قسط نمبر 8

176 9 0
                                    


تم یاد نہیں کرتے تو ہم گلہ کیوں کریں
خاموشی بھی تو اک ادا ہے محبت نبھانے کی

آج کی رات تو جیسے سب پر بھاری تھی.
کوئی محبت کے روٹھ جانے کے غم میں ڈوبا تھا.
تو کوئی غلط فہمیوں میں ڈوبنے کو تھا.
محبت آسان ہے؟
نہیں... کچھ آسان نہیں ہوتا... تو پھر محبت آسان کیسے ہو سکتی ہے؟
کیا ہر کوئی محبت کر لیتا ہے؟
نہیں... محبت سب کے بس کی تھوڑی ہے... جو سب کر لیں...

آج پہلی بار اس نے سگریٹ کو نہ صرف پکڑا تھا بلکہ اب تک کی وہ تیسری سگریٹ تھی.
وہ ایک قابل ڈاکٹر تھا اور اس کے نقصانات سے بھی خوب اچھے سے واقف تھا مگر دل کا درد کم کرنے کے لئے اس کے خیال میں کوئی اور چیز معاون ثابت نہ ہو سکتی تھی.
سب ایک طرف مگر ایک بات کا دکھ ان تمام پر حاوی ہوگیا تھا کہ وہ تمام باتیں ناہید بھابھی نے اس کے سامنے کہی تھیں... اس نے ایک بھی بات کی نفی نہیں کی تھی کہ وہ ایسا نہیں چاہتی.
یہ سوچ آتے ہی اس کا دماغ پھٹنے کے قریب آ جاتا.... اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ دنیا کو آگ لگا دے.
اس کے دل میں محبت پیدا کرنے والی بھی وہی تھی اسے یاد تھے وہ دن جب وہ میڈیکل کالج کے دنوں میں کس طرح سے اس کا خیال رکھا کرتی تھی.
اگر وہ رات بھر جاگ کر پڑھائی کرتا تھا تو وہ بھی اس کے لیے راتوں کو کافی بنا کر اس کے کمرے میں بھجوایا کرتی تھی. اس کی ہر چیز کو سمیٹ کر رکھتی تھی. اپنا کمرہ صاف نہ کرنے والی گلرخ اس کا کمرہ گندہ نہ ہونے دیتی تھی.
نکاح سے پہلے کس قدر گہری دوستی ہوا کرتی تھی ان میں.... صابرہ بیگم کے لاکھ ڈانٹنے کے باوجود وہ اس سے باتیں کرنا بند نہ کرتی تھی اور نکاح کے بعد سے وہ کھینچی کھینچی رہا کرتی. جسے حمین اسے اس کی شرم و حیا کا نام دیا کرتا تھا.
اگر اس کے گریز کی وجہ ناہید کی کہی گئی باتیں ہوئیں تو اس کے لئے اس کھلے ماحول میں سانس لینا مشکل ہو جائے گا...
دوسری طرف گل نے اپنے تمام دکھ اپنے خدا کی بارگاہ میں رکھ دیے تھے وہ مزید ان تمام حالات کو اکیلے حل نہیں کر سکتی تھی.

'' کون ہے جو بے قرار کی پکار کو سنتا ہے ، جب وہ اسے پکارے اور تکلیف و مصیبت کو دور کردیتا ہے۔ '' ( النمل62)۔

بے سہاروں کا سہارا ﷲ ہی ہے ،جب بے قرار و بے کس اُسے دل سے پکارتا ہے تو وہ ہلاکت و بربادی میں پڑنے سے پہلے اپنے بندہ کو بچالیتا

__________________

اماں آپ یہ کیا کہہ رہی ہیں؟اتنی جلدی رخصتی.... اور ہمیں بچوں سے بھی اس بارے میں پوچھ لینا چاہیے.
سب صبح کا ناشتہ کرنے کے لئے ٹیبل پر موجود تھے جب اماں بی نے حمین اور گل کی رخصتی کی بات کی تھی.
حمین اماں بی کو صبح اپنے فیصلے سے آگاہ کر چکا تھا اور انہیں راضی بھی کر لیا تھا.
یہ فیصلہ میں نے بچوں کی رضامندی سے ہی کیا ہے... انہوں نے ایک نظر حمین پر ڈالی تھی.
رمشا تو فل جوش میں آ گئی تھی، آتی کیوں نہ اس کے اکلوتے بھائی کی شادی تھی اپنی وین کا ہارن سنے وہ ان سب کو اللہ حافظ کہتی باہر کی طرف بڑھ گئی.
ڈیڈ میں نے مشی کیلئے بھی ایک فیصلہ لیا ہے میری شادی والے دن ہی اس کا نکاح ہے اور اس معاملے میں مزید بات ہم رات کو کریں گے...... وہ انہیں حیران چھوڑے اٹھ کھڑا ہوا تھا.
بیگم ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آپ کے بیٹے کے دماغ میں چل کیا رہا ہے؟ صدیقی صاحب ماحول کو نارمل کرنے کے لیے بولے تھے.
اس گھر میں تمام لوگ اپنے فیصلے لینے کے قابل ہو چکے ہیں. میں کیا کہہ سکتی ہوں.. وہ غصے سے کہے وہاں سے واک آوٹ کر گئیں.
صابرہ بیگم کو بالکل اندازہ نہ تھا کہ ان کا بیٹا یوں اچانک ہی رخصتی کی بات نہ صرف کرے گا بلکہ خود سے دن بھی ڈسائیڈ کرلے گا.

اقرار لازم ہے (مکمل ناول) Where stories live. Discover now