اے دل ناداں ۔۔شب غم ہے
چاندنی رات ہے مگر شب غم ہے۔۔
محبوب آنکھوں سے دور ہے۔۔فراق یار ہے۔۔
تو شب غم ہے۔۔
محبوب جذبوں سے ناآشنا ہے ۔۔۔
تو شب غم ہے۔۔
خلوتوں میں خیال یار ہے۔۔
تو شب غم ہے۔۔عزہ اقبال
وہ صبحانی ویلا کے ڈرائنگ روم میں بیٹھا فاروق صبحانی کا انتظار کر رہا تھا۔۔۔وہ یہ دہلیز کبھی نہ پار کرتا۔۔ ایسا کرنے کی اس کی ہمت بھی کبھی نہ ہوتی۔۔مگر اولاد کیلئے انسان کیا کچھ نہیں کر گزرتا۔۔یہاں تو پھر بات اس کی بیٹی کی تھی۔۔۔وہ اپنی سوچوں میں ہی تھا جب فاروق صبحانی اندر تشریف لائے۔۔۔
"تم۔۔تم یہاں۔۔تمہاری ہمت کیسے ہوئی یہاں قدم رکھنے کی۔۔" وہ جو چہرے پر مسکراہٹ لئے ڈرائنگ روم میں داخل ہورہے تھے اسے یوں سامنے دیکھ کر فوراً بگڑ گئے۔
"آپ کو اللہ رسول کا واسطہ۔۔ صرف اک بار میری التجا سن لیں۔۔صرف ایک بار۔۔" اس کی آواز میں نہ تو پہلے والی گرج تھی اور نہ ہی پہلے والی سرکشی۔ وہ اس وقت صرف قسمت کا مارا ایک عام انسان دکھائی دے رہا تھا۔وقت اور قسمت دو ایسی چیزیں ہیں جنہیں انسان کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے۔ یہ دونوں چاہیں تو کبھی سہرا میں انسان کو سیراب کردیں نہ چاہیں تو انسان کو سمندر کے کنارے پیاسا مار دیں۔
"تم نے مجھے دو بڑی ہستیوں کا واسطہ دے کر مجھے باندھ دیا ہے۔۔کہو کیوں آئے ہو۔۔" رب العالمین اور رحمت العالمین کی شرم میں انہوں نے غصے کو رخصت کرنا مناسب سمجھا۔
"میں بہت شرمندہ ہوں جو کچھ بھی میں نے برسوں پہلے کیا۔۔" وہ سر جھکائے کہہ رہا تھا۔ کل کا بادشاہ آج کا مظلوم تھا۔
صبحانی صاحب نے اس کی بات بیچ میں ہی ٹوک دی " بس۔۔اس بات کو دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔۔وہ کب کا اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کر کے جاچکی ہے۔۔ اب تمہاری ندامت اس کے کسی کام کی نہیں۔۔ "
ان کا چہرا بے تاثر تھا۔ وہ جتنا کچھ دیکھ چکے تھے اب ان کے جذبات نے بھی چہرے پر اپنے نقش دھرنا چھوڑ دئے تھے۔" جانتا ہوں۔۔ اور یہ بھی کہ اس بات کا احساس بہت دیر سے ہوا کہ اللہ اپنے بندے کے ساتھ کی گئی زیادتی کبھی نہیں بھولتا بس ظالم کی رسی دراز کر دیتا ہے۔۔ آج جب بات خود مجھ پر میری اولاد پر آئ ہے تو سمجھ آئ ہے " اس نے کچھ دیر کا توقف کیا۔۔
" میں آپ سے التجا کرتا ہوں میری بیٹی کی عزت بچا لیں۔۔جو گناہ میرے سے سرزد ہوئے ہیں ان کا خمیازہ بھگتنے سے میری بیٹی کو بچا لیں۔۔ آپ کو سوہنے نبی کا واسطہ اس کی عزت کو داغ دار ہونے سے بچا لیں ۔۔"وہ روتے ہوئے صوفے سے نیچے سرکتا گیا۔
صبحانی صاحب نے آگے بڑھ کر اسے اٹھا کر صوفے پر بیٹھایا۔۔بھلے کتنی ہی نفرت تھی مگر اس شخص نے واسطے بڑی ذاتوں کے دئے تھے۔۔ پھر بیٹیاں تو کلیوں سی معصوم ہوتی ہیں۔۔
" ایک بار پھر تم اپنی مفاد پرستی میں یہاں چلے آئے ہو.. ورنہ احساس تو تمہیں ابھی بھی نہیں ہوا کہ تم نے غلط کیا تھا.. اگر احساس ہوا ہوتا تو تم اسے سچائی بتا چکے ہوتے..."
وہ تاسف سے اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگے..
YOU ARE READING
شبِ غم گزار آئے Shab E Gham Guzar aye
Fantasyنفرت کی راہ میں ڈگمگاتے ہوئے قدموں کی محبت کے دیس میں حاضری کی عکس بندی کرنے کی کوشش کی گئی ہے.. بار بار دھتکارے جانے پر بھی اک ہی در پر خود کو کھڑا پانے کی اک داستان.. مشکلات میں ہاتھ جھٹک جانے والوں کے لوٹنے کی داستان.. میر زرار علی کے دکھ سے ابیر...