قسط نمبر 6

145 8 0
                                    

لاؤ مجھے دو میں لے جاتی ہوں. حمین کے کمرے سے نکل جانے کے بعد وہ کچن میں آ گئی تھی جہاں کام والی چائے کے ساتھ ہلکا پھلکا رکھے باہر لے جانے کو تھی.
ٹھیک ہے گل بی بی... اس نے ٹریے گل کو تھما دی.
گل نے وہ ٹریے لے جا کر ٹیبل پر رکھ دی تھی اور ایک کپ صابرہ بیگم کی طرف بڑھایا تھا جو انھوں نے تھام لیا تھا کہ تبھی ردا بولی تھی.
ان سب کی کیا ضرورت ہے بھلا اور ویسے بھی میں چائے نہیں دی پیتی.
اس نے کپ حمین کی طرف نہ بڑھایا تھا کیونکہ وہ جانتی تھی کہ وہ چائے نہیں پیتا.
کچھ اور منگواؤں بیٹا.....؟
نہیں آنٹی....
موم مشی نہیں آئی ابھی..؟
نہیں آج اسے اپنی دوست سے ملنا تھا اور اب اسی کے کہنے پر میں نے ڈرائیور کو اسے پک کرنے کے لیے بھیجا ہے. آتی ہی ہوگی. حمین اپنی ماں کی بات پر سر ہلا گیا.
اب مجھے اجازت دیں.
ابھی کچھ ہی دیر تو ہوئی ہے تمہیں آئے...
آنٹی آپ تو جانتی ہیں ڈاکٹر بنا بات کے چھٹی کرتے اچھے تھوڑی لگتے ہیں؟ اس نے یہ بات حمین کو دیکھ کر کہی تھی.
محترمہ آپ کہنا کیا چاہتی ہیں کہ میں نے چھٹی بنا بات کے کی ہے؟ وہ آنکھیں سکڑیے بولا تھا اور یہ منظر گل نے بھی دیکھا تھا جب وہ دونوں ایسے مسکرائے تھے جیسے وہاں کوئی اور موجود ہی نہ ہو.

سراپا عشق ہوں میں اب بکھر جاؤں تو بہتر ہے
جدھر جاتے ہیں یہ بادل ادھر جاؤں تو بہتر ہے
ٹھہر جاؤں یہ دل کہتا ہے تیرے شہر میں کچھ دن
مگر حالات کہتے ہیں کہ گھر جاؤں تو بہتر ہے
دلوں میں فرق آئیں گے تعلق ٹوٹ جائیں گے
جو دیکھا جو سنا اس سے مکر جاؤں تو بہتر ہے
یہاں ہے کون میرا جو مجھے سمجھے گا فراز
میں کوشش کر کے اب خود ہی سنور جاؤں تو بہتر ہے

چلیں آنٹی اجازت دیں وہ اٹھ کھڑی ہوئی تھی کہ تبھی حمین بولا تھا.
میں بھی چلتا ہوں اب کافی بہتر فیل کر رہا ہوں وہ اپنی ماں سے ملے اک نظر گل پر ڈالے اس کے ساتھ باہر کی طرف بڑھ گیا.
_____________________

امی آپ خود دیکھیں تین سال ہو گئے ہیں گل کے نکاح کو ممانی تو دور اماں بی نے بھی اب تک رخصتی کی بات نہیں کی اسی سے آپ اندازہ لگا لیں.... حمزہ اس وقت اپنی ماں کے کمرے میں موجود ناہید کے ہر روز کے اسرار پر تنگ آئے آج بول اٹھا تھا.
حمزہ ابھی کچھ دیر اور رک جاؤ مجھے یقین ہے گل ان سب کے دلوں میں اپنی جگہ خود بنالے گی.
امی ہم آپ کے یقین یا کسی (اماں بی) کی دی امیدوں پر گل کی زندگی تباہ نہیں کر سکتے اور رہی بات حمین کے سیٹل ہونے کی تو اسے سال ہوچکا ہے اب اپنے پاؤں پر کھڑے ہوئے...

اب تک ان کے دلوں میں جگہ نہیں بن سکی آگے کیا بنے گی...؟ ناہید بھی کمرے میں موجود بولی تھی.
تم لوگ گل کے لئے اتنا کیوں فکرمند ہو رہے ہو اور اتنی پرواہ....؟ آسیہ بیگم اپنی حیرانی ان سے چھپا نہ سکی تھی.
جس بھائی کو پہلے کبھی غرض نا ہوئی تھی کہ اس کی بہن کے لیے کیا فیصلہ لیا گیا ہے اور کیا نہیں اور تو اور ناہید جسے گل ایک آنکھ نہ بھاتی تھی وہ بھی آج اس کے لئے دبلی ہوئی جا رہی تھی.
آسیہ بیگم کی بات سنے حمزہ کو ناہید کی کہی گئی بات یاد آئی تھی.
حمزہ آپ سوچئے تو سہی اس سے نہ صرف آپ بالکل گل بھی خوش رہے گی بلکہ ہماری زندگی میں بھی سکون آجائے گا.
مگر امی، گل اور اماں بی یہ سب راضی نہیں ہوں گے اور یہ اتنا آسان نہیں ہے اور جو تم یاسر کا کہہ رہی ہو کیا وہ راضی ہو گا؟ اگر ہم گل کی شادی اس سے کروا بھی دیں گے تو اسے وہ طلاق یافتہ ہی سمجھے گا اور ویسے بھی تمہارے بھائی کو کون سی لڑکیوں کی کمی ہے.
اب ناہید اسے کیا بتاتی کہ اسے گل کی ہی تو کمی ہے.
اگر آپ کی یہ پریشانی بھی دور ہو جائے..؟
مطلب...
مطلب یہ کہ یاسر سے میں بات کر چکی ہوں وہ راضی ہے. وہ اپنی بہن کی محبت میں سب کچھ کرے گا جیسے اب آپ اپنی بہن کی محبت میں کرنے کا فیصلہ رکھتے ہیں... وہ بڑی ہوشیاری سے حمزہ کا برین واش کر گئی تھی اور اس وین واشنگ کی وجہ سے حمزہ آج اپنی ماں کے سامنے موجود تھا.
امی آپ ایسا کیوں سوچتی ہیں کیا ہمیں گل کی پرواہ نہیں ہے؟ بھائی ہوں میں اس کا...
حمزہ ابھی رک جاؤ کچھ دنوں تک میں اماں بی سے بات کرتی ہوں اس معاملے میں...

اقرار لازم ہے (مکمل ناول) Where stories live. Discover now