باب نمبر 10
میرا ہر گلا صدا کا ہے
اسے چھوڑنے کا گمان نہیںوہ جو پاس تھا تو بے قدرا
دور ہے تو انجان نہیںہم ملے تو اسی رو میں تھے
پچھڑنے پر بھی حیران نہیںوہ کل بھی ویسا شریر تھا
اب بھی کہیں گمنام نہیںوہ جو قدم قدم پر ساتھ تھا
اب کہیں اس کے نشان نہیںجھیل میں بہتے اس عشق کے
اب کہیں بھی احسان نہیںایمن خان
وہ ڈائیری ہاتھوں میں تھامے اس کا پہلا صفحہ کھولے حیرت سے اس پر لکھے نام کو دیکھ رہی تھی۔ نام کی سطح پر ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ اس میں پوشیدہ لمس کو اپنے دل کی اتہا گہرائیوں میں محسوس کرنا چاہتی تھی اس سے پہلے کہ وہ اگلا صفحہ پلٹتی ماہ جبین کی آواز پر اس نے ڈائیری فوری سے بیشتر بند کی تھی۔
"بی بی کھانا!"
ماہ جبین نے کھانے کی ٹرے اس کے سامنے رکھے میز پر رکھی تھی باہمین نے ڈائیری واپس اپنے پاس رکھ لی تھی اور کھانے کی جانب متوجہ ہوئی تھی مگر یہ سچ تھا کہ اس کے بعد اسے سرخ جیلد والی ڈائیری کو لے کر عجیب سا تجسس ہوا تھا نجانے اس میں کس نوعیت کی حقیقت پوشیدہ تھی دل میں بے تحاشہ خیالات لے کر وہ کھانے کی جانب متوجہ ہوئی تھی تین دن کے بعد شاید باہمین زاہرہ پیٹ بھر کر کھانا کھا رہی تھی۔
*********************
صبح ہوتے ہی وہ لوگ شہر سے لال حویلی آنے کے لیے نکل آئے تھے فضا میں ابھی بھی اندھیرے کا راج تھا گاڑی میں بیٹھے تیزی سے گزرتے راستے اس کے دل کی بے چینی کو بڑھا رہے تھے کل واپس آنے کے بعد آبیان نے اس سے کوئی سوال نہیں کیا تھا اور نہ ہی مہالہ میں اتنی ہمت تھی کہ وہ اس کے روبرو جاکر اسے اس کی ہار کی خبر سناتی مگر جاتے جاتے وہ آبیان کو اس مایوسی سے نکالنا نہیں بُھولی تھی ۔ دھیرے دھیرے صبح کا اجالا پھیل رہا تھا پُو پھوٹ رہی تھی سیٹ کی پشت سے ٹیک لگائے وہ خود کو پرسکون کرنے کی کوشش کررہی تھی ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی درناب شاید گہری نیند میں تھی۔
" تو مہالہ افروز! طے یہ پایا کہ ساری عمر ایک ایسے مرد کے ساتھ گزارنی ہے جو دل میں کسی اور کو بسائے اس کے نہ ملنے کا غم ہی کرتا رہے۔"
اس کے لبوں کی تراش میں دھیمی سی مسکراہٹ چمکی تھی اپنا غم تو سمبھالنا تھا ہی اب ساتھ میں پیر سید آبیان بخت کے غم کو بھی سینے سے لگا کر رکھنا تھا۔ سوچوں کے بھنور میں بہتے وقت تیزی سے بیت گیا تھا وہ جو صبح دھیرے دھیرے روئے زمین پر اتر رہی تھی اب مکمل طور پر اچھا خاصا دن چڑھ آیا تھا کھڑکی سے باہر دیکھنے پر اسے اندازہ ہوا تھا کہ دوپہر ہونے کو ہے گاڑی راجن پور گاوں کی حدود میں داخل ہورہی تھی گاوں کی پکی سڑک پر چلتی ہوئی گاڑی پورا راجن پور تیزی سے پار کررہی تھی جس کے آخری کونے میں واقع لال حویلی اپنی پوری شان و تمکنت سے کھڑی تھی۔
سفید گاڑی نے حویلی کے باہر ہارن بجایا تھا چوکیدار نے فوری سے بیشتر گیٹ کھول دیا تھا گاڑی تیزی سے روش پر چلتی ہوئی پچھلی جانب بنے لکڑی کے پورچ تلے جا رکی تھی۔
"درناب!"
مہالہ نے کندھے سے جھنجھوڑ کر اسے جگایا تھا۔
"آ۔۔۔ہاں۔۔کیا۔۔ہوا؟"
وہ بڑبڑا کر جاگی تھی۔
" ہم گھر پہنچ گئے ہیں۔"
اس نے بتایا تو وہ فوری سے بیشتر حواس میں لوٹی تھی۔ اپنی چادر درست کرتی ہوئی مہالہ نیچے اتری تھی دوسری جانب سے درناب بھی اتر کر اس کے ہم قدم ہوئی تھی۔ ملازم کو سامان اندر لانے کا کہہ کر دونوں لال حویلی کے صدر دروازے کی جانب بڑھ گئی۔ مختصر کاریڈور سے داخل ہوتے ہی سامنے صحن میں تخت پر بی بی سرکار بیٹھی ہوئی دیکھائی دی تھیں۔
"اسلام علیکم بی بی سرکار!"
دونوں نے بیک وقت انہیں سلام کیا تھا وہ جو حقہ گڑگڑا رہی تھیں آواز پر ان کی جانب متوجہ ہوئی تھیں۔
"وعلیکم اسلام! آگئی آپ دونوں حویلی کو تو جیسے سُونا کرگئی تھیں۔"
وہ اپنی بانہیں پھیلائے جیسے خوشی سے جی اٹھی تھیں۔
"یہ آخری بار تھا بس اس کے بعد ہم آپ کی ایسی کوئی ضد نہیں ماننے والے۔"
اپنی بانہوں کے گھیرے میں لیے ان دونوں کو بی بی سرکار مصنوعی ناراضگی سے کہہ رہی تھیں۔
"آپ فکر مت کریں ہم آپ کو چھوڑ کر اب کہیں جانے بھی نہیں والے۔"
درناب نے ان کا گال چومتے ہوئے کہا تو ان کی مسکراہٹ سمٹ گئی تھی۔
"کاش ضرار کے بیٹے بھی یہاں ہوتے ہم ہمشہ درناب کو بھی اپنے پاس ہی رکھ لیتے۔"
بی بی سرکار نے نجانے آج کتنے عرصے بعد دانستگی میں ان کا نام لیا تھا ورنہ وہ یہ نام کتنے برسوں پہلے ہی اپنی زندگی کی سلیٹ سے مٹا چکی تھیں ان کی بات پر درناب اور مہالہ دونوں کی مسکراہٹیں سمٹی تھیں۔
"ضرار کون بی بی سرکار!"
مہالہ نے سب سے پہلے ہوش میں آکر ان سے یہ سوال کیا تھا۔ جب ضرار بخت حویلی سے گئے تھے تب مہالہ صرف ایک سال کی تھی جبکہ درناب کی تو پیدائش بھی نہیں ہوئی تھی۔
"آہ۔۔کوئی نہیں جاو اپنی ماؤں سے مل لو باورچی خانے میں ہیں وہ۔"
آنکھوں میں چمکتی ہوئی کرب کی نمی کو انہوں نے بڑی رسانیت سے خود میں انڈیلا تھا۔ مہالہ اور درناب دلوں میں کئی سوالات لے کر وہاں سے خاموشی سے اٹھ کر باورچی خانے میں آگئی تھیں۔
"شکر ہے آپ دونوں آگئیں شاپنگ مکمل ہوگئی نہ؟"
بارینہ بیگم نے مہالہ اور درناب دونوں کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا تھا۔
"جی تائی سرکار! ایسی شاپنگ کی ہے نہ کہ بس سب دیکھتے رہ جائیں گئے۔"
درناب ماحول کا اثر زائل کرنے کے لیے اپنے ازلی موڈ میں واپس لوٹی تھی۔
"یہ تو بہت اچھا ہوا ہے چلو دکھاؤ تو کہ کیا لے کر آئیں ہیں آپ لوگ؟"
ممتہیم بیگم نے ملازمہ کو کھانا دیکھنے کا اشارہ کرتے ہوئے ان دونوں کو کہا اور باورچی خانے سے باہر آگئیں۔ تخت پر بی بی سرکار کے نزدیک بیٹھتے ہوئے دونوں نے سامان کھولا تھا واقعی ہی میں وہ قابلِ ستائش خریداری کرکے آئی تھیں۔ شادی کے دن تیزی سے نزدیک آرہے تھے۔
************************
وہ دونوں واپس گاوں چلی گئی بخت ہاوس پھر سے اپنی سابقہ حالت میں لوٹ آیا ویرانیوں نے وہاں پھر سے اپنے ڈیرے جما لیے تھے۔ وہ آج یونیورسٹی جانے کی بجائے یونہی لان کی سیڑھیوں میں بیٹھا ہوا تھا نجانے سارے شکوے کہاں جا کر سوگئے تھے۔ آہ کاش کوئی ایسا دوست کوئی ایسا ہمراز ہوتا جس سے ساری باتیں کرکے دل کا بوجھ ہلکا کر لیا جاتا کاش دل پھر سے اسی ان کِھلی کلی کی مانند ہوجائے جس کو ابھی زمانے کے سرد و گرم کی ہوا بھی نہیں چھوتی۔
"آہ محبت!"
سارے کے سارے فساد کی ایک ہی اکلوتی جڑ۔ سیاہ ٹراوزر کے ساتھ ڈھیلی ڈھالی سفید بے داغ ٹی شرٹ پہنے وہ پس مردہ دیکھائی دے رہا تھا وہ خیالوں کی دنیا میں گم تھا جب جمال بی اندر سے اس کا بجتا ہوا فون لائی تھیں ۔
"کون ہے؟"
اس نے اشارے سے ان سے پوچھا تو انہوں نے منہ میں چھوٹے پیر بول کر فون انہیں تھما دیا۔
" اسلام علیکم بابا سرکار!"
لہجے میں زمانے بھر کا احترام سمٹ آیا تھا۔
"وعلیکم اسلام کیسے ہیں آپ؟"
دوسری جانب سے بڑی فرصت سے اس کا احوال پوچھا گیا تھا۔
"اللہ کا شکر ہے اس کے کرم سے ٹھیک ہیں۔"
نہ چاہتے ہوئے بھی آبیان کا لہجہ دھیما پڑ گیا تھا۔
" آپ کو معلوم ہے نہ کہ اس جمعے سے آپ کی شادی کی تقریبات شروع ہوجائیں گی؟"
وہ اس سے ایسے پوچھ رہے تھے گویا جیسے اس کے علم میں زمانے بھر کا اضافہ فرما رہے ہوں بدلے میں اس نے ایک گہری سانس فضا کے سپرد کی تھی۔
"جی معلوم ہے۔"
اب کی بار جیسے کوئی آنسوؤں کا گولا اس کے حلق میں اٹک گیا تھا آواز بے حد دھیمی تھی۔
"تو جب آپ کو معلوم ہے تو آپ کو درناب اور افروز جان کے ساتھ نہیں آنا چاہئیے تھا؟"
وہ طنز بھی انتہائی خوبصورت لہجے میں فرما رہے تھے آبیان بغیر کچھ بولے یک ٹک لان میں لگی گھاس کو گھور رہا تھا۔
"جواب ہے کوئی یا ہمشہ کی طرح لاجواب ہیں؟"
ایک بار پھر سے میٹھا سا طنز فرمایا گیا تو وہ چونک کر اپنے حال میں واپس لوٹا۔
"ایک دو دن میں آجائیں گئے۔"
اپنی جانب سے اس نے جیسے بات کو ختم کرنے کی کوشش کی تھی۔
"ایک دو دن نہیں صبح ہی لال حویلی پہنچیں اور یہ ہمارا حکم ہے۔"
حکم جاری کرکے مزید اس کی کوئی بھی بات سنے بغیر کھٹاک سے فون بند کردیا گیا تھا۔ فون ہنوز اس کے کان کو لگا ہوا تھا مگر اب اس میں سے آواز آنا بند ہوگئی تھی آبیان نے اپنی آنکھیں بند کرکے بالوں میں ہاتھ چلایا تھا اور پھر اپنے دونوں ہاتھ چہرے پر رکھ کر گھٹنوں میں سر دیا تھا تو آخر وہ لمہات آ ہی گئے تھے جن کے نہ آنے کی دعا نجانے وہ کب سے کرتا آرہا تھا آبیان بخت سوچوں کے گہرے جال میں تھا آخر کو محبت کو ہروا کر دستار جو بچائی تھی تو اسے صیح سے تو بچانا تھا اس کو بچانے کا حق ادا کرنا ابھی باقی تھا اور آنے والے چار دنوں میں یہ حق باخوبی ادا ہونے والا تھا۔
YOU ARE READING
چھنکار مکمل✅
Humorکہانی ہے ایک سید زادے کی جسے ایک ایسی لڑکی سے محبت ہوتی ہے جو اس کے حسب نصب میں کسی طور بھی پوری نہیں آسکتی جس کو چھوڑنے کی صورت میں ہی وہ اپنی دستار سمبھال سکتا ہے کہانی ہے بے حسی سے لے کر خودغرضی کے ایک ناتمام سفر کی۔ کہانی ہے یقین کے سہارے نکلنے...