نامکمل داستان قسط 2

63 6 10
                                    

؂ اگر سب  کچھ  مل جائے گا زندگی میں  تو تمنا کس کی ہوگی
       کچھ  ادھوری خواہشیں ہی تو زندگی جینے کا مزہ دیتی ہیں

_________________________________________

" بچااااااااوووووووو"

ایک جھٹکے سے وہ اٹھ بیٹھا اور لیمپ جلایا۔ مدہم روشنی میں بھی اس کے چہرے کا پسینہ صاف دکھائ دے رہا تھا۔ وہ خوش شکل سفید رنگت والا نوجوان لگ بھگ 23 سال کا تھا اور سر پر کسی پرانے زخم کا نشان تھا۔
اس نے وقت دیکھا تو رات کے 2:45 بج رہے تھے۔ وہ بستر سے تہجد ادا کرنے کی غرض سے اٹھا اور وضو کرنے چلا گیا-

"بےشک خدا کی یاد میں دلوں کو سکون ملتا ہے۔"

تہجد ادا کر کے اس نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تو دو موتی اس کی آنکھوں سے چھلک پڑے۔ 😢

" یا خدایا! مجھے اس اذیت سے نکال دیں۔ پچھلے کئ سالوں سے یہ خواب تقریبا ہر رات دکھائ دیتا ہے۔ شروع میں امی سے پوچھتا تو وہ زار و قطار رونے لگ جاتی تھیں اور بابا سے پوچھنے پر ان کی انکھوں میں کرب کے سوا کچھ نظر نہ آتا لیکن جواب کبھی نہ ملا۔ میں جانتا ہوں یہ خواب میرے بچپن سے جڑا ہے لیکن کوشش کے باوجود کچھ یاد نہیں آتا۔ میرے مالک مجھے اس تکلیف سے نجات دے دیں۔ مجھے میرا ماضی یاد دلا دیں تاکہ میں اس تکلیف سے چھٹکارا پا سکوں۔"

لیکن شاید اسے معلوم نہیں تھا کہ  لاعلمی تو ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ آگاہی اکثر انسان کو زندہ درگور کر دیتی ہے۔ انسان سب کچھ پاکر بھی بہت کچھ کھو دیتا ہے۔

دل سے جو دعا نکلتی ہے اثر رکھتی ہے۔۔۔

دعا مانگتے ہی وہ پرسکون ہوگیا جیسے اس کی دعا  سن لی گئ ہو اور شاید اس کی دعا عرش تک پہنچ بھی گئ تھی لیکن اس نوجوان کو اندازہ نہیں تھا کہ یہ دعا اتنی جلدی پوری ہونے والی تھی۔
_________________________________________

"ادی۔۔۔۔ادی۔۔۔۔ ادی اٹھ جاو۔ پچھلے آدھے گھنٹے میں ناجانے کتنی بار الارم بج کے بند ہو چکا ہے لیکن ماہرانی کو فیروزہ کے خوابوں سے فرصت ہو تو کچھ پتا چلے۔"

اور پھر ان خاتون کی نظر سونے والی کے انداز پر پڑی تو مزید بھڑک اٹھیں۔

"اور یہ دیکھو ذرا سلیقہ نہیں ہے سونے ہے۔ دیکھو کیسے لیٹی ہوئ ہے۔ تمھاری عمر کی لڑکیوں نے پورے پورے گھر سنبھالے ہوئے ہیں اور تم۔۔۔ تھوڑا سا بھی سلیقہ نہیں ہے۔ افففف کیا کروں میں اس لڑکی کا۔"

سعدیہ بیگم صبح 7 بجے اپنی اکلوتی دختر کو اٹھانے آئ تھیں جو گھوڑے بیچ کر سو رہی تھی۔ ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ جوتا اتار کے اسے دے ماریں۔

" امی یار سونے دیں ، بہت نیند آرہی ہے۔"

"نہیں تو کون کہتا ہے آدھی آدھی رات تک موبائل کو فضول میں استعمال کرو اور پتا ہے نہ یونیورسٹی کا پہلا دن ہے۔"

نامکمل داستانNơi câu chuyện tồn tại. Hãy khám phá bây giờ