلی کہانی... "چاہا ہے تجھ کو " دراصل ہلکی پھلکی کہانی ہے جس میں خوشی بھی ہے تو غم بھی اور محبت بھی ہے تو نفرت بھی... یہ کہانی ہے بچپن کی محبت کا پل بڑھ کر جوان ہونے کی... یہ کہانی ہے جانو بھائی اور آسی کی... وادی کی اور بھائی...