نامکمل داستان قسط 9 (last ep)

32 2 8
                                    


؂ماضی کی یاد نے برباد کر ڈالا تھا
     جو  تھا  سب  ختم  کر   ڈالا  تھا

ماضی کے حادثے کا دکھ زیادہ تھا
یا  پہلی  محبت   کھونے   کا   تھا

وہ    یہ     سمجھ   نہ   پایا   تھا
خدا نے کس آزمائش میں ڈالا تھا
_________________________________________

                                          (حال )

"وہ دن اور آج کا دن ہے تمھیں سایے کی طرح رکھا ہے ہم نے۔ ہمیشہ پاس اور ان لوگوں پر بھی نظر رکھی۔"

یہ کہتے ہوئے انور صاحب نے بات کا اختتام کیا اور وہاں موجود ہر ایک کی آنکھ اشکبار تھی۔ نہ جانے کتنے سوالات سے دل بھر گیا تھا لیکن سمجھ نہیں آرہا تھا کہ سوال کس سے کیا جائے؟ کون دے گا ان سب کا جواب۔۔۔۔ یہ کہانی سن کر آس پاس کی سب اشیاء مانو حل کر رہ گئیں تھیں۔ آسمان پر بادل زور سے گرجا تھا اور اس کے بعد گہری خاموشی جیسے موت کا سا سما ہو۔

سعدی ٹوٹ گیا تھا لیکن کسی پر ثابت نہیں ہونے دینا چاہتا تھا۔ وہ کڑیاں ملا رہا تھا اور جو نتیجہ اس کا دماغ بنا رہا تھا اس پر یقین کرنا نہیں چاہتا تھا۔ بالا آخر 5 منٹ بعد اس نے خاموشی کو ختم کیا تھا۔۔۔۔

"کک۔۔۔۔ کون تھا یہ سب کرنے والا۔"

"گرمانی آفس کا سربراہ آصف گرمانی اور اس کا چیلا شیراز۔"

اور سعدی کا دل بری طرح ٹوٹا تھا جیسے کسی نے پیر کے نیچے کچل ڈالا ہو۔ یہاں جھٹکا وسیم کو بھی لگا تھا اور اپنے دوست سے ہمدردی بھی تھی۔۔۔ یہی تو دوستی تھی وہ اس مشکل وقت میں سعدی کا ساتھ دے رہا تھا۔

سعدی کے لئے مزید ضبط کرنا مشکل ہوگیا تھا۔ ایک دن میں دو جھٹکوں نے اس کی روح کو چھلنی کردیا تھا۔ وہ بھاگتا ہوا کمرے کی جانب گیا اور وسیم بھی اس کے پیچھے لپکا تھا۔
_________________________________________

دوسری جانب ادعیہ اپنے کمرے میں بند آنسو بہا رہی تھی اور ارشیہ کو کچھ نہیں بتایا اس نے۔ ارشیہ نے بےتحاشہ کالز کیں لیکن ادعیہ نے ایک بھی نہ اٹھائ۔ جو بات اس کے بابا نے بتائ تھی وہ اسے توڑ گئ تھی۔۔۔

دراصل اس دن موسلادھار بارش ہو رہی تھی اور آصف صاحب آفس میں ہی ٹھہر گئ تھی۔ بارش کی وجہ سے سگنل کا شدید مسئلہ ہو رہا۔ اس لئے ادعیہ کی کال بھی نہیں لگ رہی تھی۔ اس کا رابتہ کسی سے نہیں ہو پارہا تھا اور ساری رات وہ دعا کرتی رہی کہ سب کچھ اچھا ہی ہوا ہو۔ وہ لڑکی جو نماز کی پابند نہیں تھی وہ اسے آج محبت نے تحجد ادا کروائ تھی اور ساتھ ہی ساری نمازیں ادا کرائیں۔ عشق مجازی اسے عشق حقیقی سے متعارف کرا رہی تھی۔

اس کے ابو صبح فجر کے وقت آئے تو ادعیہ نے سوالیہ نشان سے انھیں دیکھا۔ اس کے ابو کافی غمگین دکھائ دے رہے تھے۔ اس کے ابو نے ہچکچاتے ہوئے بتایا کہ سعدی نے خود اعتراف کیا ہے کہ وہ شادی پیسے کے لئے کرنا چاہتا۔ اسے تمھاری صورت میں سونے کی مرغی ملی تھی بچہ۔۔۔۔۔۔

نامکمل داستانDonde viven las historias. Descúbrelo ahora