اسورہ کے ساتھ ودیعہ بھی پارلر گئی تھی۔ انہیں واپسی پر لینے مرتضی' ہی آیا تھا۔ ایک ہفتہ پہلے اس کا اور وادی کا بھی نکاح ہوچکا تھا تو اس کی شرما شرمی ذرا کم ہوگئی تھی۔ دروازے پر جوں ہی مرتضی' نے ان دونوں حسیناؤں کو دیکھا تو بانہیں وا کر کے آگے کو بڑھا۔ وادی تو پھرتی سے آسی کے پیچھے چھپ گئی۔ مرتضی' اپنی جھینپ مٹانے کو آسی کو ہی پیار سے گلے لگا گیا اور آسی کے پیچھے آنکھیں میچی ہوئی وادی کے سر پر پیار بھری چپت دے گیا۔
پارلر سے گھر واپسی ہو چکی تھی۔ آسی کو اوپر اپنے کمرے میں بٹھادیا گیا تھا، اگلے ہی لمحے فاطمہ دستک دے کر اندر آئی تو مارے حیرت کے وہ اسورہ کے گلے لگ گئی۔
"آسی میری جان! اللہ تمہیں سب بری نظروں سے بچائے، بہت حسین لگ رہی ہو آج، ذیشان کا تو آج کام تمام ہوجائے گا۔" فاطمہ اپنی دھن میں بولتی چلی گئی۔
اسورہ کچھ سمجھنے اور کچھ نا سمجھنے کا اظہار کر رہی تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتی، فاطمہ اسکے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں پیار سے قید کیا اور سہلانے کے بعد بولی،
" آسی ابھی جو میں کہنے جارہی ہوں، پلیز اسے خاموشی سے سن لینا۔۔۔ اور مان لینا۔۔۔ کہ شاید اب تمہارے پاس انکار کا راستہ نہیں بچا ہے"۔
"کیا ہوگیا ہے فاطمہ آپی، کیا کہہ رہی ہیں آپ۔۔۔آپ تو عجیب ہولا دینے والی باتیں کر رہی ہیں، پلیز جلدی بتائیں، کیا بات ہے ایسی؟" فاطمہ کی واقعتاً جان پہ بن آئی تھی۔
" تمہاری شادی۔۔۔ "
" آپی آپ یہاں ہیں، ادھر منیب بھائی آپ کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر قیس کو مات دینے پر تلے ہیں۔" یہ ارتضی' تھا، آسی اور فاطمہ کی بات درمیان میں ہی رہ گئی۔ فاطمہ اپنے میاں کا سن کے اسورہ کو بیچ منجدھار میں چھوڑ کر چل پڑی۔
" آپی بات تو بتادیں جو بتارہی تھیں، میری شادی کا کیا۔۔۔" آسی نے بمشکل فاطمہ کو آواز دینا چاہی لیکن فاطمہ کچھ سننے کے موڈ میں ہی نہ تھی۔۔۔
اسورہ کے تو مانو ٹھنڈے پسینے آنا شروع ہوگئے۔ اپنی شادی کے متعلق آدھی ادھوری بات سن کر وہ لڑکی پریشان ہو گئی تھی۔ لیکن بہت مضبوط اعصاب کی مالک تھی وہ، زیادہ پریشانی میں وہ رونے دھونے کے بجائے، اللہ تعالٰی کا ذکر اور زور و شور سے کرکے اپنے دل کو سکون پہچاتی تھی۔ ابھی بھی حسبنا اللہ پڑھ کے وہ پرسکون ہو چلی تھی۔
"اسورہ بنت بشیر الدین! کیا آپ کو ذیشان بن مشیر الدین سے بعوض ایک لاکھ روپیہ سکہ رائج الوقت نکاح قبول ہے"۔
یہ آسی کے ماموں تھے جو اس سے نکاح کا اقرار کروانے آئے تھے۔ ودیعه اور مرتضی' تو پوری طرح تیار تھے کہ اسورہ یا تو آسمان سر پہ اٹھا لے گی یا کم از کم احتجاجاً واک آؤٹ کر جائے گی۔ وہ سب کسی نہ کسی قسم کے دھماکے کا انتظار تو کر ہی رہے تھے۔
"جی قبول ہے "۔ اسورہ کے اطمینان سے بھرپور جواب نے ان پر ایک دھماکہ ہی تو کردیا تھا۔ خوشی اور حیرت کا ملا جلا دھماکہ۔ وادی اور مرتضی ' کو تو ابھی تک اپنی آنکھوں اور کانوں پر یقین نہ آیا تھا۔
اور پھر اس کے بعد مبارکبادوں کا نہ ختم ہو نے والا سلسلہ چل پڑا تھا۔ سب سے پہلے صفیہ بیگم نے پیار سے اس کے گالوں کو چوما تھا اور اسکی بلائیں اپنے سر لی تھیں۔ اس کے بعد مرتضی' نے پیار سے اسکے سر پہ بوسا دیا اور گلے لگایا۔
" بھا بھی ی ی ی ی۔۔۔۔میری۔۔۔۔" ودیعہ تو چلّاتی ہوئی آسی کے گلے لگ گئی۔ اور اسے پکڑ کر چکر کاٹنے لگی۔ پھر جو آسی کو اس نے چھوڑا تو دونوں کا توازن بگڑا۔ وادی کے پیچھے دیوار تھی۔ سنبھل گئی لیکن اسورہ صاحبہ اپنی ہیلز کی نظر ہوئیں، زمین بوس ہونے کو تھیں کہ سہارا ملا دلہے میاں کا۔ دونوں کی نظریں ملی۔ مشرقی دلہا دلہن ہونے کے ناطے ایک لمحہ ہی ملا ان کو اور پھر سنبھلنا پڑا۔
"آرام سے آسی، تم تو ابھی سے چکرا گئیں۔" ذیشان نے ذو معنی جملہ بولا۔
" ہنہ۔۔ چکرائیں ہمارے دشمن۔۔۔" آسی کے بجائے جواب دیا وادی نے۔
"وادی۔۔میری پیاری گڑیا۔۔۔کچھ یاد ہے؟ کیا طے ہوا تھا۔۔" ذیشان وقت ضائع کرنے کے بجائے سیدھا مدعے پر آیا۔ اس نے آسی کے ساتھ اس نئے تعلق کی ابتداء پر کچھ وقت بتانا تھا، اسٹیج پر جانے سے پہلے۔
"اوہ۔۔لیکن آپ کو تو پتا ہے نا میری یادداشت اتنی آسانی سے تو کام کرتی نہیں ہے۔" وادی ذیشان کو تنگ کرنے کے موڈ میں تھی۔
"مرتضی'! بھائی تو ہی لے جا اسکو، سیدھا کر جا کے۔۔۔" ذیشان اب کے مرتضی' سے مخاطب ہوا تھا۔
ودیعہ اور مرتضی' کا نکاح ہوچکا تھا، مرتضی' نے ذیشان کی بات کے بعد وادی کو خطرناک نظروں سے دیکھا اور پھر ذیشان سے اجازت چاہی۔ ذیشان کی گردن ہاں میں ہلتے ہی مرتضی' وادی کو گود میں اٹھانے بڑھا مگر وادی کی فلک شگاف چیخوں سے اس نے اپنا ارادہ ترک کیا اور محض ہاتھ پکڑ کر چل پڑا۔
کمرے میں اب آسی اور ذیشان ہی تھے۔ ذیشان آگے بڑھا اور اپنی دلہن کے ماتھے پہ عقیدت بھرا بوسہ دے کر اسے اپنی بانہوں میں بھر لیا۔
" میری زندگی آنے کا بہت بہت شکریہ " ذیشان نے دل سے آسی کا شکریہ ادا کیا۔
"آپ کا بھی۔۔۔" آسی اس نئے رشتے پر شرم کے مارے کچھ بول ہی نہ پا رہی تھی۔
ذیشان نے اس کی شرم کا احساس کرتے ہوئے اس کا ہاتھ پکڑ کر دروازہ کھول دیا۔ اور اپنی دلہن کے ساتھ اسٹیج کی جانب چل دیا۔ وہ نہایت فخریہ انداز میں آسی کو اکیلا ہی لئے آگے بڑھ رہا تھا۔ مہمانوں کی داد بھری نظریں ان دونوں کا ہی احاطہ کئے ہوئے تھیں۔
اسٹیج پر بیٹھ کر اسورہ بالکل پر اعتماد لیکن حیا کا پیکر بنی بیٹھی تھی۔ ذیشان اس کے پہلو میں بیٹھ کر اپنے آپ کو دنیا کا خوش قسمت ترین انسان سمجھ رہا تھا۔
رسموں سے فارغ ہو کر اسورہ کو اس کے کمرے میں پہنچادیا گیا تھا۔ ودیعہ اور فاطمہ نے ذرا ہی دیر میں آسی کو ذیشان سے بدلہ لینے کے لئے راضی کر ہی لیا۔
ہلکی سی دستک سے جو ذیشان کمرے میں داخل ہوا تو بہن اور سالی کو دیکھ کر حیران ہوا۔
"آپ لوگوں کو کوئی اور کام نہیں، میری بیوی کے کان بھرے کے علاوہ؟" اس کو شاید ان کی باتوں کی بھنک پڑ گئی تھی۔
" چھوڑیں سب، بٹوا خالی کریں پہلے اگر بیگم صاحبہ اتنی ہی پیاری ہیں تو۔" وادی آسی کی نند کم بہن ہونے کا فرض ادا کر رہی تھی۔ کمر پہ ہاتھ رکھ کے ذیشان سے محلے کی لڑاکا آنٹیوں کی طرح بولی۔
" ہئے۔۔۔ان کے لئے بٹوا تو کیا جان بھی حاضر ہے" ذیشان نے دل پہ ہاتھ رکھ کے ایک ادا سے اپنے پیار کا کھلم کھلا اظہار کیا۔
آسی کے چہرے پر جو سرخی پھیلی تو پھیلی، فاطمہ نے ایک چپت ذیشان کو لگائی۔
"بریک شا برادر بریک۔۔۔۔ چلو وادی، انکل دیوانے ہوچکے ہیں، ان کو ان کی بیگم ہی ٹھیک کریں گی۔ " فاطمہ وادی کا ہاتھ پکڑ کر ان کے کمرے سے چل دی۔
KAMU SEDANG MEMBACA
چاہا ہے تجھ کو (مکمل)
Cerita Pendekحاضرِ خدمت ہے میری پہلی کہانی... "چاہا ہے تجھ کو " دراصل ہلکی پھلکی کہانی ہے جس میں خوشی بھی ہے تو غم بھی اور محبت بھی ہے تو نفرت بھی... یہ کہانی ہے بچپن کی محبت کا پل بڑھ کر جوان ہونے کی... یہ کہانی ہے جانو بھائی اور آسی کی... وادی کی اور بھائی...