باب نمبر 4
بے کیف سی ہیں الفتیں
بے رنگ سی یہ بہاریں ہیں
میرے یار من کو خبر نہیں
یہ دل اس پر فدا ہے
جو نظر جھکی تو مر مٹے
جو آنکھ ملی تو تباہیاں
میرے یار من کو خبر نہیں
یہ روح اس کی اسیر ہے
لب مسکرائیں تو آتشیں
وہ چلے تو دل بے ہنگم ہے
میرے یار من کو خبر نہیں
یہ وجود اس کا طلب گار ہے
میرے یار من کو خبر نہیں
یہ دل اس پر فدا ہے
ایمن خان
رات کی تاریکی نے پوری فضا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا وہ پوری توجہ سے ڈریوینگ کررہا تھا ڈیش بورڈ پر رکھا ہوا فون تیسری بار چیخ چیخ کر بند ہوا تھا اس نے بلو توتھ کان میں سیٹ کیا تھا اور پھر سے بجتے ہوئے فون کا بٹن دبا کر جواب دیا تھا۔
" کیا پرابلم ہے مصطفی!"
وہ مسلسل فون کی بیپ سے تنگ آچکا تھا۔
" ہاں دمیر! وہ سیرت ہوٹل پہنچ چکی ہے صرف تیرا ہی ویٹ ہورہا ہے۔"
دوسری جانب سے مصطفی نے کچھ ذو معنی لہجے میں کہا تو دمیر کی مسکراہٹ کچھ گہری ہوئی ۔
" میں بس راستے میں ہوں آرہا ہوں کچھ دیر میں اور تم اس لڑکی کے پاس جانے کی ہرگز کوشیش نہیں کرنا سمجھے نہ؟"
وہ اپنے پہنچنے کی اطلاع دینے کے ساتھ اسے لڑکی سے دور رہنے کی بھی تلقین کررہا تھا۔
" اوکے باس آگے کبھی کیا تیری راہ میں آیا ہوں جو اب آوں گا۔
مصطفی نے مسکرا کر کہا تو دمیر نے فون بند کرکے گاڑی کی رفتار بڑھا دی۔ تقریبا دس منٹ بعد گاڑی شیرٹین ہوٹل کے سامنے تھی گاڑی پارک کرنے کے بعد اس نے اپنا کوٹ درست کیا اور اندر کی جانب بڑھ گیا داخلی دروازے سے داخل ہوتے ہی مدہم موسیقی نے اس کا استقبال کیا تھا داخلی دروازے سے دور ایک میز پر اسے مصطفی بیٹھا ہوا دیکھائی
دیا تھا اس نے آنکھ سے اپنے پیچھے کی میز کی جانب اشارہ کیا جہاں ایک انتہائی حسین لڑکی بلو تنگ جینز پر بغیر آستینوں کے شیفون کا ٹاپ پہنے اپنے ڈائی شولڈر کٹ بال کھولے بے شک وہ چلتی پھرتی آفت تھی اور خوبصورت لڑکی تو دمیر بخت کی کمزوری تھی۔
وہ وائٹ شرٹ پر خاکی رنگ کا کوٹ پہنے ہوئے تھا دمکتی ہوئی گندمی رنگت پر کسرتی جسم سلیقے سے سیٹ کیے بال بے شک وہ وجیح تھا۔ سیرت کے میز کے نزدیک پہنچ کر اس نے ہلکا سا گلا کھنکارا تھا وہ جو اپنے فون میں مگن تھی فوری سے بیشتر سیدھی ہوکر مسکرائی تھی۔
" ارے دمیر تم؟"
وہ انتہائی پرجوش نظر آرہی تھی۔ دمیر اس کے سامنے کی کرسی سمبھالتے ہوئے مسکرایا تھا۔
" میں نے سنا ہے مس سیرت آپ مجھ سے ملنے کے لیے بہت بیتاب تھیں؟"
اس نے اپنی ہتھیلی تھوڈی تلے جماتے ہوئے بڑے ہلکے پھلکے انداز میں کہا تھا دمیر کی بے باکی پر سیرت جیسی بولڈ لڑکی کی بھی نگاہیں جھک گئی تھیں۔
" او مائی گاڈ مس سیرت آپ بلش بھی کرتی ہیں۔"
وہ دلچسپی سے اس کے چہرے کی جانب دیکھ رہا تھا جہاں سلیقے سے کیے گئے میک اپ میں اس کے دلکش نقوش بے حد نمایاں نظر آرہے تھے۔
" نہیں وہ بس ایسے ہی تمہارے نزدیک بیٹھ کر تو کوئی بھی لڑکی بلش کرسکتی ہے دمیر!"
وہ اپنے آپ کو سمبھالتے ہوئے گویا ہوئی تھی۔ جواب میں دمیر کا قہقہ جاندار تھا۔ دمیر کے لیے امیر ماں باپ کی بولڈ اولاد کا دعوت نظارہ خوش کن تھا کیونکہ وہ مقابل بیٹھی ہوئی ہستی سے اس کے علاوہ اور کچھ چاہتا بھی نہیں تھا جیسے ہی اس کا مقصد پورا ہوتا وہ لڑکی دوبارہ کبھی اس کی زندگی میں نظر نہیں آتی تھی وہ اپنی خواہشات کا غلام تھا جو چاہتا پا لیتا۔
○○○○○○○○○○○○○○○○
وہ آنکھیں موندے بیٹھی ہوئی تھی اپنی دلی کیفیات سے خود ہی نگاہیں چراتی وہ عجیب کشمکش میں تھی اسے نجانے کیوں صبح کا بے صبری سے انتظار تھا کسی کا دھند چھلکاتا عکس اس کی نگاہوں کے پردے پر بار بار جھلملا رہا تھا اس عکس کو حقیقت کی نظر سے دیکھنے کی وہ شدت سے متمنی تھی وہ چاہتی تھی ایک بار پھر سے وہ شخص اپنی تمام تر وجاہت کے ساتھ نگاہوں میں عزت کا ایک جہان آباد کیے اس کی جانب دیکھتا رہے اور وہ ان نظروں سے جھلکتے احترام کو روح کے کونوں تک محسوس کرتی رہے باہمین زاہرہ عزت کی اتنی بھوکی کیوں تھی کیوں وہ ہر مرد کی نگاہوں میں اپنے لیے احترام دیکھنا چاہتی تھی بلکل ویسا ہی احترام جیسا اسے آبیان بخت کی آنکھوں سے جھلکتا دیکھائی دیتا تھا۔
بعض اوقات خواہشات آپ کو کہیں کا نہیں چھوڑتی یہ بے معنی سی خواہشات آپ کی زبان سے شکوے پھسلوا دیتی ہیں پھر آپ نہ چاہتے ہوئے بھی گلہ کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور اسی حقیقت سے باہمین زاہرہ انجان تھی اپنے دھیان میں مگن دلسوز کے لمس نے اسے آنکھیں کھولنے پر اکسایا تھا۔ اس نے آنکھیں کھول کر خالی نظروں سے دلسوز کی جانب دیکھا تھا۔
" عورت عزت کی اتنی بھوکی کیوں ہوتی ہے دلسوز!؟"
بے وقوف سوال کربھی رہی تھی تو کس سے جو روز اپنی عزت کا سودا ہوجانے کے بعد قلبتی ترپتی روح کے ساتھ کسی اجنبی کو سونپ دیتی تھی۔
" کیونکہ عورت کے وجود میں صرف ایک یہ واحد چیز ہوتی ہے جسے شاہد وہ اپنا سمجھتی ہے۔"
وہ کسی ٹرانس کی سی کیفیت میں مسکرا کر کہہ رہی تھی۔
" باقی سب تو پرایا دھن ہوتا ہے تم نے سنا نہیں وہ کہتے ہیں نہ عورت، بیٹی وہ تو پرایا دھن ہے یعنی کسی اور کی جاگیر کسی اور کی دستار جس پر وہ اپنی مرضی سے بیٹھتا ہے اسے اپنی مرضی سے استعمال کرتا ہے اور یہ پرایا دھن رشتوں کی لاج رکھتے رکھتے خود کو کہیں دفنا دیتا ہے۔"
دلسوز کے وجود پر جس قدر زخم تھے نہ اگر باہمین زاہرہ جان لیتی تو پوری رات شکر ادا کرتی سجدے سے سر نہ اٹھاتی مگر ہائے رہے یہ بے خبری انسان کو سکون کی نیند سلا دیتی ہے غفلت سے پر میٹھی نیند جہاں کوئی اذیت اور کوئی خوف نہیں ہوتا جہاں صرف آرام ہوتا ہے سکون ہوتا ہے۔
"کیا کوئی پرایا دھن عزت کی جستجو نہیں کرسکتا؟"
سوال اب بھی وہی تھا اب کی بار دلسوز نے گہرا سانس بھرا تھا۔
" کیوں نہیں کرسکتا لیکن عزت اور ذلت اللہ کے ہاتھ میں ہوتی ہے باہمین کئی لوگوں کے پاس سب کچھ ہوتے ہوئے بھی وہ اللہ کی نظروں میں بے عزت ہوتے ہیں اور کئی لوگ خالی ہاتھ ہو کر بھی اس کی نگاہوں کے سامنے سرخرو ہوتے ہیں اس لیے چاہ کرنا اچھی بات ہے لیکن چاہ یہ ہونی چائیے کہ اللہ کے آگے عزت رہ جائے۔"
وہ خاموش ہوئی تھی۔
" تمہیں درد نہیں ہوتا،تمہارا دل نہیں کرتا کہیں جاکر عزت کی زندگی گزارنے کو؟"
وہ دلسوز کے زخم بڑے ہی برے طریقے سے ادھیڑ رہی تھی۔
" دلوں کے حال تو اللہ بہتر جانتا ہے باہمین کبھی کبھی جو دکھتا ہے وہ ہوتا نہیں اور جو نہیں دکھتا اصل میں وہی ہوتا ہے۔"
وہ اب کی بار کہہ کر اس کے کمرے سے باہر نکل گئی تھی اور وہ ہونے نہ ہونے کی گھتی میں بری طرح الجھ گئی تھی۔ اس نے دھیرے سے اپنی آنکھیں بند کی تھیں اور پھر کچھ ہی دیر میں وہ نیند کی وادیوں میں اتر گئی۔
▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎▪︎
سردیوں کے دنوں میں سورج زیادہ تر پہاڑوں کی اوٹ میں ہی چھپا رہتا تھا۔ نیلم کی اس وادی میں بہتا دریائے نیلم اس قدر خوبصورت لگتا کہ دیکھنے والا قدرت کے اس شاہکار پر ماشاءاللہ کہے بغیر نہ رہتا دریائے نیلم کے بہنے کی آواز پورے نیلم میں جیسے جان سی ڈال دیتی لکڑی کے اس خوبصورت ریسٹ ہاوس میں اس لمہے آتش دان روشن تھا آگ کے جلتے شرارے لکڑی کے اس ریسٹ ہاوس کو گرمائش فراہم کررہے تھے۔ وہ اپنی مخصوص ایزی چئیر پر بیٹھے کوئی کتاب پڑھ رہے تھے حسب معمول کافی کا بھاپ اڑاتا مگ ان کی نزدیکی میز پر رکھا ہوا تھا جس میں سے وہ گاہے بگاہے گھونٹ بھر رہے تھے۔
" بابا دوپہر کے کھانے میں کیا بناوں؟"
راغیص نے کچن سے نکلتے ہوئے ان سے پوچھا تھا جو دوپہر کے کھانے کے بعد ریسٹ ہاوس جانے کی سوچ رہے تھے۔
" چھوڑو دوپہر کے کھانے کو یہ بتاو کہ ریحا کا دماغ ٹھکانے آیا کہ نہیں؟"
انہوں نے کتاب بند کرکے میز پر رکھی اور مکمل طور پر اس کی جانب متوجہ ہوئے جو ان کے نزدیک فلور کشن پر بیٹھ چکی تھی۔
" بابا وہ بہت ڈسٹرب ہے میراب اس کے ساتھ یونیورسٹی میں پڑھتا تھا وہ اس سے شادی کرنا چاہتی ہے۔"
راغیص نے آخر بہن کی حالت دیکھتے ہوئے اس کی وکالت کرنے کی ٹھانی تھی۔
" وہ اور تم اچھے سے جانتی ہو کہ اس گھر سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں ہے پھر بجا کہ میں اپنی بیٹی کی شادی وہاں کردوں۔"
وہ ایک دم شدید اشتعال میں آئے تھے راغیص کے چہرے پر اس لمہے حیرت کے سوا کوئی تاثر نہیں تھا۔
" بابا! آخر آپ بتاتے کیوں نہیں ہے کہ آخر ایسا کیا ہوا تھا پانچ سال پہلے جو آپ ان کا نام بھی سننا گوارا نہیں کرتے۔"
وہ بھی جیسے آج تنگ آچکی تھی۔
" یہ تمہارا معاملہ نہیں ہے اس لیے دور رہو اس سب سے۔"
وہ دھاڑتے ہوئے اپنی کرسی سے کھڑے ہوئے تھے ریحا ان کی آواز سے ایک دم خوف ذدہ ہوئی تھی۔
" یہ کیسے ہمارا معاملہ نہیں ہے بابا! سات سال پہلے آپ نے میرا رشتہ ان کے بیٹے سے کیا تھا اس رشتے کی جڑیں میرے دل میں اتنی بھی کمزور نہیں تھیں بابا! کہ میں ایک بار آپ کے کہنے پر وہ احساس کھرچ کر باہر نکال دوں اور ریحا اس کے احساسات بھی آپ کی اس لڑائی کی بھینٹ چڑیں گئے بابا آپ کی دونوں بیٹیاں ایک ہی آگ میں کود کر تباہ ہوجائیں گی۔"
وہ تیزی سے بولتی وہاں سے نکل گئی تھی کمرے کے دروازے پر کھڑی ریحا نے ڈبڈباتی آنکھوں سے راغیص کی جانب دیکھا تھا۔
" بجو! آپ کا رشتہ میراب کے بڑے بھائی سے؟"
اس کا جملہ مکمل بھی نہیں ہوا تھا جب راغیص بیڈ پر گرنے کے سے انداز میں بیٹھی تھی۔
" آپ نے مجھے بتایا کیوں نہیں بجو! میں بابا سے بات کرتی روک لیتی اس سب کو۔"
وہ اس کے گلے لگتی کہہ رہی تھی۔
" کس کے لیے لڑتی ریحا! آخر کس کے لیے اس کے لیے جس نے ان پانچ سالوں میں مجھ سے کسی بھی قسم کا کوئی رابطہ نہیں رکھا جیسے ہمارے بڑوں کی لڑائی میں وہ میری ذات کو فراموش کر بیٹھا ہو۔"
اب وہ رو نہیں رہی تھی اس کے لہجے میں صرف تکلیف تھی گہری اذیت بے وقعت کیے جانے کا دکھ۔
" میں میراب سے بات کروں گی بجو! وہ اپنے بھائی کو سمجھائے گا۔"
وہ جیسے کسی نتیجے پر پہنچ چکی تھی آنسو پونچھتے ہوئے اس نے اپنے فون کی تلاش میں ادھر ادھر نگاہیں دوڑائی تھیں۔
" کسی کی سفارش سے بھیک میں مجھے توجہ اور محبت نہیں چائیے ریحا! جس شخص کو خود ہمارے مابین رشتے کا احساس نہیں ہے اسے کسی کے دلانے سے بھی نہیں ہوگا میں اب کبھی اس شخص سے شادی نہیں کروں گی جس نے میرے احساسات کی قدر نہیں کی میں اسے کبھی معاف نہیں کروں گی۔"
وہ اپنی بات مکمل کرکے تیزی سے کمرے سے باہر نکل گئی تھی جبکہ ریحا کو اپنا دکھ بھول کر بہن کی اذیت پر بے حد افسوس ہوا تھا۔ اسے ایک بار پھر سے اپنے بابا پر بے حد غصہ آیا تھا جنہیں اپنی انا اپنی اولاد کی خوشیوں سے زیادہ عزیز تھی اور وہ اسی پر قائم تھے۔
وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ جیسا چاہتی ہے ویسا کبھی اس کی زندگی میں ہو پائے گا بھی کہ نہیں کبھی کبھی انسان کی چاہ اپنے جان سے عزیز رشتوں کی خواہشات کی نظر ہوجاتی ہے اور کچھ خواہشات کی لاج رکھنا شاہد زندگی میں سانس لینے کے لیے ضروری ہوتا ہے اور یہ سانس زندگی کے لیے کتنی ضروری ہوتی آپ چاہ کر بھی جھٹلا نہیں پاتے۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
آج موسم بہت خوبصورت تھا سفید روئی جیسے بادلوں نے آسمان پر اپنا گھراو کیا ہوا تھا ان بادلوں کی اوٹ میں سے سورج جھانکنے کی کوشیش کررہا تھا وہ بے چینی سے گاڑی میں بیٹھا اس کے آنے کا انتظار کررہا تھا یونیورسٹی کے گیٹ کے سامنے سیاہ اوڈی میں اس کی بے چینی اس کی اپنی سمجھ سے بھی بالا تر تھی۔ یونیورسٹی میں اس کی کلاس تو اس وقت ہورہی تھی پھر وہ کیوں نہیں آئی تھی ابھی تک آبیان نے گہرا سانس بھر کر سر سیٹ کی پشت سے ٹکایا تھا۔
" سرکار! چھوٹا منہ بڑی بات کررہا ہوں قصور معاف کیجیے گا۔"
راحت علی کے جملے نے اسے آنکھیں کھولنے پر مجبور کیا تھا۔ اس نے سوالیہ نگاہوں سے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے راحت علی کو دیکھا جو بیک ویو مرر سے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
" سرکار! آپ کا نصب آپ کو اس سب کی اجازت نہیں دیتا اب بھی وقت ہے اپنے قدم اس راستے سے واپس موڑ لیں ورنہ لال حویلی کی تباہی کو کوئی بھی روک نہیں پائے گا۔"
راحت علی کہہ کر خاموش ہوچکا تھا اسے شاہد اپنے سرکار کی زندگی اور اس سے جڑے واقعات کی فکر تھی اس لیے یہ جسارت کرگیا تھا۔
" تمہارا کیا خیال ہے راحت علی! ہم یہاں بیٹھ کر انتظار اپنی مرضی سے کررہے ہیں؟ نہیں راحت علی! ہمیں تو خود بھی نہیں معلوم کہ ہمارے وجود پر بے چینی کی یہ کیفیت کیوں ہے ہم کیوں اس لڑکی کی آمد کے اتنی شدت سے منتظر ہیں گھڑی کی سوئیوں کے گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں یوں لگ رہا ہماری زندگی کے قیمتی لمہات کی ڈور بھی دھیرے دھیرے ہمارے ہاتھوں سے سرک رہی ہو۔"
راحت علی کو اس لمہے آبیان بخت کی ذات انتہائی الجھی ہوئی محسوس ہوئی تھی اس نے گہرا سانس بھرا تھا اور پھر پرجوش ہوا تھا۔
" سرکار! بی بی آگئی ہیں۔"
راحت علی کی آواز اس لمہے اس کے کانوں میں کوئی رس گھول گئی گزشتہ پوری رات بے چینی کی جس بھٹی میں وہ جلا تھا اس کے لیے اس کا اس لڑکی سے بات کرنا بے حد ضروری تھا۔ وہ شیڈز آنکھوں پر چڑھاتا ہوا گاڑی کا دروازہ کھول کر نیچے اترا تھا وہ گیٹ کے نزدیک پہنچ چکی تھی۔
" ایکس کیوز می مس!"
شناسا آواز کانوں میں گونجی تو وہ رک کر پلٹی تھی آنکھوں میں احترام کا ایک جہان سموئے وہ اسی کو مخاطب کررہا تھا باہمین زاہرہ کو اپنا آپ اس احترام کے جہان میں کھویا ہوا محسوس ہورہا تھا مقابل کی نگاہیں اسی پر تھیں خوبصورت بلوری چمکدار آنکھیں بلاشبہ اس کا گھراو کیے ہوئے تھیں۔
" جہ۔۔جی!"
اس نے ذرہ کی ذرہ نگاہیں اٹھا کر اس شاندار انسان کو دیکھا تھا جو ڈل گرین شلوار قمیض پر سکن کورٹ پہنے آنکھوں پر براون شیڈز لگائے جو کہ وہ اتار کر ہاتھ میں تھام چکا تھا ہمشہ کی طرح اطراف میں چھا جانے والا لگ رہا تھا۔ وہ تیزی سے گیٹ عبور کرتے ہوئے اندر داخل ہوگئی وہ بھی اس کے پیچھے یونیورسٹی کے گیٹ کی جانب بڑھا تھا چوکیدار نے اسے دیکھ کر سلام کیا تھا وہ تیزی سے اپنے مطلوبہ بینچ کی جانب بڑھ گئی تھی اور وہ اس کے پیچھے دل میں نجانے کیا سوچتے ہوئے بڑھ رہا تھا۔
" آپ اتنی دیر سے کیوں آئی ہیں آپ کی پہلی گلاس غالبا مس ہوگئی ہے؟"
وہ سینے پر بازو فولڈ کرتے ہوئے اس سے کہہ رہا تھا۔
" یہ یونیورسٹی ہے مسٹر آبیان کوئی پرائمری کا سکول نہیں جہاں پر ٹائیمنگ فکس ہوتی ہے۔"
وہ بھی دو بدو بولی تھی یہ سچ تھا کہ گزشتہ رات اس نے بھی خود سے ایک جنگ کی تھی پانے اور کھونے کے درمیان کی جنگ وہ کھونے پر پہلے کوشیش کرنا چاہتی تھی اور پھر ناکامی کی صورت میں پانے کی راہ کو اپنا مسکد سمجھنا چاہتی تھی اور وہ یہی کرنے والی تھی۔
" صیح فرمایا آپ نے مس مگر آپ کی یہ کلاس انتہائی اہم ہے۔"
وہ اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ بدلے میں وہ نگاہیں جھکا گئی تھی۔
" یہاں بیٹھیں پلیز!"
اس نے بینچ کی جانب اشارہ کیا تو وہ گہرا سانس بھر کر خاموشی سے اس بینچ کے ایک طرف بیٹھ گئی۔
" کبھی کبھی انسان کی زندگی میں بہت سے رشتے ہونے کے باوجود بھی وہ تنہا ہوتا ہے اور یہی چیز ہمیں ہم دونوں میں مشترک لگی نہ تو آپ کا کوئی دوست ہے اور نہ ہی ہمارا ایسی بات نہیں کہ ہماری زندگی میں کبھی کوئی دوست آیا نہیں ایک ہے ہمارا دوست لیکن جب دوستی میں حیثیت اور رتبہ آجائے تو دوستی کا رشتہ خراب ہوجاتا ہے اور میری دوستی میں بھی یہی ہوا ہے۔"
وہ بغیر کچھ سنے سوچے سمجھے بس بولے جارہا تھا اور وہ سمجھنے سے قاصر تھی کہ مقابل بیٹھا ہوا شخص اسے یہ سب باتیں کیوں بتا رہا ہے۔
" آپ سوچ رہی ہونگی کہ ہم آپ کو یہ سب کیوں بتا رہے ہیں تو اس کا جواب ہے پتہ نہیں کچھ راہیں اپنے اندر اتنی کشش رکھتی ہیں کہ ان پر قدم ڈالتے ہی انسان اپنی سدھ بدھ کھو بیٹھتا ہے اور فلحال ہمیں بھی اپنی اس راہ کا مقصد سمجھ میں نہیں آیا کیا آپ ہماری دوست بنیں گی ایک ایسی دوست جس سے ہم اپنا دل ہلکا کرسکیں جسے بتا کر کوئی خوف دل میں پناہ نہ لے؟"
سوال ایسے تھے کہ باہمین صرف ان کے مفہوم میں ہی الجھی ہوئی تھی دوست شاہد اس نے کبھی بھی نہیں دیکھے تھے دلسوز سے بات کرکے وہ اپنا بوجھ کچھ ہلکا کرنے کی کوشیش کیا کرتی مگر دلسوز کے جملے اور حالت اس کے دل کا بوجھ مزید بڑھا دیا کرتے تو اس کا وجود خالی ہوجاتا اس نے اپنی زندگی میں پہلی بار کوئی فیصلہ دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر کیا تھا اور وہ فیصلہ کوئی اور نہیں بلکہ پیر سید آبیان بخت سے دوستی کا تھا جس کی کوئی شرائط کوئی حدود نہیں تھیں جو بے لوث تھا بے غرض تھا لیکن اس کے ساتھ اس روز اس نے ایک اور فیصلہ بھی کیا تھا جو شاہد اس کی آنے والی زندگی پر آثر انداز ہونا تھا اور وہ فیصلہ آبیان بخت کو اپنی حقیقت سے دور رکھنے کا تھا وہ لاکھ چاہنے کے باوجود اسے سچائی نہیں بتا پائی تھی اور یہی چھوٹی سی غلطی اس کے لیے بڑی سزا کا تعین کرنے والی تھی۔ اس کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو باہمین نے کپکپاتے ہاتھوں سے تھاما تھا۔
" پیر سید آبیان بخت۔"
آبیان نے ایک بار پھر سے رسما اپنا تعارف کروایا تھا۔
" باہمین زاہرہ"
لہجے میں اعتماد سموتے ہوئے بل آخر وہ کامیاب ہوئی تھی اس کی زندگی میں ایک دوست ایک ساتھی کا اضافہ ہوا تھا اور وہ اس خوبصورت اضافے پر پہلی بار دل سے خوش ہوئی تھی۔
أنت تقرأ
چھنکار مکمل✅
فكاهةکہانی ہے ایک سید زادے کی جسے ایک ایسی لڑکی سے محبت ہوتی ہے جو اس کے حسب نصب میں کسی طور بھی پوری نہیں آسکتی جس کو چھوڑنے کی صورت میں ہی وہ اپنی دستار سمبھال سکتا ہے کہانی ہے بے حسی سے لے کر خودغرضی کے ایک ناتمام سفر کی۔ کہانی ہے یقین کے سہارے نکلنے...