نامکمل داستان قسط 8

20 4 1
                                    

؂امیر  تھا   امیری   دکھائ
     جو کیا تھا زمین ہل گئ

مقافات عمل یاد نہ رہا
خدا کو یاد تھا پھر ملی نہ رہائ

_________________________________________

سعدی ایک ہفتے کے اندر اندر بالکل ٹھیک ہو چکا تھا۔ اور اس ایک ہفتے بعد ایک خوفناک رات آئ تھی جس نے سب کچھ بدل کے رکھ دیا تھا۔
ہفتے کی رات تھی اور گھڑی 8 بجا رہی تھی جب 7 سالہ سعدی ضد کر کے قریبی مارکیٹ سے اپنے لئے کھانے کی اشیاء لینے گیا تھا جن میں لیز، چاکلیٹ اور جوس آتے تھے۔

یہ خاندان اس بات سے انجان تھا کہ کوئ ان سب پر نظر کچھ وقت سے رکھے ہوئے تھا۔

سعدی اپنی مستیوں میں مارکیٹ جا رہا تھا جب اسے احساس ہوا کہ کوئ گاڑی اس کا پیچھا کر رہی ہے۔ وہ چھوٹا ضرور تھا لیکن اس کی چھٹی حس ہمیشہ سے تیز رہی ہے۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو اس کا اندازہ سہی ثابت ہوا۔ وہ ڈر گیا اور اس نے بھاگنا شروع کر دیا تھا۔ آج سڑک پر بھی کوئ اور نہ تھا۔
_________________________________________

رات کا وقت تھا اور ایک 7 سالہ بچہ پھولی ہوئ سانس کے ساتھ سنسان سڑک پر بھاگ رہا تھا۔ اس کے دل کی دھڑکن ایسے تھی کہ دل باہر آنے کو ہو۔ ہر سیکنڈ بعد وہ مڑ کر اپنا پیچھا کرنے والی گاڑی کو دیکھتا۔ بھاگتے بھاگتے اسے ایک پتھر سے ٹھوکر لگی تو وہ زمین بوس ہوگیا۔ اتنے میں وہ گاڑی بہت نزدیک آگئ تھی اور اندر بیٹھے والوں کا مقروح قہقہہ گونجا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

" بچااااااااوووووووو"

یہی منظر تھا جس کا خواب وہ ہر رات دیکھ کر ڈر جاتا تھا کیونکہ اس کے آگے اس کے ساتھ کیا ہوا تھا اسے کچھ یاد نہ تھا۔
_________________________________________

گاڑی میں دو مرد تھے اور ان میں سے ایک نے اتر کر اسے بےہوش کیا اور اسے گاڑی میں ڈال کر چل دیے تھے۔
دوسری طرف سعدی کو جب گئے ہوئے کافی وقت ہو گیا تو انور صاحب اسے دیکھنے نکلے لیکن وہ کہیں نہ ملا۔ دکان دار سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ سعدی تو یہاں آیا ہی نہیں۔

اب انور صاحب اور فاطمہ بیگم کو خطرے کی بو آنے لگی تھی۔ کچھ تھا جو ٹھیک نہیں تھا۔ لیکن ان کی دشمنی تو کسی سے بھی نہ تھی پھر آخر کون۔۔۔۔ کون ایسا کر سکتا تھا؟

انھوں نے پولیس میں کمپلین لکھوانا چاہی لیکن گمشدگی کے 24 گھنٹے ہونے سے پہلے پولیس نے کوئ بھی ایکشن لینے سے منع کردیا تھا لیکن سوال تو یہ تھا کہ اگر کسی معصوم کو اس دوران قتل کر جائے تو مجرم کون ہوگا؟ اگر کسی کی زندگی برباد کردی جائے تو گناہگار کون ہوگا؟  بربادی کے بعد ایکشن لینے کا کیا فائدہ؟
_________________________________________

اندھیرے کمرے میں اس کی آدھی رات کو اس کی آنکھ کھلی تھی اور ڈر کے مارے چینخ نکلی تھی۔ ظالموں تک آواز گئ تو وہ اندر آئے تھے اور اپنے قہقہہ بلند کئے تھے۔ سعدی کو وحشت ہونے لگی تھی۔ وہ معصوم بچہ ابھی سے زندگی کے ظلم سہہ رہا تھا۔ اس کے بعد جو ہوا وہ دہلا دینے والا حادثہ تھا۔ کون کہتا ہے گھروں کی دیواریں بےجان ہوتی ہیں۔ اس سانحے پر تو وہ بھی کانپ اٹھی تھیں۔ ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ ان ظالموں پر گر کر انھیں زمین بوس کردیں۔

نامکمل داستانDove le storie prendono vita. Scoprilo ora