تم صرف میری ہو قسط نمبر:06

435 23 1
                                    

ناول: تم صرف میری ہو...
مصنف: زارون علی
قسط نمبر: 06

”کہاں تھے تم۔۔۔۔؟“حارث جو کب سے حاشر کو کال کر رہا تھا مگر وہ ریسیو کرنے کی بجائے بار بار کاٹ رہا تھا اور اب آدھے گھنٹے بعد وہ انگلی میں چابی گھوماتے گھر کے اندر داخل ہوا۔۔۔۔
”مطلب کہاں تھا میں نے بتایا تو تھا کہ با ئیک خراب ہے میری ۔۔۔“ حاشر نے حارث کی بات سنتے لاپروئی سے بتایا۔۔۔
”بائیک خراب تھی یا نئی بناوا رہے تھے جو اتنا ٹائم لگا اور جب میں نے تم سے کہا تھا کہ نور العین کو وقت پر یونیورسٹی سے پک کر لینا تو کیوں نہیں کیا تمہیں پتا ہے آج تمہاری وجہ سے اُس کی کتنی طبیعت خراب ہوئی ہے بے ہوش ہو گئی تھی وہ پریشانی سے۔۔۔۔“ حارث نے سختی سے مگر اپنی آواز آہستہ رکھتے ہوئے حاشر کو اُس کی غلطی کا احساس دلانے کی کوشش کی ۔۔۔
”بے ہوش کیسے ہو گئی کیا ہوا تھا اور ایک تو اس کی پریشانیاں اور ڈر توبہ ہے انسان خود کچھ ہمت کر لیتا ہے اور میں اس کے موبائل پر کال کر رہا تھا پر وہ بند تھا تب ہی میں نے تمہارے نمبر پہ کال کر کہ بتایا۔۔۔“ حاشر نے شرمندہ ہونے کی بجائے احسان جتانے والے انداز میں کہا تو حارث کو مزید غصہ آیا جو وہ فریحہ بیگم اور سارہ کو آتا دیکھ ضبط کر گیا۔۔۔۔۔
”یہ تم دونوں کیا کھچڑی پکارہے تھے اور میرے آتے ہی چپ کیوں ہو گئے“فریحہ بیگم نے اُن دونوں کو مشکوک انداز میں دیکھتے پوچھا تو حارث نے حاشر کو چپ رہنے کا اشارہ کیا۔۔۔
”وہ پھو پھو ہم سوچ رہے تھے کیوں نہ آپ کو اب تمام کاموں سے آزادی دے دی جائے،میرا مطلب ہے آپ ایسا کریں حارث اور نور العین کہ ساتھ ساتھ میرے بھی ہاتھ پیلے کر دیں ایک ساتھ دو دو بہوؤ آئیں گئی تو سوچیں آپ کو کتنا فائدہ ہو گا ویسے بھی اس سارہ کو تو کچھ آتا نہیں ہو سکتا ہے میرے والی ہی کام کی نکل آئے۔۔۔“ حاشر نے اُن کا دھیان بٹانے کے لیے بات کا رخ بدلا تو سارہ نے اپنی تعریف پر اُسے گھورتے ہوئے کمرے کا رخ کیا اور فریحہ بیگم حاشر کی بات پر اُسے ایک چیت رسید کرتے سارہ کی خوبیاں گنوانے لگیں۔۔۔۔۔
اگلا ایک ہفتہ نور فریحہ بیگم کے کہنے پر یونیورسٹی نہیں گئی  اور آج حارث کی ڈانٹ پر وہ یونی آئی تو اُسکی نظریں بس سب کی آنکھوں پہ ٹکی تھیں وہ ہر چہرے میں اُس شخص کا چہرہ تلاش کر رہی تھی جس نے اُسے ایک ہفتے سے پریشان کیا ہوا تھا۔۔۔ ڈیپارٹمنٹ میں داخل ہوتے ہی اُسے گھبراہٹ ہونے لگی کہ کوئی اُسے پہچان نہ لے یا اُس دن کہ واقعے کا ذکر کرتے اُس سے کوئی سوال نہ پوچھ لے اسی لیے وہ سرجھکائے جلدی سے اپنی کلاس کی جانب بڑھی پر اُس سے پہلے ہی میم فاطمہ نے اُسے آواز دی جس پر اُس کے قدموں کے ساتھ ساتھ دل بھی تھم سا گیا اُسے یقین ہو گیا تھا کہ وہ ضرور اُس دن کے متعلق اُس سے کچھ پوچھیں گئیں۔۔۔
”جی میم۔۔۔۔۔“ اُس نے حوصلہ کرتے رخ موڑا۔۔۔۔
”نور آپ کا فارم ابھی تک جمع نہیں ہوا اور آج لاسٹ ڈیٹ ہے اس لیے آج ہر حال میں مجھے سبمیٹ کروا کہ جائیے گا۔۔۔۔“ اپنی بات کہتے وہ آگے بڑھ گئیں تو نور نے اپنی رکی ہوئی سانس بحال کی ۔۔۔۔
”اللہ پلیز میری مدد کریں ،مجھے اس مصبیت سے نکال دیں ۔۔۔“ دل میں دعا کرتے اُس نے کلاس میں قدم رکھا اور اُس دن کا تمام منظر ایک بار پھر سے اُسکی نظروں کے سامنے گھوم گیا۔۔۔اپنی چیئرسنبھالتے اُس نے اپنی آنکھوں کو بھی آنسو بہانے سے روکا اور موبائل نکالتے بلاوجہ ہی اُس میں چیزیں دیکھنے لگی تب ہی ایک لڑکی جو اُس کہ قریب بیٹھی تھی اُس نے اُسے مخاطب کیا۔۔۔۔
”جی۔۔۔۔۔۔“ نور نے سر اُٹھاتے اُسے دیکھا ۔۔۔
”آپ کی کوئی فرینڈ نہیں ہے کیا۔۔۔۔؟“ اُس نے سوال پوچھتے نور کی نظروں میں سوال دیکھ کر ساتھ وضاحت بھی دی ۔۔۔
”وہ ایکویچلی میں جب بھی دیکھتی ہوں آپ اکیلی ہی بیٹھی ہوتی ہیں اس لیے پوچھ رہی ہوں۔۔۔“ خدیجہ نے نرمی سے سوال کیا تو نور نے نفی میں سر ہلایا۔
”نہیں ابھی تک تو کوئی نہیں بنائی۔۔۔“ موبائل بیگ میں رکھتے اُس نے جواب دیتے اُس لڑکی کا جائزہ بھی لیا جس کی ٹی شرٹ ، جینز کے ساتھ  کھلے بال اور میک اپ سے اٹا چہرہ نور کو کچھ خاص پسند نہیں آیا۔۔۔۔
”توٹھیک ہے میری بھی کوئی فرینڈ نہیں،پلیز آپ میری دوست بن جائیں ویسے بھی مجھے آپ کا یہ حجاب اور معصوم سا چہرہ بہت پسند ہے۔۔۔۔“اُس لڑکی نے کہنے کے ساتھ ہی نور کا ہاتھ پکڑا تو اُسکے انداز وہ ایک دم سے بوکھلا گئی ۔۔۔۔۔
”جی، جی ضرور۔۔۔۔“ زبردستی چہرے پر مسکراہٹ سجاتے نور نے اثبات میں سر ہلایا تو خدیجہ نے آنکھوں میں چمک لیے اُس کا ہاتھ چھوڑا۔۔۔۔
“بس آج سے ہم دونوں بیسٹ فرینڈ ہیں۔۔۔“ نور کا جواب سنتے ہی خدیجہ نے خوشدلی سے کہا تو اُس کے حلیہ کے برعکس نور کو وہ اچھی لگی تب ہی وہ اُسکی باتوں کا جواب دیتے خود بھی اُس کے متعلق پوچھنے لگی۔ایک ہی دن میں وہ ایک دوسرے کے بارے میں کافی حد تک جان چکی تھیں اور اس میں بڑا ہاتھ خدیجہ کا تھا (جو تھی تو نور سے کچھ سال بڑی پر اپنے بات کرنے کے انداز اور سمجھ سوچ کی وجہ سے اُس نے بہت جلد نور کو اپنے آپ سے مانوس کر لیا تھا)۔۔۔۔
سارا دن خدیجہ کہ ساتھ رہنے اور اُس کی باتوں کی وجہ سے نور کچھ وقت کے لیے اُس کالی آنکھوں والے کا خیال اپنے ذہن سے نکال چکی تھی ۔۔واپسی پر اُس نے حارث کو بھی اپنی دوست کے متعلق بتایا تو وہ بھی خوش تھا کہ نور کہ ساتھ یونی میں کسی کا ساتھ بن گیاپر نور کہ بار بار خدیجہ نام کی گردان پر وہ اب تنگ آنے کے ساتھ ساتھ کچھ پریشان بھی ہوا۔۔۔
”اچھا نور بس کرو اب اور ایک ہی دن میں کسی پر اتنا اعتبار نہیں کرتے کچھ وقت لیتے ہیں کسی کو جاننے میں تاکہ یہ پتا چل سکے کہ وہ شخص اعتبار کے قابل ہے بھی یا نہیں۔۔۔۔“ حارث نے ہمیشہ کی طرح اُسے سمجھایا تو نور کی زبان کو بریک لگی۔۔۔۔
”نہیں بھائی سچ میں وہ بہت اچھی ہے، تھوڑی ماڈرن ہے پر عادت اور اخلاق کی بہت اچھی ہے۔۔۔۔“ نور نے اُسے مطمئن کرنے کی کوشش کی ۔۔۔۔۔
”تم خود معصوم ہو اس لیے تم جس سے بھی ملتی ہو تمہیں وہ شخص بھی اپنے جیسا معصوم اور اچھا ہی لگتاہے۔۔۔لیکن نور کسی پہ اتنی جلدی اعتبار نہ کیا کرو پہلے کچھ دیر اُسے جانجا کرو اُس کہ عادتوں ،باتوں اور طریقہ کار پر غور کیا کرو ،دنیا میں بہت سے لوگ اپنے چہروں پر اچھائی کا نقاب چڑھائے تم جیسوں کو بے وقوف بنا دیتے ہیں۔۔۔۔“آخری بات پر اُس نے ہلکی سی چیت نور کے سر پر رسید کی جو اب کسی سوچ میں گم تھی۔۔۔۔
”سمجھ آئی کچھ یا اگلی بھی گئی؟“ گاڑی مارکیٹ کے باہر روکتے اُس نے پوچھا تو نور نے بولنے کی بجائے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔
”ٹھیک ہے میں اب صبح سے اُس لڑکی سے بات نہیں کرو گی۔۔۔۔“ چہرے پر فکر لیے اُس نے جتنی عقل مندی سے کہا حارث کا دل اپنا سر پیٹنے کو کیا۔۔۔۔۔
”نور کب بڑی ہو گی تم؟ حد ہے میں نے یہ نہیں کہا کہ اُسے چھوڑ دو بس یہ کہا ہے کہ سوچ سمجھ کر اعتبار کیا کرو اور یہ جو دماغ اللہ نے دیا ہے نا اسے کبھی استعمال بھی کر لیا کرو۔۔۔۔“اب کی بار صاف الفاظ میں کہتے وہ گاڑی سے اُتارا اور اُسے بھی اُترنے کا کہا۔۔۔۔
فریحہ بیگم کے کہنے پر وہ نور کو مارکیٹ لے آیا تھا جہاں اُنہوں نے اُس کی اور سارہ کی شادی کی کچھ شاپنگ کی اور شام گئے جب وہ گھر لوٹیں تو سکندر صاحب اور حاشر ٹی وی دیکھنے میں مصروف تھے ۔۔سارہ نے آتے ہی اپنی تمام شاپنگ سکندر صاحب کو دیکھانی شروع کی( جیسے وہ بہت شوق اور پیار سے دیکھ رہے تھے ) نور خاموشی سے اپنی چیزیں اُٹھا کر کمرے میں آگئی۔۔۔اُس دن کے بعد سکندر صاحب اب اُسے کسی بات پر نہیں ڈانٹتے اور فریحہ بیگم بھی شائد اُسکی شادی کی وجہ سے اُسے کاموں کا نہیں کہتی یا پھر سارہ میں وہ اتنی مصروف تھیں کہ اُنہیں اب نور کی نہ کوئی غلطی نظر نہیں آتی جیسے بہانہ بنا کر وہ سکندر صاحب کو بھڑکا سکتیں۔۔۔کمرے میں آتے ہی ایک دم اُسکا دل بھر آیا تھا ،اُسے آج عالیہ بیگم کی کمی شدت سے محسوس ہوئی (جنہیں بس اُسنے تصویروں میں دیکھا اور حارث اور حاشر سے سُنا ہی تھا)۔۔۔۔
امی کاش آپ زندہ ہوتیں تو میں آپ کو بتا سکتی کہ میں کتنی تکلیف میں ہوں۔۔۔“ دراز سے عالیہ بیگم کی تصویر نکال کر دیکھتے  وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تب ہی اُسکے موبائل کی سکرین بلنک ہوئی اور ساتھ ہی آرجے کے میسجز آنے لگے جو اپنی آفس کی کسی مصروفیت کی وجہ سے سارا دن اُس سے بات نہیں کر پایاتھا۔۔۔۔۔
”کہاں ہو یار؟کیسی ہو؟ کیا کر رہی ہو؟کھانا کھایا؟دن کیسا گزارا؟مجھے مس تو نہیں کیاہو گا؟“ جیسے کئی میسجز اُس نے سینڈ کیے ہوۓ تھے ۔ نور نے موبائل اُٹھاتے میسج کا جواب دینے کی بجائے اُس کے نمبر پر کال کی جس پر زین کو  نہ صرف حیرت ہوئی بلکہ اُس نے کال ریسیو کرنے کی بجائے بے یقینی سے سکرین کو دیکھا کیونکہ ان چار سالوں میں پہلی بار نور نے اُسے کال کی تھی۔۔۔۔
کیا ہوا؟کال کیوں کر رہی ہو؟“ اُسے لگا شائد کوئی اور کال کر رہا ہے اس لیے اُس نے کنفرم کرنا ضروری سمجھا۔۔۔۔
”مجھے بات کرنی ہے۔۔۔“ نور جو آج خود کو بہت بے بس اور اکیلا محسوس کر رہی تھی پتا نہیں اُس میں اتنی ہمت کہاں سے آگئی کہ اتنے سال بعد اُس نے خود سے زین سے یہ بات کہی۔۔۔۔
اوکے میں کرتا ہوں۔۔۔۔“ میسج پڑھتے زین نے اُس کا نمبر ڈائل کیا اور موبائل کان سے لگائے دوسری طرف فون اُٹھانے کا انتطار کرنے لگا ۔۔۔
”نور کیا ہوا۔۔۔۔؟“ کال ریسیو ہوتے ہی اُس نے رونے کی آواز سنی تو وہ ایک دم سے اُٹھ کر کھڑا ہوا۔۔۔
”کیا ہوا ہے یار رو کیوں رہی ہو؟کسی نے کچھ کہا ہے؟“
زین نے پھر سے سوال کیا تو نور نے اپنے آنکھیں صاف کرتے دروازہ لاک کیا اور بالکونی میں آگئی۔۔
”کیا ہوا ہے؟رو کیوں رہی ہو؟طبعیت ٹھیک ہے۔۔۔؟“بے چینی سے اپنا سوال دوہراتے وہ دوسری طرف اُس کے بولنے کا منتظر تھا۔۔۔
”آرجے۔۔۔۔“نور نے اُس کا نام لیا اور ساتھ ہی پھر سے رونے لگی ۔۔۔۔
کیا ہوا ہے بولو نور دیکھو تم مجھے اب پریشان کر رہی ہو،مجھے بتاؤ کسی نے کچھ کہا ہے۔؟“ زین نے اُس کی آواز سنتے (جو اُس کی سوچ سے بھی زیادہ نرم  تھی) فکر مندی سے پوچھا ۔۔۔۔۔
“کچ۔۔ھ ۔۔نہ۔۔یں کہا۔۔۔۔“ نور نے خود پہ ضبط کرنے کے باوجود بھی ٹوٹے الفاظ میں جواب دیا۔۔۔۔
”اچھا رونا بند کرو تمہیں پتا ہے نا مجھے تمہارا رونا پریشان کر دیتا ہے تکلیف دیتا ہے مجھے ،پلیز چپ کرو اور بتاؤ کیا ہوا ہے۔۔۔“زین نے اُسے بہلانے کی کوشش کرتے بولنے کے لیے اکسایا(وہ نہیں جانتا تھا کہ یہ لڑکی کب اس کے لیے اتنی خاص ہو گئی کہ اُس کی چھوٹی سی تکلیف پر بھی اُسکا دل تڑپ اُٹھتا تھا)۔۔۔۔
”آرجے وہ۔۔۔۔“نور نے اُسے کچھ بتانا چاہا مگر اُس سے پہلے ہی ایک دم سے گھر کی لائٹ چلی گئی۔۔۔ نور نے چاروں طرف گھروں میں جلتی لائٹس کو دیکھتے ایک نظر اپنے گھر کو دیکھا تو اُسے سمجھ آئی کہ بس اُن کے گھر کی لائٹ بند ہوئی ہے ،اندھیرے سے گھبراتے اُس نے زین کو جواب دینے کی بجائے کال کاٹی اور موبائل کی لائٹ آن کرتے بالکونی سے کمرے میں آئی تاکہ باہر جا سکے مگر اُس سے پہلے ہی کسی نے پیچھے سے آتے اُسے اپنے حصار میں قید کیا اور اُس کے چیخنے سے پہلے ہی اُسکے منہ پہ ہاتھ رکھتے اُسکی آواز کو باہر جانے سے روکا۔۔۔۔۔
”کس سے بات کر رہی تھی۔۔؟“ اُسکے بال ہٹا کر اُس کے کان کہ قریب ہوتے اُس شخص نے سر گوشی کی تو نور کی آنکھیں پوری کھل گئیں اور موبائل اُس کہ ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے قالین پر گرا۔۔۔
”میں نے پوچھا کس سے بات کر رہی تھی۔۔۔؟“ اُس کا رخ اپنی طرف موڑتے زارون کے لہجے میں پہلے سے زیادہ سختی تھی ۔۔۔۔
”و۔۔وہ۔۔۔۔۔۔“ نور نے اُسکے چہرے کو دیکھا جو آج بھی رومال سے ڈھکاہوا تھا۔۔۔۔
”میں کچھ پوچھ رہا ہوں۔۔۔۔“ اپنی انگلیاں اُس کی کمر میں دھنستے اُس نے الفاظ کو بھی اُتنی ہی سختی سے ادا کیا۔۔۔
و۔۔۔وہ۔۔۔۔۔“ نور نے اُسکی سرخ آنکھوں میں دیکھتے کچھ بولنا چاہا مگر خوف کہ مارے اُس کے الفاظ اُسکا ساتھ چھوڑ چکے تھے۔۔۔۔۔
”کیا وہ؟ کون تھا جس سے بات کررہی تھی ؟ اور جب میں ایک بار کہہ چکا ہوں کہ تم صرف میری ہو تو سمجھ نہیں آتی کیا ۔۔۔؟“ اُس کی کمر پر دباؤ ڈالتے خود سے مزید قریب کرتے وہ جتنے غصے سے بولا نورکو اپنی سانس بند ہوتی محسوس ہوئی۔۔۔۔۔
”وہ ۔۔می۔۔ں۔۔۔۔۔۔۔“
”کیا۔۔۔میں؟کسی غیر محرم سے تو بڑی باتیں کر لیتی ہو اور بڑا رو رہی تھی اُس کے سامنے اور محرم کو دیکھتے ہی بولتی بند ہو گئی واہ ،کیا بات ہے نور العین آپکی۔۔۔۔“ تمسخرانہ انداز میں کہتے ،وہ اب اُس کو دیوار کہ ساتھ لگا چکا تھا۔۔۔۔
”پلیز۔۔۔۔“نور نے اُسے خود سے قریب ہوتا دیکھ اپنے دوپٹے کو دونوں ہاتھوں میں دبوچے آنکھیں بند کیں،تو زارون نے اُسکے چہرے پر آتیں بالوں کی لٹوں کو پیچھے کیا۔۔۔۔۔
”جان ہو تم میری اور جو انسان میرا ہو وہ بس میرا ہی ہوتا ہے میں کسی بھی طور شراکت برداشت نہیں کرتا اس لیے دوبارہ خیال رکھنا اور اپنے یہ آنسو صرف تم میرے لیے بہایا کرو ،کیونکہ یہ تمہیں مزید خوبصورت بنا دیتے ہیں۔۔۔“ہاتھ کی پوروں سے اُسکی رخسار پر بہاتے آنسو کو صاف کرتے اب اُس کے انداز میں نرمی آچکی تھی اُس نے آنسو صاف کرتے اُس کے سرخ  رخساروں کو چھوا تو نور کو  اُس سے خوف اور وحشت محسوس ہوئی۔۔۔
”پل۔یز ۔۔۔۔۔۔“ اُسے اپنی اوپر جھکتا دیکھ نور نے مذاحمت کی مگر زارون نے اُس کی کوئی بھی بات سنے بغیر ایک بار پھر سے اپنے لمس سے واقف کروایا جس پر نور نے اُس کے سینے پر ہاتھ رکھتے اُسے پیچھے کرنے کی کوشش کی مگر وہ کسی چٹان کی ماند کھڑا اُسکے نازک ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے چکا تھا۔۔۔ اس سے پہلے کہ وہ مزید کوئی پیش رفت کرتا دروازے پر ہونے والی تیز دستک نے نور کہ ساتھ ساتھ اُسے بھی ہوش کی دنیا میں لاتے الگ ہونے پر مجبور کیا۔۔۔
”لو یو بے بی۔۔۔۔بہت جلد میں تمہیں یہاں سے لے جاؤں گا بس دوبارہ کسی اور سے بات کرنے کی غلطی مت کرنا۔۔۔۔“ اپنا رومال ٹھیک کرتے وہ حارث کی آواز پر جلدی سے اپنی بات مکمل کرتےبالکونی کی طرف بڑھا تو نور نے حارث کی آواز اورتیز ہوتی دستک پرجلدی سے دروازے کی طرف قدم بڑھائے اور وہاں حارث کو ہاتھ میں ٹارچ پکڑے کھڑا دیکھ کر جلدی سے اُس کے ساتھ لگتے زور زور سے رونے لگی...جو اُسے جنریٹر خراب ہونے کا بتاتا لائٹ جلد آجانے کی تسلی دیتے نیچے لے آیا۔۔۔۔۔۔

جاری ہے.....

https://www.facebook.com/RjZaroonAli

ناول تم صرف میری ہوWhere stories live. Discover now