قسط نمبر ٠9

81 7 0
                                    

اگلا دن تو جیسے صفیہ بیگم کو رمضان میں ہی عید کا دن محسوس ہورہا تھا. انتظار ےتو ان کو سولی پہ لٹکائے جانے کے فیصلے سے کم نہیں لگ رہا تھا. ابھی وہ سب سے بات کرنے کا لائحہ عمل طے کر ہی رہی تھیں کہ سسر، صغیر صاحب کی طرف سے ان کا بلاوا آیا.

دروازے پر ہلکی سی دستک دے کر وہ اندر آئیں تو وہاں پہلے سے ہی ثریا، مشیر اور بشیر صغیر صاحب کے ساتھ موجود تھے. اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں کے مصداق صفیہ بیگم کی تو باچھیں ہی کھل گئیں.

"آؤ آؤ صفیہ بیٹی، تمہارا ہی انتظار ہو رہا تھا. ہمیں آپ سب سے بہت ضروری بات کرنی ہے بچوں کے مستقبل کے بارے میں." صغیر صاحب گویا ہوئے.

"ابّا جی! میں بھی آپ ہی سے تقریباً اس ہی طرح کے موضوع پر بات کرنے آرہی تھی. لیکن آپ بڑے ہیں، پہلے آپ بات کرلیں." صفیہ بیگم نے اپنی بے چینی کو الفاظ دے دئیے.

" جیتی رہیے بیٹا! آپ چاروں کو ایک ساتھ یہاں بلانے کے مقصد کا کچھ تو اندازہ ہو ہی گیا ہوگا. اپنے بچوں کا تو رشتہ ہم نے مرتضیٰ اور ودیعہ کی بات طے کرکے مزید پکا کر ہی دیا ہے. اللہ اس میں برکت ڈالے. آمین. اب آگے آتی ہیں ہماری اسورہ بیٹی. ماشاءاللہ لکھ پڑھ گئی ہیں تو اب اپنے گھر کی بھی ہوجائیں تو زندگی میں مزید سکون آجائے. " صغير صاحب کے لہجے میں فقط پیار ہی پیار تھا.

ادھر اسورہ ماں کی تلاش میں سرگرداں ہر کمرے کا چکر لگا رہی تھی اور عین اس ہی لمحے وہ دروازہ کھول کر اندر جانے کو تھی کہ دادا کے ان الفاظ سن کر ہی جانے کس احساس کے زیرِ اثر اپنے کمرے کی طرف پلٹ گئی.

" اجمل حسین کے نام سے آپ سب ہی واقف ہونگے. ان کے چھوٹے صاحبزادے احسان حسین جو دبئی میں اپنی فیملی سمیت رہائش پذیر ہیں، ہماری بیٹی اسورہ کو اپنی بہو بنانے کے خواہاں ہیں. بیٹا ماشاءاللہ پڑھ لکھ گیا ہے اور اچھی نوکری کر رہا ہے..." صغير صاحب جوں ہی مدعے پر آئے تو صفیہ بیگم تو بےچین ہی ہو گئیں.

" ابا جی! معذرت کے ساتھ، آپ کی بات کٹ رہی ہے، کیا میں کچھ کہہ سکتی ہوں؟ "صفیہ بیگم کی مامتا گویا ہوئی.

" جی جی بیٹا، کوئی اعتراض ہے آپ کو؟ " صغير صاحب کچھ پریشان ہوئے.

" ابا جی اعتراض ہی سمجھ لیں. اسورہ تو میری بیٹی ہے. اسے کسی اور کا ہوتے دیکھ کر مجھے اور مجھ سے زیادہ ذیشان کو اعتراض ہوگا. " صفیہ بیگم نے بات آگے بڑھائی.

" بھابھی! پلیز کھل کے بات کریں. آپ کہنا کیا چاہتی ہیں؟ " اب کے ثریا اپنی بیٹی کے لئے بولیں.

" ارے بہن! کہنا بس یہ ہے کہ میں تو اسورہ کو بچپن ہی سے اپنی بہو بنانا چاہتی تھی. لیکن اب جو ذیشان نے بھی اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اسورہ کو اپنی شریکِ حیات کے روپ میں دیکھنا چاہتا ہے تو میں نے سوچا آپ سب سے اس کے متعلق بات کروں." صفیہ بیگم نے تفصیل بتائی.

کمرے میں چار سو خاموشی چھا گئی.

" ارے! اس سے اچھی بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ ہماری بیٹی ہماری آنکھوں کے سامنے ہی رہے. " صغیر صاحب نے خود ہی جمود توڑا.

" میرے خیال میں ثریا اور بشیر کو اعتراض تو نہیں ہوگا، لیکن رسماً پوچھ لینے میں کوئی مضائقہ نہیں. ابا جی! آپ ہی یہ نیک کام سرانجام دیں." صفیہ بیگم سے تو انتظار ہی نہ ہوا.

" بالکل! محترم بشیر الدین صاحب، میں صغیر الدین اپنے پوتے محمد ذیشان کے لیے آپ کی بیٹی اور اپنی عزیز از جان پوتی کا رشتہ مانگتا ہوں. آپ کو منظور ہے؟ " دادا کو بھی بھرپور ہی شوخی سوجھی.

بشیر اور ثریا نے بھی رسماً سر ہلایا اور سب کے قہقہوں سے فضا معطر ہوگئی.

" تو بس! پھر اب اس نیک کام میں دیر نہیں کرنی چاہیئے اور کیوں نہ عید کے چاند ہی یہ مقدس فریضہ سرانجام دیا جائے."
صغیر صاحب کی خوشی کا آج کوئی ٹھکانہ نہ تھا.

"لیکن ابا جی... اتنے کم دنوں میں تیاری کیسے ہو گی؟" ماؤں نے خدشے کا اظہار کیا.

"تیاری بھی ہو ہی جائے گی. پندرہ دن ہیں ابھی عید میں... کپڑے، جوتے تو آج کل تیار ہی مل جاتے ہیں. آپ لوگ بس کمر کس لیں اور مختلف کام آپس میں بانٹ لیں." صغیر صاحب کے پاس ہر مسئلے کا حل موجود ہوتا.

------------------***************----------------

" آسی... آسی! کہاں ہو تم؟ "ودیعہ اسورہ کو ڈھونڈ رہی تھی.

" ادھر ہوں، الماری صاف کر رہی ہوں. " اسورہ کی الماری ہر تھوڑے دن بعد جنگ کے بعد کا منظر پیش کر رہی ہوتی.

"ارے چھوڑو الماری ولماری... میرے پاس تمہارے لیے ایک بریکنگ نیوز ہے..." ودیعہ اس وقت بی بی سی کے کسی رپورٹر سے کم نہیں لگ رہی تھی.

"کیا بھائی جان آگئے ہیں تمہیں لے جانے؟ " اسورہ نے جان بوجھ کر مرتضیٰ کا ذکر چھیڑا جس پر ایک لمحے کو تو ودیعہ کی سانس تھمی.

" جی نہیں مادام! آپ بھی اب ہماری پارٹی میں شامل ہونے جارہی ہیں... رشتہ آیا ہے آپ کا... اور اور... پتہ ہے کون ہے وہ خوش نصیب؟" ودیعہ آج ایک ہی سانس میں سب سے زیادہ سوالات کرنے کا ریکارڈ توڑنے جارہی تھی.

" مجھے پتا ہے میرا رشتہ آیا ہے. لیکن میں ابھی یہ نہیں جاننا چاہتی کہ وہ کون ہے. اب خوش نصیب وہ ہوگا یا میں یہ تو نکاح کے بعد ہی پتہ چلے گا. " اسورہ کے لہجے میں سکون ہی سکون تھا.

"ارے میری پیاری مشرقی بھا... بہن..." ودیعہ کے منہ سے بھابھی پھسلتے پھسلتے بچا.

" ارے ورے کچھ نہیں! مجھے پتہ ہے میرے بڑے جو میرے لیے فیصلہ کرینگے، وہ انشاءاللہ میرے حق میں بہتر ہی ہوگا. " اسورہ پرعزم تھی.

----------*******---------

کچھ گھریلو معاملات کی وجہ سے یہ قسط شائع کرنے میں کافی وقت لگ گیا.
معذرت قبول کیجئے...
اور کہانی پڑھ کر اس پر کمینٹ کیجئے..
کیا اچھا لگا اور کیا برا...

چاہا ہے تجھ کو (مکمل)Donde viven las historias. Descúbrelo ahora