نامکمل داستان قسط 3

41 5 12
                                    

؂کوئ      کیا      جانے
     جس کا غم وہی جانے
@adeeb_writes
_________________________________________

؂اور   بہتر   تو    یہ    تھا
     ہم کبھی ملے ہی نہ ہوتے

_________________________________________

اس لڑکی کو دیکھ کر سعدی کو جھٹکا لگا تھا اور وہ چکرا کر رہ گیا تھا۔ سعدی کی غیر ہوتی حالت وسیم دیکھ چکا تھا۔ اس لئے اس کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ کر سہارہ دیا۔

"تم ٹھیک تو ہو؟"

وسیم کے پریشانی سے پوچھنے پر سعدی نے محظ سر کے اشارے سے اپنے ٹھیک ہونے کا بتایا۔

"اللہ جی! تم ایک لڑکی کو دیکھ کے بیمار ہی ہو گئے۔ 😂😂😂😂😂😂😂😂😂۔ لوگ دیوانے ہوتے ہیں اور تم۔۔۔۔"

ادعیہ یہ کہتے ہی ان کے بینچ پر بیٹھ گئ اور ارشیہ نے ،جو سب کچھ ہکا بکا ہوکر دیکھ رہی تھی، اسے گھوری سے نوازا۔

"ادعی یہ کیا بدتمیزی ہے اٹھو اور چلو یہاں سے"

لیکن وہ ادعی ہی کیا جو کسی کی سن لیتی۔ ارشیہ کی بات ان سنی کر کے وہ ان دونوں دوستوں کی طرف متوجہ ہوئ۔

"ویسے آپ لوگ بھی بیٹھ جائیں۔ ہم کونسا آپ کو کھانے والے ہاہاہاہا 😂😂 اور ہیرو! تمھاری چھٹی حس ہے بہت تیز۔ ماننا پڑے گا۔ معلوم ہو ہی گیا کہ کلاس میں کوئ دیکھ رہا تھا تمھیں اور۔۔۔۔۔"

اس سے پہلے کہ ادعیہ مزید کچھ کہتی، سعدی دھاڑا تھا اور اس کا لہجہ ادعیہ کو سہما گیا تھا۔

"بسسسسسس!!!! میڈم آپ جو کوئ بھی ہیں اپنے کام سے کام رکھیں۔ یہ خوامخواہ کی بےتکلفی مجھے پسند نہیں ہے۔ امیر باپ کی بگڑی بیٹی ہی لگ رہی ہیں جو اس طرح کی گھٹیا حرکتیں کر رہی ہیں۔"

قبل اس کے کہ سعدی کچھ اور سناتا، وسیم اسے کھینچتا ہوا وہاں سے لے گیا۔ لیکن جاتے جاتے بھی سعدی بہت کچھ بول گیا تھا اور ادعیہ کا رنگ اڑ چکا تھا۔
_________________________________________

آصف صاحب پریشانی اور غصہ کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ ڈرایئنگ روم میں چکر کاٹ رہے تھے کیونکہ ان سے ملنے آنے والے نے جو خبر سنائ تھی وہ ان کا سکون برباد کرنے کے لئے کافی تھی۔

"لیکن شیراز وہ تو مر چکا تھا اور تم اتنے یقین کے ساتھ کیسے کہہ سکتے ہو۔"

"سر وہ بالکل اپنے باپ کی طرح دکھتا ہے اور یہ شکلیں ملنا محظ ایک اتفاق نہیں ہو سکتا۔ اور ویسے بھی ہم نے اس کی لاش نہیں دیکھی تھی۔ اس کے باپ نے بتایا اور ہم مان بھی گئے۔"

آصف صاحب نے میز پر پڑا گلدان زور سے زمین پر پٹخا اور وہ کرچی کرچی ہوگیا تھا۔ باہر سورج بھی سوا نیزے پر تھے۔ اس نے بھی توچاند کے پیچھے چھپ کے سب کچھ دیکھا تھا۔ اپنا غصہ کیسے کم کر سکتا تھا کیونکہ قدرت ناانصافی برداشت نہیں کرتی۔
_________________________________________

نامکمل داستانWhere stories live. Discover now