باب نمبر 6
وہ دیکھو منظر فضا کے
چاندنی بکھر رہی ہے
وہ دیکھو رخ ہوا کے
سانسیں ڈگمگا رہی ہیں
وہ دیکھو تارے آسمان کے
زندگی جگمگا رہی ہے
وہ دیکھو لمہے سکون کے
خوشی ٹمٹما رہی ہے
وہ دیکھو ذخیرے محبت کے
پھر بھی قحط سازی چھا رہی ہے
ایمن خاندرناب کی بے باک نگاہوں کے سامنے سدیس ملک کی نگاہیں بے ساختہ جھک گئی تھیں ۔
" درناب بی بی! آپ کو کوئی کام تھا کیا؟"
وہ بے حد مودب انداز میں کھڑا نگاہیں جھکائے عجیب سے شش و پنج میں تھا۔
" میں تو بس آپ کو دیکھنے آئی تھی۔"
وہ کسی ٹرانس کی سی کیفیت میں اس سے گویا ہوئی تو وہ اپنی جگہ حیرت سے گڑبڑا گیا اس نے ادھر ادھر دیکھا تھا۔
" فکر مت کریں کوئی ہمیں نہیں دیکھ رہا ہے۔"
درناب کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ چمکی تھی جبکہ سدیس عجیب سی صورتحال سے دوچار ہوا تھا اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ یوں کبھی اس بے باکی سے درناب اس کے سامنے آجائے گی وہ ادب کے سارے تقاضے نبھاتے ہوئے نگاہیں جھکائے ہوئے تھا۔
" اگر آپ میرے چہرے کی جانب دیکھ لیں گئے تو کوئی گناہ نہیں ہو جائے گا۔"
اب کی بار لہجے میں عجیب سی حسرت نمایاں تھی۔
"میرے لیے تو یہ گناہ ہی ہو جائے گا درناب بی بی ! اگر آپ کو کوئی کام نہیں ہے تو پھر مجھے اجازت دیجیے میں چلتا ہوں۔"
کھاتے والی کاپیاں ایک ہاتھ سے دوسری میں منتقل کرتے وہ تیزی سے حویلی کے گیٹ کی جانب بڑھ گیا جبکہ درناب سے اپنی دھڑکنوں میں امڈتا رقص سمبھالنا مشکل ہوگیا اندھیرے لان میں وہ یوں کھڑی تھی جیسے روشنی کی کسی نگری میں اس نے اپنا گھر آباد کرلیا ہو جہاں کوئی اندھیری رات نہ ہو جہاں صرف روشنیوں پر مبنی جہان ہو جہاں ہر سو چاندنی بکھری ہو ایک سحر تھا جس کی گرفت میں درناب بخت اپنے آپ کو محسوس کررہی تھی چندا نے آکر درناب کا سارا سحر توڑ دیا تھا وہ چونک کر پلٹی تھی جہاں چندا کھڑی اسی کی جانب متوجہ تھی۔
" چھوٹی بیگم بلا رہی ہیں آپ کو۔"
چندا کے کہنے پر وہ پلٹ کر سر ہلاتی ہوئی اندر کی جانب بڑھی تھی۔
***********************
سردیوں کے اوائل دنوں میں میراج کوٹھی کا کاروبار خوب چکمتا تھا گاہکوں کی طویل مقدار رقص دیکھنے اور طلب مٹانے کو موجود ہوتی تھی میراج کوٹھی کی طوائفیں اپنے اپنے حصے میں آنے والے کاہک کو متاثر کرنے کے سارے جوہر پوری دلجعمی سے آزما رہی ہوتی رات گئے تک بے ہنگم قہقے اس کوٹھی کی زینت ہوا کرتے ایسے میں وہ اپنے کمرے سے ملحقہ ٹیرس میں تخت پر لیٹی سیاہ آسمان پر سفید چمکتے چاند کو تک رہی تھی شفاف چمکتا چاند مگر پھر بھی اپنے وجود میں دھبے لیے۔ داغوں کے ساتھ وہ زیادہ خوبصورت لگ رہا تھا یہ بات باہمین مان گئی تھی۔ اسے اپنے قریب کسی کی موجودگی کا احساس ہوا تھا نگاہوں کا زاویہ موڑ کر اپنے سے کچھ فاصلے پر دیکھا تو دلسوز چائے سے بھرے دو مگ لیے موجود تھی۔
" حیرت کی بات ہے آج کی رات تم فارغ ہو تمہارا کوئی گاہک نہیں لگا کیا؟"
دلسوز کو اس کے لہجے میں ڈھونڈنے سے بھی طنز نہیں ملا تھا وہ ہلکا سا مسکرائی تھی۔
" ارے آج تو الماس بائی کا دن ہے ہم جیسی طوائفوں کو کہاں کوئی گاہک ملنا۔"
چائے کا مگ باہمین کے آگے کرتے ہوئے وہ مسکرائی تھی۔
" اچھا! وہ کیسے؟"
وہ اٹھ کر چونکری مار کر تخت پر بیٹھی تھی چہرہ دلسوز کی جانب متوجہ تھا۔
" سردیوں کے اوائل میں یہ دن خاص طوائفوں کے لیے ہوتا ہے جہاں پر پورا ہفتہ گل شیرہ بائی کی خاص طوائفیں اچھے اور خاص گاہکوں کے ساتھ وقت گزارنے کے ساتھ ساتھ رقص بھی پیش کرتی ہیں۔"
حیرت کی بات تھی وہ بچپن سے لے کر اب تک میراج کوٹھی کا حصہ تھی مگر اسے آج تک یہ بات معلوم نہیں تھی پھر تو اس کی ماں بھی اس رواج میں شامل رہی ہوگی۔ تکلیف کے گہرے جھونکے نے اس کے پورے وجود کو جیسے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔
" کیا سوچنے لگی؟"
دلسوز نے اس کے چہرے کے سامنے چٹکی بجائی تو وہ جیسے حال کے منظر میں واپس لوٹی۔
" آہاں کچھ بھی نہیں بس ایسے ہی۔"
مسکرا کر کہتے ہوئے اس نے چائے کا مگ لبوں سے لگا لیا۔
" مجھے معلوم ہے کہ تم اتنی مطمعین کیسے ہو؟"
دلسوز نے اس کی جانب بڑے غور سے دیکھتے ہوئے کہا تو باہمین دلچسپی سے اس کی جانب متوجہ ہوئی۔
" وہ فون والا تمہیں یہاں سے نکال کر لے جائے گا نہ؟"
دلسوز نے یک بارگی کہا تو باہمین چونک کر دروازے کی جانب مڑی جس کی چوکھٹ خالی تھی۔
" ابھی تو مجھے خود بھی نہیں معلوم دلسوز کہ وہ مجھے قبول کرے گا کہ نہیں بے شک میرا وجود بے داغ ہے مگر اس جگہ کا حوالہ میری پاکیزگی کا کبھی گواہ نہیں بن سکتا۔"
چہرے سے مایوسی نہیں مگر پریشانی ضرور جھلکی تھی۔
" محبت نہ یہ سب نہیں دیکھتی وہ تو بس خود سے بھی بے بس ہوتی ہے باہمین! اسے اس سے کوئی مطلب نہیں ہوتا کہ کس کی ذات داغوں میں گھری ہے تو کس کی ذات پر پاکیزگی کی مہر ہے وہ تو بس اپنی پاکیزگی سے پاکیزہ تعلق بنانا چاہتی ہے جو نکاح کے تین بولوں کی تاثیر میں لپٹا ہوتا ہے جہاں نہ تو ماضی کے داغوں کا حوالہ ہوتا ہے اور نہ ہی حال کی پاکیزگی کا وہاں صرف دل کی آمادگی ہوتی ہے روح کا رشتہ ہوتا ہے۔"
وہ سامنے دیکھتے ہوئے بڑی حسرت سے کہہ رہی تھی باہمین کو یوں محسوس ہورہا تھا جیسے وہ دلسوز کے جملوں کے ساتھ آبیان بخت کے سنگ کسی خواب نگری کی سیر کو نکلی ہو جہاں نہ تو اس کی ذات کے داغ ہوں اور نہ آبیان کی نظروں میں کم مائیگی وہاں صرف وہ دونوں ہوں اور محبت کھڑی گنگنا کر رقص کررہی ہو۔
" تم بھی چاہتی ہو کہ تمیں بھی کوئی محبت سے یہاں سے لے جائے؟"
باہمین کا سوال نہیں تھا بلکہ وہ دلسوز کے وجود پر ایک کاری ضرب تھی مگر پھر بھی وہ مسکرا رہی تھی۔
" پاکیزہ لوگوں کو محبت زیب دیتی ہے باہمین زاہرہ! گناہوں میں لپٹے ہوئے وجودوں کو تو سمجھوتے کی عادت سی ہوتی ہے۔"
چائے کے خالی مگ اٹھا کر وہ باہر نکل گئی تھی جبکہ اس کے آخری جملے باہمین کے کانوں میں اب تک گونج رہے تھے اسے اس کے جملے نے تکلیف دی تھی۔ رات دھیرے دھیرے سرک رہی تھی ایک صبح پھر سے اس کی منتظر تھی۔
************************
فضا میں ہلکی ہلکی خنکی تھی اپنے کمرے کے قریی اوپر والے صحن میں وہ کرسی پر بیٹھا میز پر ٹانگیں رکھے لیپ ٹاپ پر کام کررہا تھا اس کا ارادہ صبح واپس شہر جانے کا تھا قریب رکھے کافی کے مگ سے وہ گاہے بگاہے گھونٹ بھر رہا تھا سیاہ ٹراوزر پر آدھی آستینوں والی سفید ٹی شرٹ پہنے وہ اپنے کام میں مشغول تھا چہرہ بغیر کسی تاثر کے سپاٹ تھا اور وجہ اس کے وجود میں چلتی ہوئی جنگ تھی وہ خود سے روٹھا ہوا تھا وہ ایک ایسی بستی میں پھس گیا تھا جس کے چاروں جانب آگ لگی ہو اور وہ وہاں سے باہر نکلنا چاہتا ہو مگر کوئی راہ سجائی نہ دے رہی ہو۔
" بخت بیٹا!"
ممتہیم بیگم نے اس کے قریب رکھی ایک کرسی سمبھالی تھی اس نے انہیں دیکھتے ہی گود میں دھرا ہوا لیپ ٹاپ بند کیا تھا اور مکمل طور پر ان کی جانب متوجہ ہوا تھا۔
" کیا بات ہے بیٹا! صبج واپس جانا ہے کیا؟"
چہرے پر فکر لیے وہ مکمل طور پر اس کی جانب متوجہ تھیں۔
" جی اماں جان! صبح واپس چلے جائیں گئے۔"
سامنے دیکھتے ہوئے وہ بغیر کسی تاثر کے کہہ رہا تھا۔
" کیا بات ہے اتنے الجھے ہوئے کیوں لگ رہے ہیں؟ کیا بی بی سرکار کے حکم کی وجہ سے پریشان ہیں؟"
وہ اس کی ماں تھیں اس کے سارے مسائل سمجھتی تھیں اس کی الجھن کی وجہ انہیں باخوبی معلوم تھی انہوں نے آبیان کا کبھی بھی مہالہ کی جانب جھکاو محسوس نہیں کیا تھا۔
" اماں جان! ہم یہ شادی نہیں کرسکتے ہم کسی صورت بھی مہالہ کی زندگی برباد نہیں کرسکتے۔"
وہ ان کے قریب ہوا تھا وہ چہرے پر شدید الجھن لیے اس کی جانب دیکھ رہی تھیں۔
" دیکھو بیٹا! مہالہ افروز بہت پیاری بچی ہیں اسے آپ جس سانچے میں بھی ڈھالنا چاہے گئے وہ آرام سے ڈھل جائے گی ایک گدی نشین کی بیوی کو جس طرح کا ہونا چاہیے وہ بالکل ویسی ہی ہیں بردبار،صابر،حوصلہ مند وہ ہر قدم پر ساتھ نبھانے والی ہیں۔"
وہ اسے بڑے رسان سے سمجھانے کی کوشیش کررہی تھیں۔
" اماں جان! ہم جانتے ہیں اور ہمیں مہالہ سے کوئی شکایت بھی نہیں ہے بے شک وہ ویسی ہونگی جیسا آپ ان کے بارے میں بتا رہی ہیں مگر ہم اپنے دل کا کیا کریں یہ تو کسی اور کی خواہش میں جل رہا ہے۔"
وہ نگاہیں جھکاتے ہوئے جیسے اپنے کسی جرم کا اعتراف کررہا تھا اپنے کمرے کے دروازے پر کھڑی مہالہ لڑکھڑائی تھی دروازے کا سہارا لے کر اس نے خود کو گرنے سے بچایا تھا اسے یوں محسوس ہورہا تھا جیسے پوری دنیا کسی ریت کی مانند اس کی مٹھی سے پھسل گئی ہو اور وہ تن تنہا اپنے تنہا بچ جانے پر افسوس کررہی ہو۔ وہ کمرے کے اندر چلی گئی تھی دل بڑی زور سے نجانے کتنی کرچیوں میں تقسیم ہوا تھا۔
" آبیان! یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ؟"
انہیں لگا جیسے انہوں نے سننے میں کوئی غلطی کردی ہو۔
" ہم ٹھیک کہہ رہے ہیں اماں جان! ہماری بیوی باہمین زاہرہ بنے گی اس کے علاوہ ہم یہ رتبہ کسی بھی اور عورت کو نہیں دے سکتے اور ہم بہت مجبور ہیں۔"
اس کا جملہ دو ٹوک تھا ممتہیم بیگم تو حیرتوں کے سمندر میں ہی غوطہ زن تھیں۔
" جس محبت کا آپ اتنا دم بھر رہے ہیں نہ آبیان! اسے اپنے ہی دل کے کونے میں کہیں دفنا دیں کیونکہ آپ کی یہ خواہش لال حویلی کے درو دیوار میں ہی حسرت بن کر رہ جائے گی مگر ہم چاہ کر بھی اسے پورا نہیں کرپائیں گئے اپنی اماں جان کو معاف کردیجیے گا وہ آپ کی یہ خواہش نہیں پوری کرسکتی چاہتے ہوئے بھی نہیں۔"
وہ اس کے قریب سے اٹھ کر تیزی سے سیڑھیوں کی جانب بڑھ گئی تھیں اور پیچھے آبیان کو یوں محسوس ہورہا تھا جیسے اس نے اپنی آخری امید کے سرے کو بھی کہیں کھو دیا ہو۔ خود کو سمبھالتے ہوئے اس نے اپنے قریب میز پر رکھا ہوا فون اٹھایا تھا آنکھوں کے پردوں پر بار بار دھند کی جالی جھلملا رہی تھی جسے آنکھ جھپک کر وہ خود میں ہی انڈیل رہا تھا چار ملاقاتوں پر مبنی وہ محبت کی داستان نجانے کہاں اختتام پذیر ہونے والی تھی۔ میراج کوٹھی کا نمبر ملا کر اس نے ایک ٹھنڈی پرسکون سانس فضا کے سپرد کی تھی اسے اس وقت باہمین زاہرہ کی شدت سے طلب ہورہی تھی نجانے کتنے دنوں سے وہ اس سے بات نہیں کرپایا تھا۔
***************************
اپنے کمرے کی پچھلی سلائیڈنگ ونڈو جونہی اس نے کھولی ہوا کے ٹھنڈے جھونکے نے اس کے چہرے کو ساکن کردیا چہرہ آنسوں سے تر تھا کمرے کے ماحول میں گھٹن کا شدید احساس ہورہا تھا۔ اسے یوں محسوس ہورہا تھا جیسے اس کی پوری ذات آبیان کے جملوں کے آگے بکھر گئی ہو وہ اس کے دل کی خواہش کے آگے گر گئی ہو اس کے جذبات اس کی محبت ساری ہوا میں چھوٹے ذروں کی طرح ادھر ادھر بکھر گئی ہو وہ اس کے بکھرے ہوئے جذبات سمیٹنے کی کوشیش کررہی ہو مگر سارے ذرے اس کی پہنچ سے دور جاکر ٹھہر رہے ہو وہ بے بس سی اپنے بکھرے چیتھڑے سمبھالنے کے لیے ننگے پیر بھاگ رہی ہو اس کا دوپٹہ سر سے اتر کر کہیں دور جاگرا ہو اور اس کے بال اس کی پشت پر کھل کر بکھر گئے ہوں پیروں کی تلیوں پر خون کے نشان ہوں مگر وہ پھر بھی بے پرواہ بچے ہووں کو سمیٹنے کے لیے بھاگ رہی ہو کھڑکی کے ساتھ ہی وہ نیچے لگ کر بیٹھی تھی چہرہ رونے کی زیادتی سے سرخ پڑ چکا تھا۔
" محبت دل کے نہا خانوں میں اس لیے دفنائی جاتی ہے کہ وہ زندگی سے ہی کہیں دور جاگرے۔"
دل میں سوال امڈا تھا مگر جواب اس کے پاس نہیں تھا وہ چاہ کر بھی اپنے اس سوال کا کوئی جواب تلاش نہیں کرپائی تھی۔
" کیوں آخر کیوں میرے حصے میں آبیان بخت کی محبت نہیں ہے کیوں اس کے دل میں کوئی اور چہرہ بستا ہے۔"
چہرے کو ہاتھوں میں چھپائے وہ سسک اٹھی تھی زندگی میں شاہد اسے کبھی اتنی تکلیف نہیں ہوئی تھی جتنی آج آبیان کی باتوں نے اسے دی تھی۔
" اللّٰه اگر کسی پر کچھ کھولتا ہے تو ضرور اس کے پیچھے کوئی راز پوشیدہ ہوتا ہے اور راز تو ہمشہ اپنے وقت پر ہی کھلتے ہیں لیکن یہ بات مہالہ نہیں جانتی تھی وہ اللّٰه سے شکوہ نہیں کررہی تھی اور نہ ہی وہ اس کی رحمت سے مایوس ہوئی تھی مگر وہ ٹوٹ کر بکھر گئی تھی کچھ اس طرح کے اسے سمبھالنے والا کوئی نہیں تھا حتیٰ کے وہ خود بھی نہیں۔"
اس کی ساری رات یونہی سسکتے گزرنے تھی۔
YOU ARE READING
چھنکار مکمل✅
Humorکہانی ہے ایک سید زادے کی جسے ایک ایسی لڑکی سے محبت ہوتی ہے جو اس کے حسب نصب میں کسی طور بھی پوری نہیں آسکتی جس کو چھوڑنے کی صورت میں ہی وہ اپنی دستار سمبھال سکتا ہے کہانی ہے بے حسی سے لے کر خودغرضی کے ایک ناتمام سفر کی۔ کہانی ہے یقین کے سہارے نکلنے...