نامکمل داستان قسط 4

31 3 4
                                    

؂ کسی     نے     توڑا    کسی    نے    جوڑا
      یاد     آیا     تو    پھوٹ    پھوٹ   رویا
     بچپن  کی  یادیں  دل  سے  نہ  نکا  پایا
    معصومیت جو لٹی تو سمجھا کیا کھویا
(از علینہ حسن)
_________________________________________

"پریشان کیوں ہو رہے ہیں؟ وہ ٹھیک ہوگا۔ اب بڑا ہوگیا ہے ہمارا سعدی۔"

فاطمہ بیگم نے اپنے مجازی خدا سے کہا۔ سعدی کے گھر سے نکلنے کے بعد انور صاحب کافی پریشان نظر آ رہے تھے۔ فاطمہ بیگم گھر کے کام کر کے آئیں تھیں اور اب انھیں سمجھا رہی تھیں۔

"کیا آپ کو ڈر نہیں لگتا بیگم کہ ہمارے بیٹے کہ ساتھ کہیں دوبارہ۔۔۔۔۔"

وہ بات مکمل نہ کر سکے۔ ڈر تو فاطمہ بیگم کو بھی تھا لیکن اس سے زیادہ انھیں خدا کی ذات پر بھروسہ تھا۔ وہ جانتی تھیں کہ خدا کی لاٹھی بےآواز ہوتی ہے اور جب گونجے تو کوئ بھی اس سے بچ نہیں سکتا۔

"وہ میرا بیٹا ہے۔ میرے جگر کا ٹکڑا ہے۔ میری مامتا بھی تڑپتی ہے لیکن مجھے اس ذات پر پورا بھروسہ ہے جس نے کبھی ناانصافی نہیں کی۔"

"مجھے خدا پر سب سے زیادہ بھروسہ ہے لیکن دھڑکا لگا رہتا ہے کیونکہ ایک بار وہ سیاہ رات دیکھ چکا ہوں دوبارہ نہیں دیکھنا چاہتا۔"

انور صاحب ایک بار پھر خاموش ہو گئے تھے اور فاطمہ بیگم کو خطرے کی بو آنے لگی تھی۔ وہ بولیں کچھ نہیں بس ان کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا تو انور صاحب نے اپنی پریشانی کی اصل وجہ بتائ۔

"بات دراصل یہ ہے کہ اس شخص کی بیٹی بھی اسی یونیورسٹی میں گئ ہے۔"

جہاں فاطمہ بیگم کے دل کی ایک بیٹ مس ہوئ تھی وہیں باہر بادل بھی زور سے گرجا تھا۔ شاید اسنے بھی ماحول کی سنجیدگی ناپ لی تھی اور ویسے بھی وہ تو گواہ بھی رہ چکا تھا اس ایک واقعے کا۔

"کک۔۔۔ کک۔۔۔۔ کیا کہہ رہے ہیں آپ؟ نن۔۔۔ نہیں آیسا نہیں ہو۔۔۔۔ ہو سکتا"

فاطمہ بیگم پر تو مانو بجلی گر گئ تھی۔ خبر ہی ایسی تھی۔ کوئ بھی ماں تڑپ جاتی۔

؂اولاد  کو  خطرے میں  دیکھ  تڑپ  گئ    مامتا
      بچے  کو  کیسے بچانا ہے  باپ بھی نہ جان پایا
(از علینہ حسن)

"بیگم مت بھولو کہ ہم نے جھوٹ بولا تھا ان سے۔ اور جھوٹ کب تک چھپے گا۔ میں اس واقعے کے بعد سے ان کے بارے میں خبر رکھے ہوئے تھا لیکن اس بارے میں علم کل رات میں ہوا ورنہ کبھی سعدی کو کبھی اس یونیورسٹی میں نہ بھیجتا۔"

"مجھے لگتا ہے ہمیں سعدی کو سب بتا دینا چاہیے یہ نہ ہو اسے کسی اور کے ذریعے معلوم ہو۔"

"نہیں بیگم وہ ٹوٹ جائے گا، بکھر جائے گا۔ اس کی تعلیم مکمل ہو جائے پھر بتا دوں گا۔ تب تک اسے کچھ نہ پتا چلے۔"

لیکن قسمت کو تو کچھ اور ہی منظور تھا۔

باہر کھڑا سعدی دعا کرتا رہا کہ اس کے امی ابو اس واقعے کے بارے میں بات کریں تاکہ اسے سچائ معلوم ہوجائے۔ جب کافی دیر بعد بھی اس کے بارے میں بات نہ کی گئ تو وہ گھر داخل ہوگیا اور بآواز بلند سلام کیا۔
اپنے جلد آنے کی وجہ طبیعت کی ناسازی بتا کر کمرے میں چل دیا۔ لیکن در حقیقت وہ بھی اس لڑکی کو بھول نہ پایا تھا۔ اسے وہ لڑکی اچھی لگی تھی لیکن اس وقت ماضی کے جھٹکے نے اسے تلخ بنا دیا تھا جس پر وہ اب افسوس کر رہا تھا۔

نامکمل داستانWhere stories live. Discover now