بہتا پانی

1.7K 101 177
                                    

باب نمبر 7
چلو آو آج تمہیں ایک داستان سناوں
بہتے ہوئے پانی کا پوشیدہ راز بتاوں
چلو آو آج تمہیں اپنا ایک غم سناوں
دلوں کو پگھلانے والے ہتھیار کی دھار دیکھاوں
چلو آو آج تمہیں قصہ محبت سناوں
اجڑے ہوئے دلوں کے زخموں پر مرہم لگاوں
چلو آو آج تمہیں ایک تلخیص بتاوں
چور چور ہوئے بدنوں کی تھکن دیکھاوں
ایمن خان
شام کے سائے آسمان کی زینت بن چکے تھے سورج گداز بادلوں کے پیچھے چھپنے کو ہلکان نظر آرہا تھا لان میں رکھی کرسیوں میں سے ایک پر وہ بیٹھے چائے سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ قریب ہی رکھی کرسی پر ماہ وین بیگم اپنا کپ تھامے بیٹھی ہوئی تھیں۔
" کل سے دیکھ رہا ہوں میراب! گھر پر نظر نہیں آرہا آپ سے رات بھی پوچھا تو آپ ٹال گئی تھیں کدھر گیا ہے؟"
پلیٹ میں سے بسکٹ اٹھاتے ہوئے ان کی توجہ مکمل طور پر چائے پیتی ماہ وین بیگم کے چہرے کی جانب تھی جو ان کے سوال پر گڑ بڑا گئی تھیں ابھی وہ کچھ جواب دینے ہی والی تھیں جب گیٹ کے باہر میراب کی مخصوص گاڑی کا ہارن بجا تھا۔ انہوں نے جیسے گہرا سانس بھر کر شکر کیا تھا ورنہ ضرار بخت کے ناختم ہونے والے سوالات کا جواب دینا یقیناً ان کے لیے مشکل ہوجاتا۔ گاڑی تیزی سے پورچ میں آکر رکی تھی اور کچھ ہی دیر میں وہ خود بھی باہر آیا تھا مگر ویسا نہیں جیسا وہ گیا تھا چہرے پر سرخ نشانوں کے علاوہ ماتھے کے کونے پر بینڈیج ہوئی تھی ماہ وین بیگم کے ہاتھ سے بسکٹ پلٹ میں جاگرا اور وہ اٹھ کر تیزی سے اس کی جانب آئی تھیں۔
" میراب! میرے بچے کیا۔۔ہوا ہے تمہیں یہ چوٹیں کیسے لگی ہیں؟"
لمہوں میں ہی وہ حواس باختہ ہوچکی تھیں ضرار بخت بھی پریشانی سے اس کی جانب آئے تھے .
"کچھ نہیں ہوا اماں! چھوٹا سا ایکسیڈینٹ ہوگیا تھا۔"
انہیں تسلی دیتے ہوئے ذرہ کی ذرہ نگاہیں اس نے ضرار بخت کی جانب بھی کی تھیں جو پریشان کھڑے تھے۔
" تم تھے کہاں؟"
اب کی بار انہوں نے سیدھا سوال میراب بخت سے کیا تھا۔
" اس کی حالت نہیں دیکھ رہے آپ اور آتے سار سوال شروع کردیے ہیں۔"
ماہ وین بیگم نے کہتے ہوئے میراب کو بازو سے تھاما اور اندر کی جانب بڑھ گئی۔
"کچھ تو ہے جو ہماری نظروں سے اوجھل ہے لیکن کیا؟"
انہوں نے سوچتے ہوئے اپنی تھوڈی کھجائی تھی واقعی ہی میں کچھ تو تھا جو ان کے بیٹے کو دیمک کی طرح چاٹ رہا تھا لیکن کیا وہ واقعی ہی انجان تھے کہ ان کے اصول ان کے بیٹوں کے دلوں کو ختم کررہے تھے دھیرے دھیرے دیمک کی طرح چاٹ کر ان کی خوشیاں نگل رہے تھے۔
" اب بتاو کیسے ہوا ہے یہ سب تم تو ریحا کو ملنے گئے تھے۔"
اسے بیڈ پر لیٹاتے ہوئے انہوں نے پوچھا تھا۔
" اماں! اس بار بابا کی بازی ریحا بختیار نے انہی پر الٹ دی ہے میں میراب بخت اپنے بابا کے کہنے پر اپنی محبت کو ریحا بختیار کے ساتھ ہی نیلم کی بے رحم وادی میں دفنانے گیا تھا نہ دیکھیں اماں اس نے میرے اندر آگ لگا کر میرے کچھ کہنے سے پہلے ہی مجھے چھوڑ دیا ہے اسے بھی پتہ چل گیا ہے اماں کہ ضرار بخت کے بیٹوں میں وفاداری کی کمی ہے۔"
اس کا لہجہ شدید اذیت لیے ہوئے تھا ماتھے کی چوٹ میں سے ٹیس سی اٹھی تھی ماہ وین بیگم نے اسے اپنے ساتھ لگایا تھا.
"شش! کوئی بھی وقت ہمشہ کے لیے نہیں رہتا میرے بیٹے! وقت کا کام ہے آنا ضرب لگانا اور پھر زخم دے کر گزر جانا اور پھر سے آنا اور اسی زخم کا مرہم لانا اور پھر مرہم لگا کر زخم کو تقویت دے کر پھر سے گزر جانا ہے وقت کا یہ پہیہ یوں ہی پے در پے چلتا رہتا ہے اس لیے پریشان مت ہو اوپر بیٹھا ہوا اللّٰه سب دیکھ رہا ہے وہ بھی جو زمین پر موجود ہم انسان نہیں دیکھ پارہے اور وہ بھی جو ہماری نظروں کے سامنے ہورہا ہے مگر ہماری طاقت سے پرے ہے۔"
اس کا ماتھا چومتے ہوئے انہوں سے سر سہلایا تھا۔
وہ بھی آنکھیں بند کرکے بیڈ کراون سے ٹیک لگا گیا تھا۔
وقت کے بارے میں وہ کتنا سچ کہہ رہی تھیں وقت آتے وقت اپنے ساتھ بے شمار مصیبتیں لاتا ہے اور مصیبتیں دے کر ہوا کے تیز جھونکے کی طرح اڑ جاتا ہے اور پھر اسی وقت کی مرہم زدہ ہوا چلتی ہے اور ادھڑے ہوئے زخم سل جاتے ہیں اور پھر سے زندگی میں امن ہوجاتا ہے۔
******************
ہر کالی سیاہ رات کے بعد سفیدی نمودار ہوتی ہے اور سیاہ سائے میں لپٹی ہوئی چیزوں کو سفیدے کی دھند میں نہلا دیا جاتا ہے پھر کالی سیاہ چیزوں کے اندر سے روشنی کی لکیریں پھوٹتی ہیں اور ہر غم اور ہر دکھ میں گرفتار چیزوں پر سکون حاوی ہوتا ہے کھڑکی کے تمام تر پردے برابر تھے کمرے میں تاریکیوں کا راج تھا آدھی رات کے وقت وہ اپنے بستر پر چت لیٹا چھت پر چلتے پنکھے کو گھور رہا تھا نیند اس کی آنکھوں سے جیسے روٹھ چکی تھی۔ اس کی آنکھوں کے گوشے بھیگے ہوئے تھے آنسوں کی لکیریں آنکھوں سے ہوتی ہوئی اس کے سفید بے داغ گالوں کو بھگو رہی تھیں مضبوط اور توانا سید زادہ محبت کے ہاتھوں ہار کر رو رہا تھا دل میں ایک کہرام برپا تھا ضمیر چیخ چیخ کر اسے اس کا سلوک یاد کروا رہا تھا۔
"کیا کیا تم نے آبیان بخت! اتنا چھوٹا دل اتنی تنگ سوچ؟"
کوئی اس پر بری طرح افسوس بھرے قہقے لگا رہا تھا۔
"میں مجبور تھا محبت کے بدلے دستار کو جیتوانے پر مجبور تھا۔"
وہ تڑپ کر بولا تھا۔
" دستاریں تو یونہی محبتیں نگل لیتی ہیں پھر تمہاری اور عام آدمی کی عارضی محبت میں کیا فرق رہا جیسا وہ کرتے ویسا ہی تم نے کیا افسوس!"
کیسا قرارا تھپڑ اس کے چہرے کی زینت بنایا گیا تھا۔
" میں راجن پور کا پیر ہوں طوائف قبول نہیں کرسکتا تھا۔"
چھت کو گھورتے وہ بڑ بڑایا تھا۔
"پیری نے کب سے کسی کے سر پر عزت کی چادر ڈالنے سے منع کیا."
ایک بار پھر سے اندر سے آواز آئی تھی اس کے اندر ایک جنگ برپا تھی۔
"پیر اگر طوائفوں کے سروں پر عزت کی چادر ڈال بھی دیں تو اپنے نصب میں ان کا وقار کبھی قائم نہیں کرپاتے۔"
اس کے آنسو دھیرے دھیرے نکل کر اس کا گریبان بھگو رہے تھے تیز چلتی ہوا سے کھڑکی کے پردے زور زور سے ہل رہے تھے۔
وہ بستر چھوڑ کر کھڑکی کے قریب کھڑا ہوا تھا چہرہ ہنوز بھیگا ہوا تھا۔
"پیر سید آبیان بخت!"
اردگرد سے اسے زور سے پکارا گیا تھا وہ کھڑکی کے پار دور افق پر چمکتے چاند کو دیکھ رہا تھا۔
" اور محبت تو یہ نہیں دیکھتی کہ ایک طوائف کتنے بستروں کی زینت بنی ہے اور پھر وہ تو پاک تھی بالکل شفاف آئینے کی طرح پاکیزہ پھر تم نے کس طرح اس آئینے میں دڑاڑیں ڈال کر اسے توڑ دیا اتنے سفاک تو تم کبھی نہ تھے۔"
وہ اپنے بال تھام کر کھڑکی کے ساتھ ہی نیچے لگ کر بیٹھ گیا تھا دل میں حشر برپا تھا۔
" کیا تم رہ لو گے اس کے بغیر؟"
اور یہ اس کے وجود پر آخری وار تھا جو بڑی ہی سفاکی سے کیا گیا تھا اس سوال کا جواب شاہد اس کے پاس خود بھی نہیں تھا۔
دروازے کا ناب گھما کر جمال بی اندر آنے کی اجازت مانگ رہی تھیں جب وہ کچھ دیر نہ بولا تو وہ خود ہی دروازہ کھول کر اندر آگئی گھٹنوں میں سر دیے اسے زمین پر کھڑکی کے ساتھ لگ کر بیٹھے پایا تو پریشانی سے اس کی جانب آئی۔
"سرکار! کیا ہوا ہے آپ ٹھیک تو ہیں نہ؟"
زمین پر اس کے قریب بیٹھتے ہوئے انہوں نے پوچھا تھا چہرے پر پریشانی واضح تھی۔ اس نے گھٹنوِ سے سر اٹھا کر جمال بی کی جانب دیکھا تھا بھیگا ہوا سرخ چہرہ جمال بی نے اس کے چہرے کو اپنے ہاتھوں کے پیالے میں بھرا تھا۔
" جمال بی!"
اس کے لفظ بے حد مشکل سے اس کے منہ سے ادا ہوئے تھے جمال بی تو اس کی حالت پر خود پر سے قابو کھو گئی تھیں۔
" جمال بی صدقے اپنے سرکار کے، جمال بی قربان مجھے بتائیں کیا ہوا ہے آپ ایسے کیوں رو رہے ہیں؟"
اپنی انگلیوں کی پوروں سے اس کے آنسو پونچھتے ہوئے جمال بی نے پوچھا تھا۔
" ہم اپنے اس وجود سے اس کو توڑ کر آگئے جمال بی اسے چھوڑ کر آگئے ہمارا نصب اور دستار جیت گئی جمال بی ہم نے اپنی محبت ہار دی۔"
ان کے سینے سے لگتے ہوئے وہ تڑپ کر کہہ رہا تھا کون سوچ سکتا تھا کہ پیر سید آبیان بخت ایک لڑکی کے لیے اس بری طرح روئے گا۔
" دستار کے لیے بہت سے پیروں نے قربانیاں دی ہیں سرکار! آپ کے تایا پیر سید ضرار بخت کو اپنی شادی کے بعد کسی سے محبت ہوگئی تھی انہیں اس محبت کی پاداش میں حویلی سے بے دخل کردیا گیا تھا وہ تو اللّٰه کی رحمت تھی کہ اس وقت ماہ وین بیگم کی گود میں ان کے دو بیٹے تھے جس نے ضرار بخت کو اس عورت سے شادی کرنے سے روک دیا اور وہ ماہ وین بیگم کو بھی اپنے ساتھ لے گئے ورنہ بی بی سرکار تو اس بات پر ہرگز راضی نہیں تھیں کہ ان کے پوتے لال حویلی سے باہر جاتے مگر پیر ضرار نے لڑائی جھگڑا کیا ماہ وین بیگم کو طلاق دینے کی بات کی تو ماہ وین بیگم نے بی بی سرکار کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ انہیں ضرار بخت کے ساتھ جانے دیں ورنہ ساری عمر ان کے بیٹے اپنے باپ کی شفقت سے محروم رہ جائیں گئے۔"
جمال بی کے منہ سے زندگی میں پہلی بار آج وہ یہ سب سن رہا تھا ورنہ لال حویلی میں پیر ضرار کے بارے میں بات کرنے کی کسی کو بھی اجازت نہیں تھی۔
" سرکار! میں آپ کی منت کرتی ہوں اس بات کا ذکر کسی سے بھی مت کیجیے گا ورنہ بی بی سرکار مجھے زندہ گاڑ دیں گی۔"
ان کے لہجے میں بے حد خوف تھا زندگی میں پہلی بار اسے لگا تھا کہ لال حویلی کے تمام مکین بی بی سرکار سے اتنا خوف کیوں کھاتے ہیں کوئی کیوں ان کے آگے انکار نہیں کرتا ان کا کہا لال حویلی کے پتھر پر لکیر کی طرح ہوتا ہے۔
" آپ کو بتانے کا مقصد صرف یہ تھا کہ آپ لال حویلی میں تنہا نہیں ہیں جس نے نصب کو جیتوا کر محبت کو ہروا دیا بلکہ اس حویلی کے درو دیوار ایسے قصوں سے بھرے ہوئے ہیں اونچے ستونوں سرخ اینٹوں اور پکی دیواروں کی بنی اس حویلی میں چلتے پھرتے مردے رہتے ہیں خوشی وہاں کسی کسی کو راس آتی ہے۔"
اس کا چہرہ صاف کرکے اسے بازو سے تھام کر اٹھایا تھا اور بیڈ پر لیٹا کر کمفڑر اوڑایا تھا۔
"سو جائیں سرکار! زخم تازہ ہوں تو رستے ہیں مگر جب پرانے ہوتے ہیں تو بھر بھی جاتے ہیں تقدیر سے لڑنے والا ابھی کوئی پیدا نہیں ہوا اس لیے اس کے لکھے کو مان لینے میں ہی عافیت ہے۔"
اس کے کمرے کی جلتی ہوئی بتی دیکھ کر وہ اندر آئی تھیں مگر اندر کے منظر نے ان کا دل دکھ سے بھر دیا تھا انہیں سب سے زیازہ عزیز تھے اپنے سرکار اور کیا حالت ہوئی تھی اس کی کمرے کی بتی بند کرکے وہ باہر آگئی تھیں اپنے کمرے میں آکر انہوں نے چہرہ اوپر کو اٹھایا تھا۔
"یا اللّٰه!کتنی دعا کی تھی میں نے تجھ سے کہ میرے سرکار کی جھولی خوشیوں سے بھردے ان کی زندگی کو کوئی دکھ ، کوئی درد کوئی غم کبھی نہ چھوئے مگر یہ کیا ہوگیا یہ انہیں تونے کس غم میں مبتلا کردیا کس راستے پر ڈال دیا جہاں کی کوئی منزل نہیں جہاں کی کوئی واپسی نہیں جہاں چل کر جلنا ہی آپ کا مقدر ہوتا ہے جہاں آپ اپنی خوشیوں کی تلاش میں بھاگتے دوڑتے ہو مگر خالی ہاتھ لوٹ کر آتے ہو یہ کیوں ہوا تھا۔"
انہیں اپنے بھی چہرے پر ہلکی ہلکی نمی محسوس ہورہی تھی ایک ماں کی طرح ان کا دل تڑپ رہا تھا انہوں نے اسے ہمشہ اپنی اولاد کی طرح عزیز رکھا تھا۔
ایک لفظ محبت ہے اسے کرکے دیکھو تم
برباد نہ ہوجاو تو میرا نام بدل دینا
ایک لفظ مقدر ہے اسے لڑ کر دیکھو تم
ہار نہ جاو تم تو میرا نام بدل دینا
ایک لفظ وفا ہے جو دنیا میں نہیں ملتی
اگر مل جائے کہیں سے تو میرا نام بدل دینا
ایک لفظ آنسو ہے اسے دل میں چھپا کر دیکھو تم
آنکھوں سے بہہ نہ جائے تو میرا نام بدل دینا
ایک لفظ جدائی ہے اسے سہہ کر تو دیکھو تم
ٹوٹ کر بکھر نہ جاو تو میرا نام بدل دینا
~ •••••••••••••••••••••••••••••••••••~
سب سے زیادہ خاموش کیا تھا آسمان یا اس پر چمکتا ہوا چاند اس کے کمرے سے ملحقہ ٹیرس میں رکھا ہوا اس کا تخت یا اس کے سامنے پڑی ہوئی سیاہ میٹل کی کرسیاں، گرل کے ساتھ رکھے ہوئے پودے یا پھر جنگلے کے ساتھ لٹکی ہوئی بتیاں یہ سب بھی تو خاموش اور ویران تھیں کیونکہ ان کا مکین آج ویران تھا خاموش کسی مردہ پرندے کی طرح جس کے کھلے ہوئے پروں کو کوئی پیروں تلے روند گیا ہو اور ڈھلکتی ہوئی گردن کو ہاتھوں کی انگلیوں سے کوئی بے دردی سے مسل گیا ہو عجیب بات تھی وہ خاموش ضرور تھی مگر اپنی بے قدری پر رو نہیں رہی تھی کیونکہ شاہد وہ یہ سب پہلے سے جانتی تھی کسی نہ کسی طرح پہلے سے تیار تھی۔
وہاں سے اٹھ کر وہ سیڑھیاں طے کرکے نیچے اتری تھی چہل پہل اور رونق ہنوز جاری تھی انجیل بی کے کمرے کا دروازہ بجاتے ہوئے اس نے گہرا سانس بھرا تھا۔ اندر سے آواز آتے ہی وہ دروازہ دھکیل کر اندر داخل ہوئی تھی وہ بستر پر بیٹھی نجانے کیا پڑھ رہی تھیں۔
"آو میری بیٹی!"
انہوں نے کتاب بند کرکے ایک طرف کو رکھ دی اور بستر پر اپنے قریب اشارہ کیا وہ خاموشی سے ان کے نزدیک بیٹھ گئی۔
" پڑھائی کب ختم ہورہی ہے؟"
انہوں نے اس کے چہرے کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا تھا۔
" سمجھیں ختم ہوگئی ہے کیونکہ اب میں یونیورسٹی نہیں جاوں گی۔"
اس کی بات نے انہیں کچھ دیر کے لیے سن کردیا تھا۔
" تم اپنے ہوش میں تو ہو باہمین! جانتی ہو اگر تم یونیورسٹی سے یہاں میراج کوٹھی میں بیٹھ گئی تو گل شیرہ بائی تمہیں اپنے اڈے پر بیٹھا دے گی۔"
وہ غصے میں اس سے کہہ رہی تھیں۔
" ایک طوائف کی بیٹی کی حقیقت اور ہو بھی کیا سکتی ہے انجیل بی! اس نے اڈے پر ہی بیٹھنا ہوتا ہے ورنہ اس معاشرے کے عزت دار مرد اسے اڈے پر بیٹھا کر ہی دم لیتے ہیں۔"
لہجے میں کڑواہٹ اور تلخی گھلی ہوئی تھی۔
" اور اس سے کیا فرق پڑتا ہے میں نے تو تب بھی یہاں بیٹھنا ہی ہے جب پڑھائی ختم ہوجائے گی اپنے اصل سے آخر کوئی کتنی دیر بھاگتا ہے۔"
وہ حیران تھیں اس سب سے نفرت کرنے والی لڑکی آج یہاں بیٹھنے کی بات کررہی تھی۔
" اپنے ساتھ یہ مت کرو باہمین! یہ وہ دلدل ہے جہاں دھنسنا تو بے حد آسان ہے مگر یہاں سے نکلنا اتنا ہی مشکل ایک بار جو اس غلاظت میں پھنس جاتا ہے اس کے لیے یہاں سے نکلنا ناممکن ہوتا ہے تمہاری ماں نے تمہیں مجھے سونپا تھا میرا خون ہو تم کس طرح تمہیں اپنی آنکھوں کے سامنے بھیڑیوں کے حوالے کردوں کس طرح اس خوبصورت جسم کو کتوں کے آگے نوچنے کے لیے ڈال دوں نہ میری بچی! یہ مت کرو۔"
ان کے لہجے میں منت تھی وہ وہی ان کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گئی تھی۔
" یہ سچ ہے انجیل بی! جسے جو چیز پیاری ہوتی ہے اسی کے چھن جانے کا خطرہ زیارہ ہوتا ہے جیسے مجھے عزت بہت پیاری ہے اور اس کے چھن جانے کا خطرہ ہر وقت مجھے اپنی گرفت میں لیے رکھتا ہے۔"
وہ مدہم اور دھیرے لہجے میں ان سے کہہ رہی تھی۔
" بیٹا! ایسا مت سوچو اللّٰه سب خیر کرے گا۔"
اس کی پیشانی چومتے ہوئے یہ ان کے آخری الفاظ تھے جو آنکھیں موندنے سے پہلے اس کی بصارت نے سنے تھے۔
******************
اپنے آفس کے وسیع و عریض کمرے میں بیٹھا وہ پوری دلجعمی سے کام کررہا تھا پریزنٹیشن مکمل کرنے کے بعد اس نے ایک نمبر ڈائل کیا تھا تھوڑی ہی دیر کے انتظار کے بعد دوسری جانب سے فون اٹھا لیا گیا۔
" جی! اکمل صاحب! آپ کو ایک گھر کا بولا تھا میں نے؟"
اس کے لہجے میں سنجیدگی تھی اور نگاہیں سکرین کی جانب مرکوز تھیں جہاں ایک کے بعد ایک سلائیڈ چل رہی تھی۔
" جی سر! گھر فائینل ہوچکا ہے پارٹی کو پے منٹ بھی کردی ہے چابی میں آج آپ کے آفس میں پہنچا دوں گا۔"
دوسری جانب سے کام مکمل ہوجانے کا عندیہ دیا گیا تھا۔
" گریٹ شکریہ آپکا۔"
چند رسمی جملوں کے تبدلے کے بعد کال بند کردی گئی تھی فون بند کرکے اس نے لیپ ٹاپ پر اپنے اکاوئینٹ میں موجود رقم چیک کی تھی اور وہ حیران رہ گیا تھا اسے امید نہیں تھی اتنے کم عرصے میں وہ اتنا کامیاب ہوجائے گا۔ چہرے پر فاتح مسکرایٹ دوڑ گئی تھی ہمشہ جو وہ چاہتا وہ یونہی پالیتا تھا۔ لیپ ٹاپ بند کرکے اس نے میز سے اپنا فون اور چابیاں اٹھائی تھیں اور کوٹ کے بٹن بند کرتا ہوا آفس سے باہر نکل آیا تھا آسمان پر شام دھیرے دھیرے گہری ہورہی تھی اسے جلد ہی اپنی مطلوبہ جگہ پر پہنچنا تھا۔
••••••••••••••••••••

چھنکار مکمل✅Where stories live. Discover now