قسط نمبر 7

155 9 0
                                    

ہر شے کا آغاز محبت اور انجام محبت ہے
درد کے مارے لوگوں کا بس اک پیغام ، محبت ہے

یہ جو مجھ سے پوچھ رہے ہو، ''من مندر کی دیوی کون؟''
میرے اچھے لوگو سن لو،''اُس کا نام محبت ہے!''

شدت کی لُو ہو یا سرد ہوائیں، اِس کو کیا پروا
کانٹوں کے بستر پر بھی محوِ آرام محبت ہے

آج جو کچھ بھی ہوا وہ بھول جانا چاہتا تھا اسی لیے وہ فریش ہوئے باہر آیا تھا.
جب کام والی نے آکر اسے اطلاع دی تھی کہ آپ کو صابرہ بیگم اماں بی کے کمرے میں یاد کر رہی ہیں.
اس سے پوچھنے پر اسے یہ پتا چلا تھا کہ صدیقی صاحب بھی وہیں موجود ہیں وہ آج ان سب سے رخصتی کی بات کرنا چاہتا تھا اور یہ موقع وہ اب ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا.
جب وہ کمرے میں داخل ہوا تو کمرے کا منظر کچھ یوں تھا اماں بی بیڈ پر موجود تھی جبکہ صدیقی صاحب پاس رکھی کرسی پر بیٹھے تھے اور صابرہ بیگم بھی بیڈ کے کارنر پر موجود تھی.
آپ سب اس قدر خاموش کیوں ہیں؟ کیا ہوا ہے؟ وہ اپنی اماں بی کے ماتھے پر بوسہ دیے اپنے باپ کے ساتھ والی کرسی پر آ بیٹھا تھا.
اور پھر صابرہ بیگم نے اسے آج مشی کی پھوپھو کی حاضری کا بتایا تھا جسے سنے وہ بھڑک اٹھا تھا.
آپ نے انہیں صاف جواب کیوں نہ دیا اگر وہ ہماری مشی کو اپنی بہو بنانا چاہتے تھے تو انہیں اپنے بیٹے کو بھی اس قابل بنانا چاہیے تھا. سب جانتا ہوں میں، ایک نمبر کا عیاش انسان ہے وہ اور ایسے کیسے میں اسے اپنی پڑھی لکھی بہن دے دوں...؟
ہم بھی ایسا نہیں چاہتے اسی لیے ٹھنڈے دماغ سے ہمیں مشی کے لیے کوئی بہترین حل نکالنا ہوگا.
ڈیڈ ان کی جرات کیسے ہوئی گھر تک آنے کی....؟
حمین شانت ہو جاؤ بیٹا ہمیں کچھ ایسا سوچنا ہوگا جس سے ہم اپنی مشی کو اپنے پاس رکھ سکیں. صابرہ بیگم کے بولنے پر وہ اٹھ کھڑا ہوا تھا.
آپ لوگ بے فکر ہو جائیں پتہ نہیں اس کے دماغ میں اس وقت کیا چل رہا تھا وہ ان کو مطمئن ہونے کا کہے خود مشی کے کمرے کی طرف بڑھ گیا.
کیا میں اندر آ سکتا ہوں؟ اس وقت مشی کرسی پر بیٹھی کچھ سوچنے میں مگن تھی اور کتابیں میز پر کھلی رکھی تھیں.
بھائی..... وہ مصنوعی غصے سے بولی تھی اس کی اجازت لینے پر اور چیر سے اٹھ کھڑی ہوئی تھی.
مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے.
جی کہیں..... وہ اس کے پاس آگئی تھی.
جو کچھ ہوا میں جانتا ہوں کہ تم سب جانتی ہو اسی حوالے سے مجھے کچھ بات کرنی ہے. ہم میں سے کوئی بھی اس بے جوڑ رشتے کو جوڑنے کے لئے تیار نہیں اور نہ ہی تمہارا بھائی ایسا کبھی ہونے دے گا اور یہ سب روکنے کے لئے تمہیں میرا ساتھ دینا ہوگا اور میرے کیے گئے فیصلے پر اچھی بہنوں کی طرح سر خم کرنا ہوگا.
اس نے کبھی بھی یہ نہ سوچا تھا کہ وہ لاوارث ہے خدا نے اگر اس سے والدین کی نعمت چینی تھی تو اس سے بڑھ کر عطا بھی کیا تھا. ایک بھائی، ایک خالا جو ماں کی طرح پیار کرنے والی تھی ان سب کے ہونے کا جتنا بھی شکر ادا کرتی کم تھا. خدا نے اسے بے شمار نعمتوں سے نواز دیا تھا.
مجھے آپ کا کہا گیا ہر فیصلہ دل و جان سے قبول ہے وہ اس کے گلے سے آ لگی تھی. اور حمین نے بھی اسے بھائیوں والا مان بخشا تھا.
اب اموشنل مت کریں یہ بتائیں کافی پیں گے؟ وہ اس سے الگ ہوتی ہوبولی.
تم اپنی پڑھائی کرو اور جس کا کام ہے کافی پلانا اسی کو پلانے دو وہ ایک آنکھ بند کرتا مزے سے بولا تھا مگر وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ وہ گھر میں موجود نہیں ہے.
آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ وہ اپنے گھر جا چکی ہیں ان کے بھائی انہیں لینے آئے تھے.
مطلب جب وہ گھر میں داخل ہوا تھا تو وہ بن بات کی اداسی نہیں تھی بلکہ گھر میں موجود ہوا میں اس کی سانسیں شامل نہ تھیں. حمین کو ایک بار پھر سے اداسی نے آ گھیرا تھا.
آپ انہیں آفیشلی اس گھر میں لے آئیں تاکہ آپ کے چہرے پر مسکراہٹ ٹھہری رہے.... آپ کے لیے محبت ان کی آنکھوں میں صاف دیکھتی ہے. یہی دیکھ لیں جب آپ بیمار ہوئے تھے تو محترمہ بن پانی کی مچھلی کی طرح گھر میں بوکھلائے بوکھلائے پھر رہی تھیں مگر ایک بار بھی آپ کے سامنے نہیں گئی. دراصل انہیں آپ سے ڈر لگتا ہے... وہ آخر میں شرارت سے بولی.
اچھا.... کیا میں اتنا ڈراؤنا ہوں؟
نہیں آپ تو بہت ہینڈسم ہیں مگر وہ تو تب جانیں گی جب آپ انہیں بتائیں گے.
فضول میں اپنا دماغ آگے پیچھے مت لگاؤ پڑھائی پر دھیان دو... وہ اسے کمرے میں چھوڑے خود اپنے کمرے میں آگیا تھا.

اقرار لازم ہے (مکمل ناول) Where stories live. Discover now