اگلی صبح ساکن تھی۔ آنے والے واقعات کا جیسے بےصبری سے انتظار کر رہی ہو۔ آسمان پر گہرے کالے بادل تو موجود تھے پھر بھی سمجھ ہی نہیں آرہی تھی کہ وہ برسنا چاہتے بھی ہیں یا نہیں۔
اپنے نفیس کمرے میں کھڑا وہ تیاری کر رہا تھا۔ جو عام حالات میں بھی دلکش لگے اس کا تیار ہونا تو قہر ڈھا دیتا ہے۔ آج وہ پر اعتماد تھا اور اتنے عرصے بعد اس کا چہرا مسکراہٹ سے سجنا شروع ہوگیا تھا۔
صحیح کہتے ہیں محبت سب کچھ بھلا دیتی ہے۔ جہاں ایک طرف سعدی کو ہر رات آنے والے خواب بند ہوگئے تھے وہیں وہ یہ بات بھول گیا تھا کہ ادعیہ کو پہلی بار دیکھ کر اس کے ذہن میں دھندلی ہی سہی ماضی کی جھلک ضرور آئ تھی۔
محبت میں بھلا ڈالا سب کچھ ہی
اپنے آپ کو برباد کر ڈالا تب ہی
(از علینہ حسن)آج وسیم سعدی کو صبح لینے آیا تھا تاکہ اس کا حوصلہ بڑھا سکے۔ ان کے گھر سے نکلتے ہی تیز ہوا چل پڑی تھی اور پودے یوں جھوم رہے تھے مانو اس پیارے سے نوجوان کی بلائیں لے رہے ہوں۔
_________________________________________یونیورسٹی پہنچ کر چاروں یعنی سعدی، وسیم، ارشیہ اور ادعیہ نے کوئ کلاس نہ لی۔ بلکہ مشن امپریس (mission impress) کھولا ہوا تھا۔ ادعیہ سعدی کو ہدایات جاری کری جا رہی تھی جس کو وہ خاموشی سے سن رہا تھا لیکن ارشیہ اور وسیم مشکل سے اپنی ہنسی کو قابو میں رکھے ہوئے۔ ایک گھنٹے بعد ارشیہ اور وسیم کے اندر کا بےچینی والا کیڑا ناچنے لگا تھا تو دونوں نے ایک دوسرے کو اشارہ کیا اور اکٹھے اپنی بےسری آواز میں گانے لگ گئے۔
"میں ہوں جورو کا غلام
اووووو اووووو
میں ہوں جورو کا غلام
ہاں ہاں شادی سے پہلی ہی
میں ہوں جورو کا غلام🤣🤣"اور دونوں ہنسنہ شروع ہو گئے۔ یہ گانا دونوں نے ایک دن پہلے بنایا تھا جب وہ ادعیہ اور سعدی کو بات کرنے کے لئے اکیلا چھوڑ گئے تھے۔
سعدی اور ادعیہ نے اپنے اپنے دوستوں کو گھورا تو بمشکل انھوں نے اپنا قہقہہ روکا اور سعدی کو جہاد (ارشیہ اور وسیم کے بقول) پر بھیج دیا۔ دونوں کا کہنا یہ تھا کہ کسی بھی لڑکی کے والد صاحب کو متاثر کرنا نہایت مشکل کام ہے۔
_________________________________________ٹیکسی سے اتر کر اس نے عالی شان عمارت کو دیکھا لیکن احساس کمتری کا شکار نہیں ہوا کیونکہ جتنا شکرگزار وہ اپنے رب کا تھا شاید ہی کوئ اور ہو۔ لیکن اسے گھبراہٹ ضرور ہوئ کہ کیسے ملے گا وہ ادعیہ کے والد سے؟ اگر وہ انھیں نہ پسند آیا تو؟ اگر انور صاحب نے اپنی امارت کی وجہ سے رشتہ ختم کردیا پھر؟
سعدی نے سر جھٹک کر سورتیں پڑھیں اور اللہ سے دعا کرتا اندر داخل ہو گیا۔ اند کا ماحول اے-سی چلنے کے باعث ٹھنڈا تھا۔ اندر داخل ہوتے ہی سعدی کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی دوڑی تھی۔ اسے ماحول کے ساتھ ساتھ لوگ بھی سرد لگے تھے۔ اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ سوچ پاتا شیراز صاحب اس کے پاس آئے۔
CZYTASZ
نامکمل داستان
Literatura Faktuیہ کہانی موجودہ دور کے سب سے بڑے مسئلے پر جس کا حل ہونا بےحد ضروری ہے۔ آج کے دور میں لڑکا اور لڑکی دونوں ہی محفوظ نہیں ہیں لیکن مقافات عمل اٹل ہے۔ 😊