پہلی ملاقات

2.2K 108 69
                                    

باب نمبر 2

یاد ہے مجھ کو وہ پہلی ملاقات
جیسے ہو برسات کی کوئی رات

وہ تیرا دھیرے سے مسکرانا
مجھے دیکھ کر یوں نظریں چرانا

پھر مجھے دیکھ کر یوں اندیکھا کرجانا
یاد ہے مجھ کو وہ تیرا قریب آنا

چپکے سے کان میں سرگوشی کرجانا
میٹھے سے لفظوں کے تیر چلانا

یاد ہے وہ تیرا مجھ کو گھائل کرجانا
قریب آکر یوں مڑ کر واپس چلے جانا

صدا یوں ہی سزاوں کا دینا
یاد ہے تیرا وہ آخری روٹھ جانا

منانے کی کوشیش پر خفا ہوجانا
چلو پھر سے یاد کریں وہ پہلی ملاقات

جسے تھی کوئی برسات کی ایک رات
ایمن خان
"آبیان کدھر ہے بی بی سرکار!"
سدیس نے چائے کے کپ سے گھونٹ بھرتے ہوئے آبیان کے بارے میں پوچھا تھا۔
" آہاں پتر! وہ کدھر کسی کی سنتے ہیں جو دل میں آتا ہے وہی کرتے ہیں۔"
بی بی سرکار کے چہرے پر یک لخت ہی پس مردگی چھا گئی تھی۔
" کیا مطلب؟"
سدیس کے چہرے پر الجھن بھرے تاترات تھے۔
" شہر چلے گئے وہ کہتے ہیں اتنا پڑھ لکھ کر یہاں جاگیریں سمبھالیں گئے کیا وہ۔"
بی بی سرکار افسردگی سے کہہ رہی تھیں۔
"آپ فکر مت کریں میں بات کروں گا اس سے۔"
اس نے بی بی سرکار کے گھٹنوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تھا اور موڑھا چھوڑ کر کھڑا ہوگیا تھا۔
" اب مجھے اجازت دیں بی بی سرکار! آپ کا کام ہوگیا ہے شیرا کل تک مجھ سے کاغذات لے کر آپ تک پہنچا دے گا۔"
اس نے ان کے ہاتھ کی پشت پر بوسہ لیتے ہوئے کہا تو انہوں نے اثبات میں سر ہلایا سدیس صحن سے نکل کر بیرون برآمدے کی جانب بڑھ رہا تھا جب اس کی نظر اوپر ریلینگ پر پڑی تھی اسے محسوس ہوا تھا جیسے کوئی وہاں کھڑا تھا لیکن اس کے دیکھنے پر ایک دم پیچھے ہوا تھا وہاں ہیولہ ابھی بھی باقی تھا سدیس کے فطری تجسس نے یک لخت سر اٹھایا تھا مگر دل میں سر اٹھاتے جذبات کو ڈپٹ کر وہ تیزی سے بیرونی کاریڈور عبور کرگیا تھا۔ اس کے برآمدے میں غائب ہوتے ہی درناب نے اپنی رکی ہوئی سانس بحال کی تھی۔
"عجیب بات ہے نہ اسے دیکھنا بھی چاہتی ہو اور سامنے بھی نہیں آتی۔"
اس نے آواز پر مڑ کر دیکھا تھا مہالہ اپنے تمام تر وقار کے ساتھ اس کے عین سامنے کھڑی تھی۔
" وہ۔۔وہ افروز جان!"
درناب کو اپنا سانس رکتا ہوا محسوس ہورہا تھا۔
" تمہیں کیا لگا تھا گڈے میں کودنے کے انتظامات اپنے ہی ہاتھوں کرو گی اور مجھے خبر نہیں ہوگی۔"
وہ دونوں ہاتھ باندھے درناب پر نظریں جمائے کھڑی تھی درناب کے لیے آنکھ اٹھانا انتہائی مشکل ہورہا تھا۔
" یک طرفہ آگ ہے یا برابر کی کاروائی ہے؟"
ناچاہتے ہوئے بھی اس کے لہجے میں سرد مہری سمٹ آئی تھی کیونکہ اس کا جو انجام اس لمہے مہالہ کو نظر آرہا تھا درناب وہ دیکھنے سے قاصر تھی۔
" نا۔۔نہ افروز جان! وہ تو کچھ جانتے بھی نہیں ہیں۔"
اس نے ہاتھ اٹھا کر نفی میں سر ہلایا تھا۔
مہالہ کو درناب کی کفیت دیکھ کر بے دریغ افسوس نے گھیرا تھا وہ چلبلی زندہ دل بلبل کی طرح بولنے والی لڑکی تھی یہ اس نے قدم کس سراب کی جانب موڑ لیے اس افتاد کا انجام کیا ہوگا وقت سے پہلے کسی کے لیے بھی اندازہ لگانا مشکل تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
میراج کوٹھی سے ایک گاڑی اس کے یونیورسٹی جانے کے لیے مختص تھی۔ انگوری رنگ کا شیفون کا دوپٹہ سر پر جمائے وہ سیٹ کی پشت سے سر ٹکائے بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کی ذہانت سے پر آنکھیں اس لمہے لرز رہی تھیں۔ وہ بہت مضبوط تھی بچپن سے لے کر آج تک سب کچھ دیکھتے ناپسند کرنے کے باوجود وہ خاموش رہتی تھی صرف شکوہ کرتی تو اپنی ماں سے کرتی تھی جو اسے اس دنیا میں لانے کی زمہ دار تھی۔ وہ گل شیرہ بائی کے مطلب اچھے سے سمجھتی تھی ہمشہ سے وہ یہی کرتی تھیں ان کی آنکھوں میں اس کے سراپے کے لیے ایک عجیب سی ستائش ہوتی تھی ایک عجیب سی چمک جو اسے اپنے جسم کے آر پار گڑتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔ گاڑی ایک جھٹکے سے یونی ورسٹی کے گیٹ کے سامنے رکی تھی اور اسی کے ساتھ وہ خیالوں کے جہاں سے چونک کر حقیقت میں واپس آگئی تھی۔ وہ اپنا شولڈر بیگ سمبھال کر دروازہ کھول کر نیچے اتری تھی قدم آگے بڑھانے ہی تھے کہ ڈرائیور کی آواز پر چونک کر واپس مڑی اور اسے سوالیہ نگاہوں سے دیکھا تھا۔
" بی بی ! واپسی کب ہے؟"
وہ اس سے اس کے واپس آنے کی بابت دریافت کررہا تھا۔
" ہوں دو بجے۔"
اس نے کہا اور تیزی سے آگے بڑھ گئی ایک بار پھر سے اسے غصہ عود کر آیا تھا گل شیرہ بائی میراج کوٹھی کی کسی لڑکی کو فون رکھنے نہیں دیتی تھیں شاہد انہیں خوف تھا کہ کہیں بھاگ ہی نہ جائیں۔ وہ سر جھٹکتی ہوئی یونی ورسٹی کے گیٹ میں داخل ہوگئی تھی۔ رنگا رنگ طلبا اور طالبات سے سجی ہوئی روش اپنی اپنی سرگرمیوں میں محو تھی وہ انتہائی سستی سے قدم آگے بڑھا رہی تھی اسے لگتا تھا جیسے گزرتے ہوئے ایام کے ساتھ اس کا دل ختم ہوتا جارہا ہے بس صبر آتا تھا تو اس بات پر کہ" اللہ اپنے کسی بھی بندے پر اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا ہے گیٹ سے روش تک کا فاصلہ طے کرنے کے بعد اسے یوں محسوس ہورہا تھا جیسے وہ میلوں کی مسافت طے کرکے آئی ہے اور اس کا وجود نڈھال ہوچکا ہے اس نے اپنے بیٹھنے کے لیے ایک سیمنٹ کی بینچ منتخب کی تھی اور گرنے کے سے انداز میں اس پر بیٹھ گئی تھی۔
" مس باہمین! آپ یہاں کیوں بیٹھی ہوئی ہیں؟"
اسے سوچوں سے نکالنے والا اس کا ایک کلاس فیلو تھا۔ اس نے چونک کر آنے والے کی جانب دیکھا تھا جو غور سے اس کے چہرے کا جائزہ لینے میں محو تھا باہمین کو بے اختیار ہی سخت قسم کی جھرجھری آئی تھی۔
"یہ بینچ آپ نے لگوائی ہے مسٹر طلحہ؟"
اس کا سوال اتنا اچانک اور برجستہ تھا کہ سامنے کھڑے طلحہ نے ناسمجھی سے اس کی جانب دیکھا تھا۔
" جی!!"
طلحہ کے لہجے کی حیرت نے باہمین کو سیخ پا کردیا تھا وہ تو پہلے ہی گل شیرہ بائی کی وجہ سے تپی ہوئی تھی اس پر ایسے نمونوں کا سامنے آجانا۔
" جب یہ بینچ آپ نے نہیں لگوائی تو میں کہیں بھی بیٹھوں کیوں بیٹھوں آپ کا کنسرن نہیں ہونا چائیے یو مے گو ناو۔"
اس نے درشتگی سے کہہ کر رخ موڑ لیا تھا گویا کہہ رہی ہو دفع ہوجاو۔ اتنی بےعزتی پر اس کا چہرہ سرخ پڑ گیا تھا وہ ایک جھٹکے سے مڑا تھا اور تیزی سے واپس چلا گیا تھا جاتے جاتے اسے مغرور کہنا نہیں بھولا تھا۔
" ہوں پتہ نہیں کس بات کا غرور ہے خوبصورت ہے اس لیے ہی زمین پر نہیں ٹکتی۔"
وہ بڑبڑاتا ہوا نکل گیا تھا جبکہ اس کے جانے کے بعد اس نے گہری سانس بھری تھی اس کی دوستی یہاں کسی سے بھی نہیں تھی کلاس کی لڑکیوں کے ساتھ رسمی بات چیت کے علاوہ کبھی اس نے زیادہ راہ و رسم نہیں بڑھائے تھے وہ گہرا سانس بھر کر اپنی سابقہ حالت میں چلی گئی تھی اردگرد کا شور جیسے اس کے اعصاب پر کوئی اثر نہیں کررہا تھا۔ اس کا لیکچر شروع ہونے میں ابھی آدھا گھنٹہ باقی تھا اس نے بیگ کی زپ کھول کر اندر سے ایک کتاب نکالی تھی اور وہی بینچ پر بیٹھ کر خود کو اس کے مطالعے میں مصروف کرنے کی کوشیش کی تھی۔ ابھی کتاب کھولے اسے دس منٹ ہی بیتے تھے کہ قریب سے ٹائر چرچرانے کی آواز نے اس کی توجہ سمیٹی تھی اس نے کتاب سے نگاہیں اٹھا کر قریب رکنے والی گاڑی کو دیکھا تھا سیاہ رنگ کی بڑی سی اوڈی تھی جو اپنی پوری شان کے ساتھ وہاں رکی تھی وہ واپس کتاب کی جانب متوجہ ہونے والی تھی جب اوڈی کا پچھلا دروازہ کھلا تھا اور سیاہ چمکدار بوٹ سرخ اینٹوں کی روش پر نمودار ہوا تھا آنے والے کو دیکھنے کے فطری تجسس نے اسے واپس کتاب کی جانب متوجہ ہونے نہیں دیا وہ وہی کتاب کھولے اس کے مکمل باہر آنے کا انتظار کرنے لگی گرے شلوار قمیض میں ملبوس وہ نفس آنکھوں کو ڈارک گلاسس سے کور کیے کان کے ساتھ فون لگائے کسی سے محو گفتگو تھا چہرے پر سنجیدہ اور سرد تاثرات اس کی کرختگی کا پتہ دے رہے تھے وہ انسان اسے بے حد عجیب لگا تھا وہ اسے نظر انداز کرکے کتاب بند کرکے اٹھ کھڑی ہوئی تھی اس کی کلاس کا وقت ہوگیا تھا۔
کلاس ختم کرکے واپس وہ اسی بینچ پر آکر بیٹھ گئی تھی انگوری رنگ کے دوپٹے کو سر پر ہاتھ سے درست کیا تھا اور کتاب بیگ سے نکال کر پھر سے کھولی تھی اپنے مطلوبہ چیپٹر کو کھول کر اس نے اپنا منقطہ سلسلہ واپس جوڑا اور مطالعے میں غرق ہوگئی۔ وہ اندرونی عمارت سے باہر نکلا تھا فون حسب معمول کان کے ساتھ لگا ہوا تھا شاہد وہ کافی مصروف انسان تھا اس بار باہیمن نے اس کا جائزہ نہیں لیا تھا بلکہ وہ اپنی مکمل توجہ کتاب کی جانب کررہی تھی۔ وہ اپنی گاڑی کے نزدیک پہنچا تھا اس کے پیچھے آتے بندے نے اس کے لیے پچھلی سیٹ کا دروازہ کھولا مگر اس بار وہ گاڑی میں بیٹھنے کی بجائے دانستہ بینچ کی جانب توجہ کرگیا کال شاہد دوسری جانب سے منقطہ ہوچکی تھی وہ ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے مکمل بے نیاز کتاب پڑھ رہی تھی اور وہ اسے حیرت کی تصویر بنا دیکھ رہا تھا حسن تو دیکھا ہی تھا اس نے لیکن اس سامنے بیٹھی ہوئی لڑکی میں اسے کچھ بہت خاص محسوس ہوا تھا اس کی ناک میں دمکتی فیروزے کی نوزپن اس کے چہرے پر بے انتہا جچ رہی تھی جیسے وہ بنائی ہی اس چہرے کے لیے گئی ہو وہ اپنے قدم اس کی جانب موڑنے سے نہیں روک پایا تھا وہ پہلے بھی آتے ہوئے اسے سرسری سا دیکھ چکا تھا مگر اس وقت اتنا گہرائی سے تجزیہ نہیں کیا تھا۔
" ایکس کیوز می مس!؟"
اس نے ہاتھ میں پکڑا ہوا ایلیون پرو اپنے سیاہ کوٹ کی اندرونی جیب میں ڈالا تھا اور اس کے قریب کھڑا ہوگیا تھا۔
باہمین نے کتاب سے نگاہیں ہٹا کر سامنے کھڑے اس شاندار بندے کو دیکھا تھا جس کا گہرائی سے جائزہ وہ آگے ہی لے چکی تھی۔
" یس!"
وہ حیرت کے بعد قدرے سمبھل کر گویا ہوئی تھی۔
" کچھ کہوں تو مائینڈ تو نہیں کریں گی آپ؟"
اس کے چہرے پر اس قدر سنجیدگی تھی کہ باہیمن اس کی طرف بس دیکھ کر رہ گئی۔
"اب یہ تو آپ کی بات پر ڈیپینڈ کرتا ہے۔"
اس نے لبوں پر مچلتی مسکراہٹ کو دبا کر سنجیدگی سے اسے جواب دیا تھا۔
" اوکے دین یہ نوز پن جو آپ نے ناک میں پہنی ہوئی ہے مس اٹ سوٹس یو آلوٹ ایسا لگ رہا یہ بنی ہی بس اس ناک کے لیے ہو۔"
وہ کہہ کر اس کا جواب اور تاثرات دیکھنے کے لیے رکا نہیں تھا گاڑی میں فوری سے بیٹھ کر چلا گیا تھا اور وہ بس اس کی جرات اور انداز پر حیران ہوتی رہ گئی تھی یہ سچ تھا کہ وہ شخص پہلی ہی ملاقات میں اس کی توجہ کھینچنے میں کامیاب ہوچکا تھا کیونکہ وہ بہت مختلف اور عجیب تھا جو کہنا تھا وہ بغیر کسی خوف اور جھجھک کے کہہ کر چلتا بنا۔
" عجیب شخص تھا۔"
اس نے کندھے اچکائے اور واپس کتاب کی جانب متوجہ ہوگئی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
وہ آج اپنی تمام تر تیاری کے ساتھ آفس میں موجود تھا سموک کلر کا تھری پیس سوٹ پہنے سلیقے سے بال بنائے وہ تمام سٹاف سے اپنا تعارف کروا رہا تھا۔ اس کی زندگی کے کچھ اصول تھے جہاں پڑھتے ہو جہاں کام کرتے ہو اور جہاں رہتے ہو وہاں کی لڑکیوں پر آنکھ نہیں رکھنی اس لیے آفس میں وہ انتہائی سنجیدگی سے سب سے تعارف کروا رہا تھا۔ سب سے مل کر وہ اپنے کمرے میں آکر بیٹھا ہی تھا جب اس کا فون بجا تھا سکرین پر مصطفی کالنگ دیکھ کر اس نے بغیر کسی تصدیق کے فوری کال اٹھائی تھی۔
" بول مصطفی!"
اس نے ایک فائل اپنے آگے کرتے ہوئے انتہائی عجلت میں کہا تھا۔
" یار دمیر کدھر ہے تو دو دن سے نہ کوئی کال رسیو کررہا ہے نہ ملنے آیا یہ چل کیا ریا ہے؟"
دوسری جانب سے مصطفی خاصا پریشان دیکھائی دے رہا تھا۔
" یار آج میں بابا کے آفس آیا ہوں فل حال تو کام کررہا ہوں۔"
دمیر نے اپنی غیر حاضری کی بابت مصطفی کو سرسری سا آگاہ کیا تھا۔
" یار وہ تیری نئی گرل فرینڈ سے میٹنگ کب رکھنی ہے؟"
مصطفی بہت جلد مطلب کی بات پر آگیا تھا۔
" کونسی وہ جو منیر خواجہ کی بیٹی ہے؟ خواجہ انڈسٹریز کے مالک کی؟"
دمیر دماغ پر زور ڈالتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔
" ہاں وہی ویسے ہاتھ بڑا اونچا مارا ہے تونے۔"
مصطفی شاہد دوسری جانب سے اپنی مسکراہٹ ضبط کرنے کی کوشیش کررہا تھا۔
" دمیر بخت گھاٹے کا سودا تو ویسے بھی کبھی نہیں کرتا ہاں بس حسن ہونا چائیے خوبصورتی میری کمزوری ہے خیر کوئی بھی وقت رکھ دو میں آفس سے فری ہوکر آجاوں گا۔"
دمیر نے جلدی سے بات سمیٹ کر فون بند کیا تھا اور واپس اپنی فائل کی جانب متوجہ ہوا تھا۔ وہ آہستہ آہستہ اپنا زہر خوبصورتی میں انڈیلتا تھا اسے ٹھنڈا کرکے کھانے کی عادت تھی اسے معلوم تھا کہ دھواں نکلنے والی چیز منہ میں فوری رکھنے سے منہ کو جلا دیتی ہے اور دمیر بخت کا منہ جل جائے یہ ممکن نہیں تھا بے ساختہ مسکراہٹ نے اس کے لبوں کو چھوا تھا اور وہ واپس اپنے کام کی جانب متوجہ ہوا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

چھنکار مکمل✅Où les histoires vivent. Découvrez maintenant