قسط ١

3.2K 121 143
                                    

پہلی بات کے پہلی قسط میں ہی رومانوی کہانی شروع نہیں ہوتی سب سے پہلے کہانی کو بنانا پڑتا اور پھر چند قسطوں کے بعد ہیرو ہیروئین کی محبت شروع کی جاتی ہے شروع کی قسط  میں ایسا نہیں ہوتا اس لئے صبر!
ریویو دیں
سحر قادر!!!

انتقامِ وفا
بقلم
سحر قادر

#####EPISODE 1#####

انتقام کی آگ بہت بری چیز ہوتی ہے۔
دنیا میں کوئی بھی جذبہ ہے، چاہے محبت کا ہے یا نفرت کا، وہ اتنا شدید نہیں ہوتا جتنا انتقام لینے کی خواہش ہوتی ہے۔
یہ خواہش انسان کو سکون نہیں لینے دیتی اور نہ ہی اسے کسی قابل چھوڑتی ہے۔
انتقام کی اسی آگ میں مہمل خان کئی سالوں سے جل رہی ہے یہ آگ اسے سکون سے نہیں بیٹھنے دے رہی ہے۔
وہ جب تک اپنا انتقام پورا نہیں کر لیتی تب تک وہ کسی کی نہیں سننے والی!
مہمل خان نے اس آگ کو کئی سالوں تک ایندھن دیا ہے اور اب یہ آگ بھڑکتے شعلوں کا روپ دھار چکی ہے۔
مگر وہ یہ نہیں جانتی کہ انتقام کا چکر بہت بری چیز ہوتی ہے۔
انتقام سب سے پہلے منتقم کی آنکھوں کو جلا کر راکھ کر دیتا ہے اور اسے انتقام کے اندھے راستے کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔
ایک ایسا راستہ جسکے اختتام پر صرف کھائی ہے مگر...
مہمل خان کا ماننا ہے کہ عورت تو نرم دل ہے  لیکن جب وہ انتقام لینے پہ آ جائے تو وہ ظالم اور سفاک ہو جاتی ہے۔
اور وہ بھی ایسی ہے اسے کوئی نہیں روک سکتا کیونکہ مہمل کے مطابق عورت کا انتقام کبھی ناکام نہیں ہوتا لیکن شاید اس انتقام کے بعد عورت انسان نہیں رہتی پتھر بن جاتی ہے۔
مگر اسے اس سب سے غرض نہیں اس کے سر  پر  صرف انتقام  کی دھن سوار ہے۔
مہمل خان انتقام کی سلائیاں  اپنی آنکھوں پر پھیر کر ہر چیز کو دیکھنے سے محروم  ہو گئی ہے!
اسے صرف ایک چیز یاد ہے اور وہ ہے انتقام!

صرف انتقام!!!
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
"مہمل بچے اٹھ جاؤ اتنی دیر ہو گئی ہے نماز کا وقت ختم ہو جائے گا۔" رقیہ بیگم مہمل کو اٹھا رہی تھیں۔
"امی اٹھ رہی ہوں۔ آپ فکر نہیں کریں۔" مہمل نے اٹھتے ہوئے کہا اور وضو کرنے لگی۔
اس سادہ سے مکان کے مکین بہت سادہ ہیں مگر مہمل خان ان کی طرح نہیں ،اور اب تو عرصہ ہوا اس مکان کے مکین نہیں رہے۔
جہانگیر خان کی اکلوتی بیٹی مہمل خان جسکی پیدائش پر جہانگیر خان کہتے تھے کہ اپنی بیٹی کا ہر کام خود کروں گا آج ان کا ہر کام ان کی بیٹی ہی کرتی تھی۔
رقیہ بیگم تو جہانگیر خان کو اس حال میں دیکھ کر مشکل سے ضبط کرتی تھیں۔
مہمل نے نماز پڑھی اور دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے، مگر ایک ہی منٹ میں سر جھٹک کے مصلے کو تہہ کر کے رکھ دیا اور صحن میں جا کر بیٹھ گئی۔
"مہمل بچے تم دعا کیوں نہیں مانگتی؟" نماز کے بعد ہمیشہ کی طرح رقیہ بیگم آج بھی اس سے وہی سوال کر رہیں تھیں۔
"امی آپ کو کیا لگتا ہے میری دعائیں قبول ہوتی ہیں؟؟" مہمل نے طنزاً کہا۔
"مہمل میری جان!" رقیہ بیگم اسکے سر پر ہاتھ رکھ کر بولی تو وہ بولی "نہیں امی اللہ میری نہیں سنتا۔اگر اللہ میری سنتا تو تو میرا بھائی اور بہن میرے ساتھ میرے پاس ہوتے، اگر اللہ میری سنتا تو میرا باپ جہانگیر خان اس حال میں نہ ہوتا، اگر اللہ میری سنتا تو آپ کو شوہر کے ہوتے ہوئے یوں در در کی ٹھوکریں نہ کھانا پڑتیں، اگر اللہ میری سنتا تو میں یوں خالی ہاتھ نہ ہوتی۔"
مہمل نے اپنے ہاتھوں کو دیکھتے ہوئے شکوہ کیا تھا۔
" نہیں میری جان ایسے نہیں کہتے۔ اللہ سب کی سنتا ہے دعا دیر سے ہی سہی مگر قبول ہوتی ہے۔ اور جب کسی کی دعا قبول نہ ہو اسکا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ کو اسکے مانگنے کا انداز بہت پسند ہے۔ اس لئے بچے دعا مانگا کرو کیونکہ دعائیں تو تقدیر بدل دیتی ہیں۔" رقیہ بیگم نے اسے پیار سے سمجھایا
وہ اپنے گھر کی نیچی دیواروں کو دیکھتے ہوئے بولی: " امی ہماری تقدیر اب کیا بدلے گی؟ کیا اتنے سال واپس آ سکتے ہیں؟"
جسکے جواب میں رقیہ بیگم اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگیں۔
" بچے مایوسی کفر ہے اور اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ دیکھنا وہ تمہیں بہترین سے نوازے گا۔"
"مگر اللہ نے آج تک مجھے وہ نہیں دیا جسکی میں نے خواہش کی ہے۔" اسنے سر اٹھا کر پوچھا۔
" وہ اس لئے کیونکہ تم نے اللہ کی چاہت کی بجائے اپنی چاہت کی تکمیل کرنے کیلئے جستجو کی ہے اگر اللہ کی سنو گی تو وہ تمہاری سنے گا۔"
حدیث قدسی ہے
"اے ابن آدم ایک میری چاہت ہے۔
ایک تیری چاہت ہے۔ ہوگا وہی جو میری چاہت ہے۔
پس اگر تو نے سپرد کر دیا اپنے آپ کو اس کے جو میری چاہت ہے، تو وہ بھی میں تجھے دے دوں گا جو تیری چاہت ہے۔
اگر تو نے مخالفت کی اس کی جو میری چاہت ہے۔
تو میں تھکا دوں گا تجھ کو اس میں جو تیری چاہت ہے،
پھر   وہی    ہو    گا    جو    میری   چاہت   ہے۔"
رقیہ بیگم نے اسکا ماتھا چومتے ہوئے کہا اس نے انکی بات پر سر اٹھا کر انکو دیکھا تھا۔ آنکھوں میں ایک سوال تھا جس پر وہ نرم سی مسکراہٹ انکے منہ پر آئی،جو کہ انکی شخصیت کا خاصہ ہے اور اسکے سر پر پیار سے ہاتھ پھیر کر کہا:
" ہاں بیٹا دعا مانگا کرو ترمذی میں ہے کہ" جو شخص اللہ سے دعا نہیں کرتا اس سے اللہ سخت ناراض ہو جاتا ہے۔" اور مایوس مت ہوا کرو کیونکہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے "تمہارا رب مالک حیا و کرم ہے بندہ اسکی بارگاہ میں ہاتھ اٹھائے اور وہ انھیں خالی چھوڑ دے اس سے وہ اپنے بندہ سے حیا فرماتا ہے۔" دعا مانگا کرو میرا رب تمہیں بھی نوازے گا ،کیونکہ وہ ہی تو سب کو دینے والا ہے کون ہے اس کے علاوہ جو ہمارا ہے۔"
مہمل انکی بات سن کر اٹھی اور مصلہ بچھا کر دعا مانگنے لگی۔ نجانے کب تک وہ یونہی بیٹھی دعا مانگتی رہی تھی جبکہ رقیہ بیگم ایک لمبی سانس بھر کر رہ گئیں تھیں۔ انھیں بعض اوقات مہمل کی باغیانہ طبیعت سے بہت خوف آتا تھا۔ وہ یوسفزئی خاندان سے نفرت میں بہت آگے چلی گئی تھی اور انھیں ڈر لگتا تھا کہ اگر ایسا ہی رہا تو کہیں وہ یوسفزئی اسکو رقیہ بیگم سے چھین نہ لیں جیسے وہ آگے انکے دو جگر گوشوں کو اپنی حویلی میں کہیں گم کر چکے تھے مگر وہ صبر سے بس اپنے بیٹے اور بیٹی کیلئے دعا مانگا کرتی تھیں۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
"ڈاکٹر قدوس نئی لیڈی ڈاکٹر کیلئے آج انٹرویو ہے۔ ڈاکٹر ماریہ کو بولیں پانچ منٹ میں آفس میں آئیں تا کہ انٹرویو شروع کیا جائے۔" شاہ نے قدوس صاحب سے کہا تو وہ سر ہلا کر رہ گئے تھے۔
ڈاکٹر ماریہ اور ڈاکٹر شاہ نے جب انٹرویو شروع کئے تو تمام خواتین ڈاکٹر خوب تیار ہو کر آئیں تھیں جو کہ شاہ کو بہت عجیب لگ رہا تھا کیونکہ اسے ڈاکٹر چاہیے تھی ماڈل نہیں۔
" ڈاکٹر شاہ آپ کیوں اتنا عجیب محسوس کر رہے ہیں آج کل کی لڑکیاں ایسی ہی ہیں۔" ڈاکٹر ماریہ نے کہا جو کہ ہسپتال کی تجربہ کار ڈاکٹرز میں سے ایک تھیں۔
"کچھ نہیں ڈاکٹر آپ اگلی لڑکی کو بلائیں غالباً یہ آخری ہیں۔"  شاہ نے لمبی سانس خارج کرتے ہوئے کہا۔
"جی بلکل یہ آخری ہیں۔" ڈاکٹر ماریہ نے کہا اور اتنی دیر میں نور آفس میں داخل ہوئی۔
" جی مس یوسفزئی آپ اپنے بارے میں کچھ بتائیں۔" شاہ نے پوچھا
"میرا نام مس نور ہے نا کہ مس یوسفزئی!" نور کو شاہ کا طرزِ تخاطب کچھ زیادہ پسند نہیں آیا تھا،
شاہ کے ماتھے پر بل پڑے تھے مگر اس نے فائل کو کھول کر کہا کہ "ہم نے تین سال کا تجربہ مانگا تھا آپ کا جو کہ نہیں ہے تو پھر سی وی بھیجنے کا مقصد؟"
" جناب تجربہ تب آئے گا جب نوکری ملے گی اور فرض کریں تمام تجربہ کار ڈاکٹر ایک ایک کر کے ختم ہو جائیں تو آپ کیا کریں گے؟" نور کے چہرے پر سنجیدگی تھی۔
"محترمہ یہ نوکری نہیں ہے یہ مقدس فرض ہے۔" شاہ نے اسکو کہا تو وہ بولی" پھر تو بات ہی ختم تجربہ تو نوکری کیلیے چاہیے ہوتا ہے۔ نیکی کیلئے تو کوئی بھی حاضر ہو سکتا ہے۔" اسکا چہرہ اب کی بار کسی بھی تاثر سے پاک تھا اور شاہ اسکو دیکھ کر ایک عجیب کشمکش میں تھا۔
ڈاکٹر ماریہ نے اس سے کہا "ہم اگر نئی نسل کے مخالف ہوتے تو آپ کو یوں نہ بلاتے۔ ہمیں تین سال کا تجربہ چاہیے لیکن ہم نے اسکو راہ کی دیوار نہیں بنایا سب کو بلایا ہے یہاں۔"
" غلط معزز ڈاکٹر آپ نے صرف مجھ ناتجربہ کار کو بلایا ہے۔ باقی سب تجربہ رکھتی ہیں میری باہر سب سے بات ہوئی ہے۔" نور نے الفاظ کو چباتے ہوئے طنز کیا جس پر ڈاکٹر ماریہ شرمندہ ہو چکی تھیں۔
" آپ کو کیا لگتا ہے کہ آپ کو بلانے کی کیا وجہ ہے؟" شاہ نے کٹیلے انداز میں پوچھا۔
"میرا تعلیمی سفر! آپ نے جو تعلیمی اسناد اور کارکردگی دیکھی ہے اسکی بنا پر بلایا ہے اور کوئی بھی میری فائل دیکھتا تو مجھے بلاتا۔" نور نے آرام سے بلکل ٹھیک جواب دیا تھا  کیونکہ بلاشبہ شاہ نے اسکا نام انٹرویو کی فہرست میں اسکی شاندار تعلیمی قابلیت کو دیکھ کر ڈالا تھا۔
" آپ جا سکتی ہیں مس یوسفزئی میرا مطلب ہے کہ مس نور  مجھے آپ سے مل کر اچھا لگا۔" شاہ نے اسے جانے کا عندیہ دیا
نور آرام سے کرسی سے اٹھی اور باہر چلی گئ۔
شاہ نے محسوس کیا تھا کہ نور کی آنکھوں میں عجیب سی چمک تھی جسکی وجہ وہ سمجھ نہیں پایا تھا مگر پھر وہ اور ڈاکٹر ماریہ انٹرویو کے بارے میں بات کرنے لگے۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
"مومی تم کہاں ہو؟" مسلسل آواز آ رہی تھی اور وہ اندھیرے میں اس آواز کی طرف بڑھ رہی تھی۔
"مومی جلدی آؤ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے!"
وہ اس حویلی میں گھوم چکی تھی مگر اسے وہ کہیں نہیں مل رہا تھا۔
"مومی مجھے بچاؤ! مومی بچاؤ! مومی بچاؤ! مومی بچاؤ!" کی پکار بڑھتی چلی جا رہی تھی اور اسکے کانوں میں گونجتی جا رہی تھی وہ دیوانہ وار بھاگ رہی تھی مگر اسے کوئی راستہ نہیں مل رہا تھا۔
وہ بھاگ کر اس خونی حویلی کے باہر موجود لان میں آئی کہ اچانک چھت سے کوئی نیچے گرا اور آخری بار چیخ سنائی دی تھی۔
" مومی!!!!"
اور وہ وہیں اپنے منہ پر ہاتھ رکھتے رو پڑی تھی اسکی دبی دبی سسکیاں اس حویلی میں گونج رہی تھی۔ مگر وہ بے رحم حویلی اسکو برباد کرنے پر تلی تھی۔
اسکو ایک تھپڑ مارا گیا تھا۔ وہ جو سب ذہنی طور پر قبول نہیں کر پا رہی تھی ایک ہی تھپڑ پر بے ہوش ہو چکی تھی اور اس  سرد رات میں لان میں پڑی تھی مگر یہ حویلی بہت بے رحم تھی۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
"رقیہ اری او رقیہ!" شبنم خالہ رقیہ بیگم کو آوازیں لگا رہیں تھیں ۔
مہمل انکو دیکھ کر بولی "کیسی ہیں خالہ؟؟"
"میں ٹھیک تم بتاؤ مہمل بچے کیسی ہو امتحان ہو گئے تمہارے؟" شبنم خالہ نے پوچھا۔
"جی خالہ اب بس دعا کریں مجھے میڈیکل میں داخلہ مل جائے۔" مہمل نے نرم سے مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا۔
"ضرور بچے ذرا رقیہ کو بلاؤ!" شبنم خالہ نے کہا تو وہ رقیہ بیگم کو بلانے اندر چلی گئی۔
"ارے شبنم بہن اتنے عرصے بعد آئی ہو کہاں غائب تھی تم؟" رقیہ بیگم نے پرجوش طریقے سے کہا  تو وہ بولیں۔
" میں یہیں تھیں بس مصروف تھی۔"
" اچھا اور سنائیں کیسے مزاج ہیں؟" رقیہ بیگم نے انکے پاس بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
"ارے مجھے چھوڑو میں ایک ضروری بات کرنا چاہتی ہوں۔" شبنم خالہ نے سنجیدگی دکھائی۔
"جی بہن بولیں کیا بات ہے؟" رقیہ بیگم پریشان ہوئیں تھیں۔
"دیکھو بھئی اپنی مہمل نے بارہ جماعتیں پڑھ لیں ہیں سگھڑ ہے، سلیقہ مند ہے اور چاند کے ٹکڑے جیسی ہے میرے پاس ایک بڑے اچھے امیرا خاندان کا رشتہ ہے مہمل کیلئے وہ لوگ آنا چاہ رہے ہیں۔" شبنم خالہ نے آنے کا مقصد بتایا۔
" مگر وہ تو پڑھنا چاہتی ہے ابھی۔" رقیہ بیگم نے بولا تو شبنم خالہ گویا ہوئیں۔
"دیکھو رقیہ تمہارے شوہر کو تو ظالموں نے کسی کام کا نہیں چھوڑا۔ بات کڑوی ہے مگر سچ ہے کہ یہ معاشرہ عورت کو جینے نہیں دیتا اور ایک بےسہارا عورت کو جو جوان بچی کے ساتھ ہو سانس کہاں لینے دیتے ہیں۔ یہ لوگ ارے جب اپنی مہمل کالج جاتی تھی تب بھی پیچھے کئی آوارہ لڑکے جاتے تھے اور تمہارے گھر کے سامنے آج بھی لڑکے کھڑے ہوتے ہیں صرف اسلئے کہ ایک مرد نہیں یہاں کب تک لڑو گی تم؟"
" ارے خالہ کون ہیں یہ لونڈے؟ انکو تو میں ابھی پوچھتی ہوں۔ مہمل کو دیکھیں گے؟ مہمل اپنی طرف اٹھنے والی آنکھیں نہ پھوڑ دے خالہ قسمت سے مار بڑی کھائی ہے مگر بہت کچھ سیکھا ہے مہمل نے کمزار نہیں ہوں میں۔"
مہمل شبنم خالہ کی بات سن کر آستینیں چڑھاتی گیٹ کی طرف بڑھی تو رقیہ بیگم نے سخت لہجے میں کہا "مہمل اندر جاؤ محلے میں تماشہ بنے گا۔"
جس پر وہ غصے سے دروازے کو گھورتی اندر چلی گئی۔
رقیہ بیگم کی آنکھیں اپنی بےبسی کو محسوس کر کے نم ہو رہیں تھیں۔ انھوں نے شبنم خالہ کو ان لوگوں کو لانے کیلئے کہا۔
اب جب یہ بات مہمل کو پتہ چلنی تھی تو الگ ہنگامہ ہونا تھا۔
- - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - -
"ڈاکٹر ماریہ آپ ڈاکٹر نور کو فون کر کے کہہ دیں کہ ان کا انتخاب کیا گیا ہے اور وہ کل سے وقت پر ہسپتال آئیں اور کوئی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی۔" شاہ نے یہ کہہ کر فون بند کر دیا۔
نور نے اسے حیران کیا تھا۔
وہ باقی لڑکیوں سے مختلف تھی سادہ سی کیپری میں سادہ سا کرتا زیب تن کئے دوپٹہ سر پر ٹکائے وہ الگ دنیا کی باسی لگتی تھی اسکی سادی بھی کمال تھی۔
اسکی آنکھوں میں موجود عجیب سی چمک اور بے تاثر چہرہ سب کو چونکنے پر مجبور کرتا تھا۔
آج شاہ بھی حیران ہوا تھا اسکی آنکھوں میں موجود سرد تاثر اور عجیب چمک ایک لمحے کیلئے مقابل کے جسم میں سنسنی دوڑا دیتی تھی۔
شاہ آج سوچ رہا تھا کہ اس لڑکی کے بارے میں کیا چیز اسے اچھی لگی اور اسکی آنکھیں اتنی سرد اور عجیب چمک لئے ہوئے کیوں ہیں۔
ایک لمحے کو اسے خیال آیا کہ شاید وہ یوسفزئی ہے اس لئے، مگر پھر اسنے سر جھٹکا کہ وہ یہ کیا سوچ رہا ہے اور داؤد کو کال ملائی۔
- - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - -
جاری ہے!!!

Stay tuned!!!!

انتقامِ وفا (مکمل) Donde viven las historias. Descúbrelo ahora