فراقِ یار

1.9K 120 64
                                    

باب نمبر 12
بیت گئی شامیں انتظار میں
دیدارِ یار میسر نہ ہوا ہم کو

فراقِ یار میں بیت گیا وقت
اور سراب ہونا نہ میسر ہوا ہم کو

کٹ گئی جو راتیں روتے ہوئے
سکون نہ میسر ہوا ہم کو

اب آو گئے تو انتظار تمام ہوگا
ہجر کی راتیں میسر رہی ہم کو

ایمن خان

وہ وہی بستر پر لیٹی رہ گئی اور وہ ہمشہ کی طرح کہیں چلا گیا ایسا ہی تو ہورہا تھا پچھلے ایک مہینے میں جو اذیت باہمین زاہرہ نے کاٹی تھی دنیا کا کوئی بھی زی نفس اس اذیت کا مدعوع کرنے کا اہل نہیں تھا۔ باہمین کا جی چا رہا تھا آج بہت سارا روئے جب انسان بے بس ہوتا ہے تو شاید اس کے پاس رونے کے علاوہ اور کوئی حل بھی نہیں بچتا۔ اس کے بستر کی چادر آدھ نیچے کو ڈھلکی ہوئی تھی وہ خود بستر کے ایک کنارے پر ٹکی ہوئی تھی سیاہ لمبے بال پشت پر بکھرے ہوئے تھے اتنا سب کچھ سہنے کے بعد اس کے چہرے کی ساری شادابی جیسے مانند پڑگئی تھی۔
بستر کی چادر کے کونے کو اپنی مٹھی میں جکڑتے وہ بیڈ سے نیچے بیٹھتی چلی گئی تھی۔
"آہ!!!"
اوپر کی جانب چہرہ کیے وہ چیخی تھی۔
"یہ زندگی تو میں نے کبھی نہیں چاہی تھی یااللہ! پھر تو نے مجھے یہ کیوں دی کیا مانگا تھا تجھ سے فقط اتنا کہ عزت کی زندگی دے دے تو نے تو مجھے ذلت کی پستیوں میں دھکیل دیا اب میں کیا کروں میرا تو یہاں کوئی بھی نہیں ہے کسے پکاروں!"
اپنے بال اپنے ہاتھوں کی مٹھیوں میں جکڑتے وہ جیسے نیم پاگل معلوم ہورہی تھی یا شاید دمیر بخت نے اسے نیم پاگل کردیا تھا۔
"جس کا کوئی نہیں ہوتا اس کا اللہ سوہنا ہوتا ہے بی بی تم اسے کیوں نہیں پکارتی ہو؟"
اس کی چیخ کی آواز سن کر ماہ جبین دوڑتی ہوئی کمرے میں آئی تھی بستر کے ساتھ نیچے لگ کر اسے بیٹھا اللہ کے ساتھ شکوے کرتا دیکھ کر وہ خود کو کہنے سے نہیں روک پائی تھی یہ سچ تھا جب سے باہمین اس گھر میں آئی تھی اسے کبھی اللہ کا شکر ادا کرتے نہیں دیکھا تھا ہمشہ یہی کہتے سنا کہ اللہ نے اسے پستیوں میں دھکیل دیا۔
"میں کیسے پکاروں اسے ماہ جبین! وہ میری نہیں سنتا ہے۔"
باہمین زاہرہ نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا تھا۔
"وہ سب کی سنتا ہے اس کی بھی جو اسے نہیں مانتے پھر آپ تو ایک مسلمان ہو جی اس کی ماننے والی گواہی دینے والی کہ اللہ ایک ہے اور اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہے اور ہمارے نی کریم صلی  علیہ وآلہ وسلم اللہ کے آخری نبی ہیں۔ پھر آپ کیسے کہہ سکتی ہو کہ وہ اللہ آپ کی نہیں سنتا کیا آپ نے سچے دل اور یقین کے ساتھ اسے پکارا ہے؟ نہیں نہ ایک بار پکار کر دیکھو پھر دیکھنا وہ سنے گا جو انسان کی شہہ رگ سے بھی زیارہ قریب ہے۔"
ساتھ ساتھ کمرے کی حالت درست کرتے ہوئے وہ باہمین سے کہہ رہی تھی جو سن ساکن بیٹھی ماہ جبین کو سن رہی تھی اس کے لفظ جیسے باہمین زاہرہ کے جسم میں کوئی سکون آور نشہ انڈیل رہے تھے اور وہ اس نشے کی تاثیر سے آنکھیں موندے غنودگی میں جا رہی تھی۔
ماہ جبین باہر جا چکی تھی کمرے کی حالت پہلے جیسی ہوچکی تھی ہر چیز اپنی اپنی جگہ پر واپس آچکی تھی۔ باہر کہیں ظہر کی اذان ہوچکی تھی اسے یاد آیا تھا ایک مہینے سے اس نے کوئی نماز نہیں پڑھی تھی وہ تو میراج کوٹھی جیسی گندی جگہ پر بھی پانچ نمازیں پابندی سے پڑھتی تھی پھر یہاں آکر اس نے نماز پڑھنا کیوں چھوڑی تھی؟ ساری عمر اس نے اپنی ماں کو ایک بد کردار طوائف مانا تھا مگر انہیں نماز چھوڑتے کبھی نہیں دیکھا تھا پھر وہ سلسلبیل جبین کی بیٹی اپنی ماں کے سارے اسباق کیوں بھول گئی تھی کیوں بُھولی تھی وہ کہ چاہے زندگی میں جو بھی ہو جائے امید اور یقین کی رسی کو نہیں چھوڑنا ان دو چیزوں کے سہارے چل کر ہی انسان اپنے وجود کی لڑکھڑاہٹ پر قابو پا لیتا ہے۔ گالوں پر چمکتے ہوئے آنسوں کو اس نے اپنی انگلی کی پوروں سے رگڑ کر صاف کیا تھا اور لڑکھڑاتے ہوئے قدموں سے واشروم کی جانب بڑھی تھی۔ اپنے چہرے کے ہر اعضاء کو رگڑ کر یوں صاف کیا تھا کہ اس پر جمی ہوئی پلیدگی کی ساری تحیں اتر جائیں کلمہ پڑھ پڑھ کر اس نے اپنے ہر اعضاء پر پھونک مار کر اپنے پورے وجود سے دمیر بخت کی پلیدگی کے نشانات کو مٹایا تھا۔ اپنی مکمل تسلی کرکے وہ لباس تبدیل کرکے باہر آئی تھی وہی سفید شیفون کا فراک پہنا تھا جو اس نے میراج کوٹھی سے رخصت ہوتے ہوئے پہنا ہوا تھا کہ یہ سفید لباس اس کی پاکیزگی کی نشانی تھا اس کی پاکیزگی کا واحد موجب گواہ!
ماہ جبین کمرے سے نکلتے ہی جانماز لا کر رکھ گئی تھی شاید اسے یقین تھا کہ اب باہمین زاہرہ اپنی فرار کا یہی راستہ اپنائے گی۔
سبز جانماز جس پر سیاہ خانہ کعبہ بنا ہوا تھا وہ تحمل سے اس جانماز پر کھڑی ہونا چاہتی تھی بے داغ سفید ٹائلوں والے فرش پر بچھی وہ سبز جانماز اس کے قدموں کی منتظر تھی مگر وہ جانماز سے کچھ فاصلے پر کھڑی اسے دیکھ رہی تھی۔ باہمین زاہرہ کی ٹانگیں خوف سے بُری طرح کانپ رہی تھیں ۔
"میں اس قابل ہوں کہ اتنے پاک مسلحے پر کھڑی ہوسکوں؟"
سوال نے جیسے اس کے دماغ میں جگہ بنائی تھی اپنے دماغ میں آتے ان سوالات کو جھٹک کر وہ جانماز پر کھڑی ہوئی تھی۔ شاید ہی اتنے سکون سے اس نے کبھی کوئی نماز ادا کی ہو۔ کمرے کی خاموشی میں صرف گھڑی کی ٹک ٹک کی آواز سنائی دے رہی تھی کھڑکیوں کے پردے وہ نماز شروع کرنے سے پہلے برابر کرچکی تھی۔ اندر ہو کا عالم تھا۔ خاموش فضا میں اس کے لب دھیرے دھیرے حرکت کررہے تھے۔ اتحیات پر بیٹھی اس کی شہادت کی انگلی اللہ کی وحدانیت کی گواہ تھی۔
"اسلام علیکم و رحمت اللہ! اسلام علیکم و رحمت اللہ!"
سر کو دائیں اور بائیں جانب موڑ کر اس نے اپنی نماز ختم کی تھی۔
خالی ہاتھ فضا میں بلند کرنا چاہتی تھی اپنے خالی ہاتھوں کو اللہ کے حضور اٹھا کر وہ مانگنا چاہتی تھی آج اتنے عرصے بعد اس کے وجود میں ندامت کے موتی ابھرے تھے۔ خالی ہاتھوں میں موجود ساکن لکیروں کو دیکھ کر اس کے آنسو بہے تھے آنکھ سے نکل کر گالوں سے ہوتے ہوئے وہ ٹھوڑی تلے بہہ کر ہاتھوں کی لکیروں پر گررہے تھے۔
"یااللہ کیا تیری یہ گناہ گار بندی معافی کے لائق ہے؟"
ایک خاموش سوال اس کی زبان سے پھسلا تھا۔
"یااللہ! میں بے وقوف تھی، میں پاگل تھی،میں ناسمجھ تھی میرے مالک! ایک دنیاوی محبت کے کھو جانے پر میں نے تجھے بُھلا دیا تھا یااللہ! اور پھر تو نے بالکل ٹھیک کیا میرے ساتھ مجھے بھی بُھلا دیا اس محبت کے چھن جانے پر میں پاگلوں کی طرح بین کرتی رہی یہ سوچے بغیر کہ وہ بندہ بھی تو اللہ کا تھا وہ بھی تو تیرا بندہ ہی تھا تو نے اسے پیدا کیا تھا اس کے بے جان جسم میں روح پھونکی تھی وہ روح جو میرے روبرو آکر مجھ سے ہمکلام ہوئی تھی پھر میں نے اللہ کے اس بندے کو کیوں الزام دے دیا کیوں کیا میں نے ایسا؟"
ہچکیوں سے روتے ہوئے وہ اتنے سالوں میں پہلی بار اپنے قابو سے باہر ہورہی تھی شاید دل میں بہت عرصے سے جمی ہوئی میل آج دھلنی تھی۔
"میں کتنی پاگل تھی۔ کس قدر بے وقوف تھی کہ ایک مٹی سے پیدا کیے جانے والے انسان کے چھن جانے پر دوبارہ کبھی اللہ سے کچھ مانگنے کی جرات ہی نہیں کر پائی یہ سوچے بغیر اس مٹی سے بنے انسان کے چھن جانے کا ماتم کرتی رہی کہ مٹی سے بنے انسان نے ایک دن مٹی میں دفن ہو کر مٹی ہو جانا ہے۔ مجھے میرے گناہوں نے آج مٹی میں دفن کردیا ہے اور میں نے اپنے گناہوں کے احساس میں دیر کردی مٹی ہونے سے پہلے اپنی مغفرت کی دعا تو مانگ ہی سکتی تھی مگر میں تو اتنا گر گئی یااللہ! کہ خود کو امر سمجھ بیٹھی۔"
ہچکیوں سے روتے ہوئے وہ جانماز پر ہی سجدہ ریز ہوگئی تھی مسلسل رونے کے باعث سر بھاری اور آنکھوں کے پپوٹے سرخ سُوج چکے تھے۔ ماہ جبین نے آکر اسے جانماز سے اٹھا کر بستر پر بیٹھا کر پانی کا گلاس تھمایا تھا۔ باہمین زاہرہ کا دل یک گونہ سکون کا شکار ہوا تھا۔

چھنکار مکمل✅Where stories live. Discover now