قسط نمبر 5

151 9 0
                                    

تو سامنے ہے تو پھر کیوں یقیں نہیں آتا
یہ بار بار جو آنکھوں کو مل کے دیکھتے ہیں

حمین کی بارہا نظر گل کے پاس ہی جاٹھرتی تھی. وہ چاہ کر بھی گل کو اپنے ساتھ نہ رکھ سکتا تھا. اگر وہ حمین کے ساتھ ہوتی تو بہت سی نگاہوں کا مرکز بنتی اور یہ حمین کو کہاں گوارا تھا کہ وہ یوں کسی کی نگاہوں کا مرکز بنتی اور وہ خود بھی سائڈ ٹیبل کے پاس آ رکی تھی.
اور حمین جو بظاہر بہت مگن لگ رہا تھا اس کی تمام تر نظریں گل کی طرف ہی تھیں.
ایک شخص کو گل رخ کے پاس دیکھ وہ الرٹ ہوا تھا اور پہچاننے میں بالکل بھی اسے دیر نہ لگی تھی کہ یہ گل کی بھابھی کا بھائی یاسر دورانی تھا.
وہ اس وقت ردا کے پاس ہی کھڑا تھا.
حمین کیا ہوا؟ وہ ردا کی بات کا جواب دے رہا تھا مگر اسے خاموش دیکھ ردا نے پوچھا تھا.
نہیں.... کچھ نہیں... یاسر دورانی سے تمہارا کیا رشتہ ہے؟وہ پوچھے بنا نہ رہ سکا.
ردا نے بھی اس طرف دیکھا تھا جہاں کچھ دیر پہلے حمین دیکھ رہا تھا.
بابا کے فرینڈ دورانی صاحب کا بیٹا ہے اور کافی اچھے ٹرمز ہیں وہ دیکھ چکی تھی کہ یاسر اس کی کزن کے پاس کھڑا ہے اسی لیے مزید بولی تھی.
ویسے کافی موڈی اور بگڑا ہوا ہے لیکن تمہاری کزن کو وہ کمپنی دے رہا ہے یہ میرے لیے حیران کن بات ہے اور حمین بنا وقت ضائع کئے گل کے پاس آ کھڑا ہوا تھا.
اس کے آ جانے سے گل کو گھوہنا سکون ملا تھا جیسے تیز دھوپ میں سایہ دار درخت میسر ہو گیا ہو.
ہیلو ڈاکٹر..! میں نے یہ ضرور سوچا تھا کہ آپ سے پھر ملاقات ہوگی مگر اتنی جلدی..؟ اس کا اندازہ نہیں تھا.کیسے ہیں آپ...؟
ایسکیوزمی.....! حمین بنا اس کو کوئی جواب دیے گل کا ہاتھ پکڑے اسے لے گیا تھا.

                       ____________________

وہ لوگ پارٹی سے واپس آ گئے تھے اور واپسی کا سفر بھی خاموشی سے ہی کٹا تھا.
دونوں کے دلوں میں کئی سوالات تھے مگر وہ اپنی طرف سے دونوں خاموش تھے. رات کے دو بج رہے تھے اور انہیں واپس آئے بھی ڈیڑھ گھنٹہ بیت چکا تھا مگر نیند آج گل کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی.
وہ بیڈ پر بیٹھی تھی اور دماغ لاتعداد سوچوں میں الجھا ہوا تھا.
یاسر کے پاس سے لانے کے بعد وہ اسے لیے ردا کے والدین کے پاس آ کھڑا ہوا تھا اور جو بات ردا کی والدہ نے کی تھی وہ اس کا دماغ  گھوما دینے کے لئے کافی تھی اور وہ تمام باتیں اس کے دماغ میں بیٹھ سی گئی تھیں جن کی وجہ سے نیند کوسوں دور تھی.
آج میں بہت پرامید تھی کہ حمین کی مام آئیں گی.
آنٹی وہ ضرور آتیں لیکن ان کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی. گل نے بھی ردا کی ماں کو جواب دیا کہ یہ نہ ہو وہ کہیں برا مان جائیں.
حمین اور ردا  ایک ساتھ بہت اچھے لگ رہے ہیں. ردا کی ماں ان دونوں کو ایک ساتھ کھڑا دیکھتے ہوئے بولی ان کی بات سنے دل بجھ سا گیا تھا مگر جو بات انہوں نے مزید کہی تھی اس سے تو دل بند ہو جانے کے قریب تھا.
دراصل میں چاہ رہی تھی کہ حمین کی والدہ سے ان دونوں کے رشتے کی اب بات کر لینی چاہیے، تمہارے انکل کو حمین بہت اچھے سے جانتے ہیں اور انہیں بھی حمین ردا کے لیے بہت پسند ہے وہ مزید بولے جا رہی تھی مگر گل تو "رشتہ" کے الفاظ پر تھم سی گئی تھی.
جو گل کے لیے الفاظ کم پگھلا ہوا سیسہ زیادہ تھے.
ایک آنسو آنکھوں سے گرے بالوں میں جذب ہوا تھا. یہ بات اپنی جگہ درست تھی کہ گل کو حمین سے کوئی طوفانی محبت نہ تھی. مگر  وہ بھی انہی مشرقی لڑکیوں کی طرح تھی جس کی نظر میں ایک عورت کے لیے اس کا سائبان (مرد) ہی سب کچھ ہوتا ہے.
اور دوسری طرف حمین جو چاہ کر بھی گل سے بدزن نہیں ہو سکا تھا وہ اس کے چہرے پر نامحسوس اثرات نوٹ کر چکا تھا جب یاسر اس سے بات کر رہا تھا.
اسے لوگوں کی نظروں میں نہ آنے کی وجہ سے دور تو کیا تھا مگر کسی کی نظر اس پر پڑتی دیکھ وہ پھر سے اسے اپنے ساتھ لے آیا تھا.

اقرار لازم ہے (مکمل ناول) Where stories live. Discover now