قسط نمبر 2

188 11 0
                                    

میں اگر آپ کے شوہر نامدار کا رتبہ بڑھا دوں تو مجھے کیا ملے گا؟ ناہید جانتی تھی کہ اسے کیا چاہیے لیکن وہ اپنے اکلوتے بھائی کی یہ خواہش چاہ کر بھی پوری نہیں کر سکتی تھی. پھر بھی نہ سمجھی سے بولی.
میرے بھائی کے پاس دنیا کی ہر چیز ہے. اسے مجھ سے بھلا کیا چاہیے ہوگا؟
بے شک... یاسر دورانی کے پاس ہر چیز موجود ہے اور جو نہیں بھی ہے وہ اسے خرید سکتا ہے، فقط ایک پری ذاد کے جو میری دسترس میں نہیں ہے. مگر آپ ساتھ دیں تو یہ میرے لئے مشکل نہ ہو گا.... اسے پا لینا... وہ خباثت سے بولا تھا.
یاسر تم جانتے ہو اس کا نکاح ہو چکا ہے. پھر بھی یہ ضد کیوں؟ ویسے بھی وہ اپنے سرکل کی نہیں ہے.
آپ کے شوہر نامدار بھی تو نہیں تھے. پھر بھی آپ نے ڈیڈ کے خلاف جا کر ان سے شادی کی اور میں تو پھر مرد ہوں. وہ بھی اسی کا بھائی تھا.
میں ایک سے بڑھ کر ایک لڑکی تمہارے سامنے لا کھڑی کروں گی. وہ اسے لالچ دیتی ہوئی بولی.
مگر وہ گلرخ نہیں ہوگی.
تم مجھے آج بتا ہی دو کہ کیا نظر آیا تمہیں اس جاھل اور المینرڈ لڑکی میں یہاں تک کہ اس کے پاس کوئی ڈگری بھی نہیں ہے اور نہ کوئی ایسا ہنر ہے جو اسے منفرد بنا سکے. پھر کیوں وہی چاہیئے؟ وہ تھک گئی تھی اس کی بے جا ضد پر.

کیا یہ دلیل کافی نہیں ہے کہ وہ یاسر دورانی کی نفی کر گئی ہے؟ میری شان و شوکت، رتبہ سب جاننے کے باوجود...
وہ وہ کربناک پل پھر سے اپنے دماغ پر سوار کرتا ہوا بولا جب گلرخ نے اس کی نفی کی تھی.

وہ نا چاہتے ہوئے بھی اپنی ماں کے کہنے پر ناہید کو سامان دینے آیا تھا. اس کا ارادہ اندر جانے کا نہ تھا مگر اپنی ماں کی بات یاد آنے پر وہ اندر سامان دیے لوٹ آنا چاہتا تھا.
ڈرائیور نے ہی گاڑی سے اتر کر اس کے لئے دروازہ کھولا تھا.
اور آگے بڑھ کر گھر کی بیل بجائی تھی.
دروازہ کھولنے والی اور کوئی نہیں گلرخ تھی.
جی آپ کون..... ڈرائیور کچھ کہتا اسے پہلے یاسر سامنے آکھڑا ہوا تھا.
وہ ہونز دروازے پر ہی کھڑی تھی اور اندر آنے کے لیے جگہ نہ دی تھی.
ناہید.... ناہید دورانی وہ جان گئی تھی کہ یہ ناہید بھابھی سے ملنے آئے ہیں. اسی لیے دروازے سے ہٹ گئی.
یاسر نے باہر کھڑے ڈرائیور کو گاڑی سے سامان نکالنے کے لئے کہا تھا اور وہ خود اس کے پاس آ کھڑا ہوا تھا.
اندر جا سکتے ہیں.... وہ دروازہ پکڑے بولی تھی.
صاحب یہ سامان....
اسے اندر لے جاؤ... وہ حکم کی بجاآوری کرتا اندر چلا گیا.
وہ لڑکی پہلی نظر میں ہی یاسر دورانی کو الگ سی لگی تھی اس نے کوئی خاص لباس زیب تن نہ کیا تھا مگر پھر بھی اس کی آنکھوں میں ایسی کشش تھی کہ مقابل ایک بار دیکھ لیتا تو دیکھتا ہی رہ جاتا. یہ نہیں تھا کہ اس نے حسین لڑکی دیکھی نہ تھی بلکہ لڑکیاں تو اپنے حسن سے لیس اس کی چاہت میں پور پور ڈوبنے کو تھیں اور اس کی دوستیاں بھی بے شمار لڑکیوں سے رہ چکی تھیں. یہ اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا.
وہ اندر بڑھنے کو تھی جب وہ اس کا ہاتھ پکڑ چکا تھا.
اس طرح کسی غیر کے ہاتھ پکڑ لینے پر گل کے تن بدن میں آگ لگ گئی تھی.
ابھی وہ کچھ اور بولتا کہ گل کا ہاتھ اٹھا تھا اور مقابلہ کے منہ پر اپنا نشان چھوڑ گیا تھا.
یاسر دورانی کو وہ لمحہ آج تک نہ بھولا تھا وہ اسے کسی بھی قیمت پر حاصل کرنا چاہتا تھا.
مگر وہ ان لڑکیوں میں سے نہ تھی جنہیں پیار اور محبت کا جھانسہ دیے حاصل کر لیا جاتا وہ بہت مضبوط کردار کی لڑکی گلرخ تھی.

اقرار لازم ہے (مکمل ناول) Where stories live. Discover now