قسط نمبر 9

162 11 0
                                    

یہ کمرہ اس کے لئے نیا تو نہ تھا... پھر آج کیوں اسے نیا لگ رہا تھا..؟ ایسا لگ رہا تھا جیسے کمرے کے ساتھ ساتھ اس کمرے کا مکین بھی اجنبی ہو.... دل میں پلتے بے شمار خدشات کے باوجود وہ اس کے کمرے میں موجود بیڈ کے عین وسط میں سجی سنوری بیٹھی اسی کے انتظار میں تھی.
وہ اسی کے انتظار میں بیٹھی پرانی یادوں میں کھو سی گئی تھی.
اس کے بابا کے گزر جانے کے بعد کس طرح حمین اس کی دلجوئی کیا کرتا تھا.... وہ احساسات و جذبات بچپن سے ہی حمین کے لئے اس کے دل میں پل رہے تھے جسے وہ سمجھنے سے ہمیشہ قاصر رہی تھی.
حمین کے انتظار میں رات کے دو بج گئے تھے... پہلے تو اس کا دل کیا کہ اٹھے اور چینج کر لے مگر نیند کا غلبہ ایسا ہاوی ہوا کہ وہ وہی تکیے پر سر رکھے سو گئی تھی.
رات یوں ہی اس کے انتظار میں گزر گئی تھی اس نے نہ ہی آنا تھا اور وہ نہ ہی آیا تھا.
ہمیشہ کی طرح اس کی آنکھ صادق کے وقت کھل گئی تھی. اس نے سوچا اماں بی کے پاس چلے جانا چاہیے مگر پھر خود ہی اس بات سے اختلاف کرتی اپنے لیے سادہ سوٹ لیے واش روم کی طرف بڑھ گئی.
اس ذلت سے بڑھ کر بھی کوئی ضلالت ہو سکتی تھی کہ جس شخص کے لئے وہ سجی سنوری اس کی سیج سجائے پوری رات اس کے انتظار میں گزار دی مگر اس نے آنا تک گوارا نہ کیا.
نماز پڑھنے کے انداز میں دوپٹہ اوٹھے، خدا کی بارگاہ میں آ کر کھڑی ہوئی تھی.
اس نے نماز ادا کی اور پھر واپس بیڈ پر لیٹے خوابوں کی دنیا میں جا پہنچی. ایک بار اٹھ جانے کے بعد دوبارہ وہ سویا نہیں کرتی تھی مگر ابھی اسے ذہنی اور روحانی سکون کی اشد ضرورت تھی اور تھکاوٹ بھی پوری طرح سے نہ اتری تھی اسی لیے وہ جلد نیند کی وادیوں میں جا پہنچی.

______________________

برو تمہیں اب گھر جانا چاہیئے.... یار بھابی کو بھی ابھی ساری سچویشن بتانی ہے.... وقار کی آواز پر اس نے بینچ پر بیٹھے جھوکا سر اٹھایا تھا.
رات فنکشن کے بعد آسیہ بیگم کی طبیعت خراب ہوگئی تھی. گل کو تب تک حمین کے کمرے میں پہنچا دیا گیا تھا آسیہ بیگم کو حمین اور صدیقی صاحب بروقت ہسپتال لے آئے تھے. جس کا علم گھر میں موجود سبھی افراد کو تھا سوائے اماں بی اور گل کے...
صابرہ بیگم اور صدیقی صاحب نے رات ہسپتال میں گزاری تھی اور صبح فجر کے وقت وہ گھر چلے گئے تھے مگر حمین اب تک نہیں گیا تھا.
آسیہ بیگم آئی سی یو میں تھی انہیں اب تک ہوش نہیں آیا تھا.
اسے سب سے مشکل کام گل کو فیس کرنا لگ رہا تھا وہ ان تمام حالات میں اسے ایک پل کے لئے بھی نہ بھولا تھا. اس نے سب کو منع کر دیا تھا کہ کوئی بھی گل کو پھوپھو کے بارے میں نہیں بتائے گا.
آسیہ پھوپھو کو ایک بار پھر سے دیکھ لینے کے بعد وہ گھر کی طرف روانہ ہو گیا تھا.
وہ جیسے ہی گھر میں داخل ہوا سب سے پہلے ڈیڈ سے ملا اور اس کے بعد تمام صورتحال سے اماں بی کو آگاہ کیا.
وہ بضد تھی کہ انہیں ابھی ہسپتال لے کر جایا جائے وہ ماں تھی اپنی بیٹی کے لیے تڑپ اٹھی تھیں وہ انہیں لے جانے کی ہامی بھرے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا.
قدم من من بھاری ہو گئے تھے اس نے ہینڈل گھمایا اور اندر داخل ہوا اس کے برعکس کمرے میں مکمل اندھیرا تھا وہ آگے بڑھے اس نے کرٹنز ایک طرف کئے تھے جن سے کمرے میں روشنی پھیل گئی.
اس نے جیسے ہی رخ اس کی طرف کیا نگاہ چھپکنا بھول گیا. چادر اس کے میک اپ سے پاک چہرے پر لپٹی ہوئی تھی اور وہ سوتے میں اسے بہت معصوم لگ رہی تھی، قدم خود بخود اس کی طرف بڑھے اور وہ بیڈ پر اس کے پاس ہی جا بیٹھا.
وہ نہیں جانتا تھا کہ وہ پوری رات کیا کیا اس کے بارے میں سوچتی رہی ہو گی مگر ایک بات تو صاف تھی کہ اس کے دماغ میں رات بھر پلتے خیالات حمین کے حق میں بالکل نہ ہوں گے، مگر وہ پرامید تھا کہ اس کے دل کو اپنی طرف سے جلد صاف کر لے گا.
کتنی خواہش کی تھی اس نے اس کے سجے سنورے روپ کو دیکھنے کی مگر قسمت میں شاید وہ پل لکھے ہی نہ تھے.
رات بھر کی تھکاوٹ اسے دیکھ لینے کے بعد پل بھر میں دور ہوئی تھی.
دل گستاخی کرنے پر آمادہ تھا جائز حق کے ہوتے ہوئے وہ اپنے آپ کو روک نہ سکا تھا، وہ جھکا تھا اور اس کی پیشانی پر اپنے دہکتے لب رکھے تھے.
اسکا لمس پاتے ہی مقابل نے اپنی آنکھیں وا کی تھیں... اس کی آنکھیں کھلتی دیکھ وہ تب تک پیچھے نہ ہوا تھا جب تک خود کو سیراب نہ کر لیا.
وہ اٹھا تھا اور مقابل اسے اپنے قریب دیکھ بنا وقت ضائع کئے اٹھ بیٹھی تھی.
حمین مزید کچھ کیے اور بنا کچھ کہے کبڈ سے اپنے کپڑے لیے واش روم میں کھس گیا.
گل.... وہ تو اب تک اسی پوزیشن میں تھی جس میں وہ ظالم اسے چھوڑ کر گیا تھا. کس قدر خود غرض انسان تھا وہ.... اسے اپنی یوں بے وقتی پر رونا آیا تھا.
پوری رات وہ جس دلیری سے خود کو باور کروا چکی تھی کہ وہ اس شخص کے سامنے ہرگز کمزور نہیں پڑے گی وہ ساری بہادری اس کے یوں قریب آجانے سے جھاگ کی طرح بیٹھ گئی تھی.
وہ اپنی سوچوں میں تھی جب واش روم کا دروازہ کھلنے کی آواز پر اٹھ کھڑی ہوئی.
وہ ڈریسنگ ٹیبل کے قریب کھڑا آئینہ سے اسی کو دیکھ رہا تھا جو ٹھیک ہوئی بیڈ شیٹ کو پھر سے ٹھیک کر رہی تھی.
اگر تم چینج کرنا چاہو تو چینج کر لو کیونکہ کچھ ہی دیر بعد ہمیں ہاسپٹل کے لئے نکلنا ہے وہ کنگی کرتا ہوا بولا.
اس کی بات سنے گل کا دل کیا کہہ دے کہ شادی آپ نے دوسروں کو دکھانے کے لیے کی ہے مگر زبان سے کچھ ادا نہ ہوا.
گل بنا کوئی جواب دیئے تکیہ سیٹ کیے اس کے پاس سے گزر کر باہر جانے کو تھی جب وہ اس کا ارادہ بھانپ چکا تھا اور اس کی کلائی تھامے خود کے قریب کیا تھا.
میں نے کچھ کہا ہے تم سے اور تم بنا کوئی جواب دیے جا رہی ہو.... اس کے اس قدر قریب ہونے سے دل سینے سے باہر نکلنے کو مچل گیا تھا.
میں آپ کی پابند نہیں ہوں.... بڑی مشکل سے اس سے یہ جملہ ادا ہوا تھا.
جو کہ مقابل بھی بخوبی جانتا تھا کہ یہ اس نے کس بہادری کا مظاہرہ کیا ہے.
حمین نے اس کے بازو کو جو کمر سے پکڑے رکھا تھا اسے تھوڑا موڑنے کے انداز میں جھٹکا تھا.
ابھی میں نے سوالات کیے کب ہیں؟ اور جس دن میں نے سوالات کیے اس دن آپ تمام سوالات کے جوابات دینے کی پابند ہیں مسز حمین.... اس قدر مضبوط پکڑ پر گل کی آنکھیں نم ہوئی تھیں مگر شاید پکڑ سے زیادہ خطرناک اس کا لہجہ تھا.
میرے پاس وقت نہیں ہے خاموشی سے چادر لو اور نیچے چلو پھوپھو کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے وہ رات سے ہاسپٹل میں ہیں. وہ یہ کہے اس سے ذرا فاصلے پر ہوا تھا.
کیا ہوا ہے امی کو...؟ اس کے سوال پر اس نے پھر سے اس پر نظر ڈالی تھی جیسے کہہ رہا ہو کہ تمہیں جلد یاد نہیں آ گیا...؟ مزید کچھ بھی کہے چادر لیے وہ اس کے پیچھے ہی کمرے سے نکل گئی.

اقرار لازم ہے (مکمل ناول) Where stories live. Discover now