باب نمبر 5
ستم گر تو نے ہم پر جو ستم ڈھایا ہے
ستا کر محبت میں خوب رلایا ہے
محو تھے جب سب رنگ و بو کے جہاں میں
ہم نے تیرا نہ ہونا بس خود کو سمجھایا ہے
وہ عارضی قیام گاہوں کا مرکز تھی زندگی
یاد کرکے ہر لمہہ دیباچہ بنایا ہے
تو نہیں ہے تو بھی چلے گی حیاتی اپنی
تنکا تنکا کرکے ہم نے اپنا آشیانہ بنایا ہےضرار ہاوس پر صبح کے خوبصورت لمہے اترے تھے ضرار بخت لاونج میں صوفے پر بیٹھے اخبار کے مطالعے میں مصروف تھے قریب ہی ماہ وین بیگم ٹی وی دیکھ رہی تھیں۔
" مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔"
انہوں نے ٹی وی کی آواز کم کرتے ہوئے ضرار بخت کو اپنی جانب متوجہ کیا تھا۔
" ہوں بولو!"
اخبار کو تحہ لگا کر انہوں نے میز پر رکھا تھا اور مکمل طور پر ان کی جانب متوجہ ہوئے تھے۔
" ارغن اب ماشاءاللہ سے سیٹل ہے اس کی شادی کے بارے میں کیا سوچا ہے آپ نے؟"
انہوں نے ماں ہونے کا بھرپور فرض نبھانے کی کوشیش کی تھی۔
" تو دیکھیں اس کے لیے رشتے آپ کو منع کس نئ کیا ہے۔"
چائے کے کپ سے گھونٹ بھرتے ہوئے انہوں نے سرسری انداز میں کہا تھا۔
" ضرار صاحب آپ کو یاد ہو یا نہ یاد ہو مجھے بہت اچھے سے یاد ہے کہ سات سال پہلے آپ نے اس کی منگنی کی تھیج جو بغیر کچھ بھی بولے نجانے ختم ہوگئی ہے یا چل رہی ہے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔"
ان کا لہجہ لمہوں میں چٹخا دینے والا تھا۔
" بیتے برسوں کے تانے دینا کیا ضروری ہے ماہ وین صاحبہ؟"
وہ جیسے روز روز کے ان تانے تشنوں سے تنگ آچکے تھے۔
" بیتے برسوں کے زخم میری روح پر کسی تازیانے کی طرح لگے ہوئے ہیں ضرار صاحب جو شاہد کبھی بھی نہ ختم ہوں آپ نے تکلیف کی جس منزل سے میرا تعارف برسوں پہلے کروایا تھا نہ میں وہ تعارف آج تک نہیں بھولی ہوں اس کا ہر زخم میرے دل پر ابھی بھی تازہ ہے۔"
وہ ان کی کوئی بھی بات سنے بغیر تیزی سے وہاں سے چلی گئی تھیں جبکہ ضرار بخت صرف صوفے کی پشت سے سر ٹکا کر رہ گئے تھے سرخ امتزاج کا وہ انچل آج بھی ان کی آنکھوں کے پردوں پر چمکتا تھا وہ میٹھے رس گھولتے جملے آج بھی ان کے وجود میں شیرینی بھر دیتے تھے وہ مسکراہٹ آج بھی خیالوں میں اتنی ہی تازہ تھی جتنی کہ برسوں پہلے تکلیف تھی تو یہ کہ انہیں محبت تب ہوئی جب وقت گزر چکا تھا جب ان کے پیر بیڑیوں میں جکڑے جاچکے تھے جب سب ختم ہوچکا تھا۔ حاصل کی کوئی راہ مخفور نہیں تھی خاموشی حل تھا اور وہ کیا گیا تھا۔
○○○○○○○○○○○○○○○○○○
نیلم کے پہاڑوں پر برف کی چادر اتری ہوئی تھی نیلے آسمان تلے اونچی چوٹیاں روئی کے گالوں سے ڈھکی ہوئی تھیں بلو جینز پر پرپل سویٹر کے ساتھ سیاہ اوورکوٹ پہنے سر کو اونی ٹوپی سے ڈھانپے وہ نیلم کنارے چل رہی تھی دونوں ہاتھوں کو اوورکوٹ کی جیبوں پر اڑسائے وہ بے نیاز چلتی جارہی تھی سفید گالوں پر سردی کے باعث ہلکی سرخی جھلک رہی تھی نیلم کے دریا کا شور وادی کے پرسکون ماحول کا ایک حصہ لگ رہا تھا لکڑی کا پل پار کرتے ہی وہ نیلم کے دوسری جانب آگئی تھی جہاں چند سٹوڈنٹس کا گروپ تصویریں بنانے میں محو نظر آرہا تھا۔ اس کے نزدیک پہنچتے ہی ایک لڑکا جھٹ سے اس کے قریب آیا تھا وہ چلتے چلتے ایک دم ٹھہری تھی۔
" ہائے آئی ایم براق میر! آپ پلیز یہاں کسی قریبی ریسٹ ہاوس کا پتہ بتاسکتی ہیں ایکچولی ہم نیلم پہلی بار آئے ہیں اس لیے راستوں کا کوئی آئیڈیا نہیں۔"
براق نے کچھ جھجھکتے ہوئے ہی اس سے مدد مانگی تھی۔
" شیور میرے بابا کا ریسٹ ہاوس ہے یہاں قریب میں ہی چلے آپ میرے ساتھ۔"
ریحا نے اس سے کہا تو اس نے اپنے ساتھ آئے ہوئے دوستوں کو جیپ میں بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ فرنٹ ڈور براق نے ریحا کے لیے کھول دیا اور خود دوسری جانب سے ڈریوانگ سیٹ سمبھال لی۔
اونچے نیچے پتھریلے راستوں سے ہوتے ہوئے ریحا انہیں بختیار ریزوٹ لانے میں کامیاب ہوگئی جیپ سے نیچے اتر کر وہ سیدھی اندر داخل ہوئی تھی ریسیپشن پر بیٹھے ہوئے لڑکے سے اس نے حزیمہ بختیار کے بارے میں پوچھا تھا اور پھر ان کے آفس کا دروازہ دھکیلتی اندر داخل ہوگئی۔ کچھ ہی دیر میں حزیمہ بختیار باہر آگئے۔
" بابا یہ براق میر ہیں مجھے راستے میں ملے تھے انہیں ریسٹ ہاوس میں رومز چائیے تو میں انہیں یہاں لے آئی۔"
ریحا نے مسکرا کر ان سے کہا تو انہوں نے سر ہلایا اور براق سے کمرے کے متعلق بات کرنے لگے۔
" اوکے براق انجوائے یور ٹرپ اب میں چلتی ہوں۔"
ریحا نے اس سے کہا تو وہ مسکرادیا۔
" مس ریحا اگر آپ فری ہیں تو کیوں نہ آپ ہماری گائیڈ بن کر ہمیں نیلم کی سیر ہی کرادیں۔"
ان میں سے ایک لڑکے نے کہا تو براق نے اسے گھورا۔
"ایز سچ تو کوئی کام نہیں ہے مجھے ٹھیک ہے پھر میں آپ لوگوں کو نیلم گھماوں گی۔"
وہ خوشی سے انہیں نیلم کی سیر کرانے پر راضی ہوئی تھی۔
" بہت شکریہ مس ریحا آپ کا نمبر تاکہ آپ کو اپروچ کیا جاسکے۔"
براق نے اس سے کہا تو ریحا نے اپنا نمبر لکھوا دیا اور خود ریسٹ ہاوس سے باہر آگئی اتنے دنوں سے جو دل ویران، بے چین اور خالی تھا شاہد اسی صورت بہل جائے اس نے سوچا تھا اور ہاتھ مسلتی ہوئی اپنے کاٹج کے راستے پر ہولی تھی۔ جس دن سے اس نے میراب کی کال بند کی تھی اس کے بعد سے اسے میراب کا کوئی فون نہیں آیا تھا اور یہی چیز ریحا کو ڈرا رہی تھی میراب بخت ریحا بختیار سے اتنا لاپرواہ تو کبھی بھی نہیں ہوتا پھر اب اتنے دنوں سے وہ کیوں اور کیسے اسے نظر انداز کررہا ہے جس پریشانی کو دل سے نکالنے کے لیے وہ گھر سے نکلی تھی نجانے کیوں اس کا دوگنا بوجھ لیے گھر کی جانب جارہی تھی۔
□□□□□□□□□□□□□□□□□□□□
اپنے کمرے میں ٹہلتے اس کا دماغ شدید بوجھل تھا وجہ اور کوئی نہیں صرف ایک ہی ہستی تھی جو روز اول سے اس کے لیے امتحان بنی ہوئی تھی اور اب تو دھیرے دھیرے اسے یوں محسوس ہورہا تھا جیسے اس کے اس امتحان کی مدت بڑھتی جارہی ہے اور دورانیہ سخت تر ہوتا جارہا ہے دروازے پر ہونے والی دستک سے وہ دروازے کی جانب متوجہ ہوا تھا۔
" آجائیں۔"
اسی کے ساتھ دروازہ کھلا اور ضرار بخت اپنے تمام تر رعب و دبدبے سمیت اندر داخل ہوئے۔
" ارے بابا آپ نے کیوں زحمت کی مجھے بلا لیتے۔"
اس نے ان کی جانب دیکھتے ہوئے کہا تو وہ بے اختیار مسکرائے۔
" کبھی کبھی ہم سوچتے ہیں کہ ہم کتنے خوش قسمت ہیں اللہ نے ہمیں تین تین بیٹے عطا کیے تنیوں ایک سے بڑھ کر ایک جب آپ کے بھا صاحب کو دیکھتا ہوں تو مجھے ایک عجیب سے فخر کا احساس ہوتا ہے کیونکہ وہ میرا سب سے فرمانبردار بیٹا ہے معاملہ کیسا بھی تھا چاہے اس کی رضا کا تھا یا اس کی خوشی کا میرے فیصلے کے آگے اس نے سر تسلیم خم کیا ہمشہ اس نے ان لوگوں اور ان چیزوں کو بھی خیر باد کہہ دیا جو اس کی ذات کا کہیں نہ کہیں حصہ تھیں اور اب میں ایسا ہی تم سے بھی امید رکھتا ہوں کہ تم مجھے مایوس نہیں کرو گئے تمہارے بارے میں مجھ تک ایک بہت ہی سنگین خبر پہنچی ہے بیٹا!"
وہ صوفے پر آرام دہ انداز میں بیٹھے ہوئے تھے نگاہوں کے حصار میں اپنے چھوٹے بیٹے کو لیے وہ اتنے ہی سنجیدہ تھے جتنا اس خبر کے بعد انہیں ہونا چائیے تھا۔
" کیا مطلب بابا! ایسی کونسی خبر سن لی آپ نے؟"
اس کے چہرے پر بھی اب کی بار کافی حیرت تھی۔
" تمہیں اچھے سے پتہ ہے کہ بختیار خاندان سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے پھر اس خاندان کی بیٹی کے ساتھ گھومنے کا میں کیا مطلب سمجھوں میراب!"
ان کا لہجہ برف کی مانند ٹھنڈا ٹھار اور تاثرات بے حد سنجیدہ تھے۔
" بابا! میں محبت کرتا ہوں اس سے۔"
اس نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے گویا ان کے علم میں اضافہ کیا تھا۔
" محبت تو تمہارے بھا صاحب بھی اس کی بڑی بہن سے کرتے تھے منگنی بھی ہوئی تھی مگر اب اس کی زندگی میں وہ لڑکی کہیں نہیں ہے تو پھر تم اسی راستے پر کیوں چل نکلے میرے بیٹے ہوتے ہوئے بھی میری اقتدار میری بات کی کوئی اہمیت کیوں محسوس نہیں کی تم نے میراب بخت!"
ان کے لہجے میں اب کی بار تھوڑی سی سختی تھی۔
" آخر ایسی کونسی لڑائی ہے آپ کی اس خاندان سے کہ آپ اپنے بیٹوں کی خوشیوں تک کو داو پر لگانے کو تیار ہیں۔"
میراب کے لہجے میں بلا کی کاٹ تھی جو سیدھی ضرار بخت کے وجود کو چیر گئی تھی۔
" ہم تمہیں جوابدہ نہیں ہیں جتنی جلدی ہوسکے یہ محبت کا خرافت اپنے دماغ سے باہر نکالو ورنہ بھول جانا کہ تمہارا کوئی باپ تھا۔"
وہ کہہ کر تیزی سے اس کے کمرے سے باہر نکل گئے ان کے جاتے ہی میراب نے چیخ کر ڈریسنگ میز کی ساری چیزیں الٹا دیں زندگی میں پہلی بار اسے لگا تھا کہ جب انسان اپنی سب سے من پسند چیز کھو دینے کے قریب ہوتا ہے تو اسے کیسا محسوس ہوتا ہے جب آپ نے زندگی میں کسی کا ساتھ چاہا ہو اور آپ کے محبوب رشتے وہ ساتھ آپ سے چھیننے کے زمہ دار ہوں تو کیسا محسوس ہوتا ہے آپ کو اسے بھی یوں لگ رہا تھا جیسے اس کی رگوں سے زندگی کو کوئی کھینچ کر دھیرے دھیرے نکال رہا ہو اور وہ نڈھال ہورہا ہو۔
YOU ARE READING
چھنکار مکمل✅
Humorکہانی ہے ایک سید زادے کی جسے ایک ایسی لڑکی سے محبت ہوتی ہے جو اس کے حسب نصب میں کسی طور بھی پوری نہیں آسکتی جس کو چھوڑنے کی صورت میں ہی وہ اپنی دستار سمبھال سکتا ہے کہانی ہے بے حسی سے لے کر خودغرضی کے ایک ناتمام سفر کی۔ کہانی ہے یقین کے سہارے نکلنے...