قسط نمبر 4

161 8 0
                                    

تم نے ایک بار بھی اپنی اماں بی کے بارے میں نہیں سوچا کہ تمہارے یوں لاپتہ ہونے پر وہ کتنی پریشان ہو جاتی ہے؟ گل صابرہ بیگم کے ساتھ ہی گھر واپس آئی تھی.
حمین نے انہیں ڈرائیور کے ساتھ گھر بھیج دیا تھا اور اب اماں بی کے سامنے اس کی کلاس لگی ہوئی تھی.
اب آپ میرے ساتھ ایسا کریں گی؟ ٹھیک ہے پھر مجھے امی کے پاس ہی چھوڑ آئیں، وہاں کوئی تو ہو گا جو مجھ سے پیار و محبت سے پیش آئے گا. وہ جانتی تھی کہ اماں بی کا غصہ بس اب اسی طرح ہی ٹھیک ہو سکتا ہے اسی لئے ڈرامے لگاتی بولی.
گل تھوڑی توجہ دے، یہ دنیا معصومیت سے نہیں چلتی... اماں بی اب اسے سمجھانے کے انداز میں بولی تھی.
اماں بی! بس کریں نا اب ایسی غلطی دوبارہ کبھی نہیں کروں گی. میری توبہ میرے باپ کی بھی توبہ جو آپ کو بنا بتائے کہیں گی. وہ کان پکڑے معصومیت سے بولی اس معصومیت پر اماں بی نے اسے اپنے ساتھ لگا لیا تھا.

                   _______________________

تشنگی آنکھوں میں اور دریا خیالوں میں رہے
ہم نوا گر، خوش رہے جیسے بھی حالوں میں رہے
دیکھنا اے رہ نوردِ شوق! کوئے یار تک
کچھ نہ کچھ رنگِ حنا پاؤں کے چھالوں میں رہے
ہم سے کیوں مانگے حسابِ جاں کوئی جب عمر بھر
کون ہیں، کیا ہیں، کہاں ہیں؟ ان سوالوں میں رہے
بدظنی ایسی کہ غیروں کی وفا بھی کھوٹ تھی
سوئے ظن ایسا کہ ہم اپنوں کی چالوں میں رہے
ایک دنیا کو میری دیوانگی خوش آ گئی
یار مکتب کی کتابوں کے حوالوں میں رہے
عشق میں دنیا گنوائی ہے نہ جاں دی ہے فراز
پھر بھی ہم اہلِ محبت کی مثالوں میں رہے

"تم ایک نہایت بد دماغ اور بد زبان عورت ہو، یہ بات ہمیشہ یاد رکھنا کہ ایک مرد بدصورت عورت سے محبت کر سکتا ہے مگر بد زبان سے نہیں..." سالوں پہلے کہے گئے قریشی صاحب کے جملے آسیہ بیگم کو آج بھی تکلیف سے دوچار کر جایا کرتے تھے.
یوں ہی کبھی کبھار اکیلے بیٹھے انہیں اپنے پچھلے رویوں پر ندامت ہوا کرتی تھی. اب بھی دو آنسو آنکھوں سے نکلے بالوں میں جذب ہو گئے تھے. اس وقت وہ اپنے کمرے میں موجود بیڈ پر لیٹی اپنے مرحوم شوہر کو یاد کر رہی تھی.
زبان سے نکلے گئے الفاظ کبھی واپس نہیں آتے. اگر الفاظ برے ہوں تو ان کی تلافی کبھی کبھار ناممکن ہو جایا کرتی ہے. اسی لئے کبھی بھی ایسے الفاظ منہ سے نہ نکالیں جس کی وجہ سے آپ کو بعد میں ندامت آ گھیرے.
گل کی زندگی میں ایک خلا باقی رہ گیا تھا جس کی قصوروار آسیہ بیگم اور قریشی صاحب کے روز بروز کے جھگڑے ہوا کرتے تھے.
آسیہ بیگم قریشی صاحب کی زندگی میں بھی اپنی زبان کو فضول بولنے سے روک نا پاتی تھی جس کی وجہ سے جھگڑے طویل ہوتے گئے اور گل کی اپنی ماں سے دوری بھی...
وہ ان جھگڑوں کی وجہ سے ہی اپنی نانی نانا کے پاس رہا کرتی تھی.
قریشی صاحب کے گزر جانے کے بعد آسیہ بیگم نے یہ سیکھا تھا " کہ زندگی آسان نہیں ہوتی اسے آسان بنانا پڑتا ہے کبھی اپنی غلطیوں سے سیکھ کر اور کبھی دوسروں کی غلطیوں کو درگزر کر کے."
مگر کہتے ہیں نہ کہ بندوں کے حقوق تو پھر دنیا میں بھی پیچھا نہیں چھوڑتے.
آسیہ بیگم کو اپنی ٹکر کی ہی بہو ملی تھی مگر اس بار آسیہ بیگم کو صبر کرنا تھا اور انہوں نے کیا تھا مگر شاید بہت دیر ہو گئی تھی. ان کے بچے ان سے کافی دور ہو گئے تھے لیکن ماں تو آخر ماں ہوتی ہے اولاد کے دل میں اس کے لیے بے شمار گنجائش ہوتی ہے.

اقرار لازم ہے (مکمل ناول) Where stories live. Discover now