تم صرف میری ہو قسط نمبر:11

377 20 0
                                    

ناول: تم صرف میری ہو
مصنف: زارون علی
قسط نمبر:11

”عالیان اُٹھو ہمیں فوراً جانا ہے“ زارون جو کھانا کھا کر راحیل کی کال آنے پر آواز ٹھیک سے نہ آنے کے باعث ٹیبل سے اُٹھ کر تھوڑا سائیڈ پر ہوا تھا اُس نے واپس آتے عالیان سے کہا جو ابھی تک کھانا کھانے میں مصروف تھا۔۔۔
”پر کہاں؟“ عالیان نے چمچہ منہ میں ہی رکھے پوچھا تو زارون نے جواب دینے کی بجائے اُسے کھینچ کر کھڑا کیا۔۔۔ ”باتیں کر کے وقت ضائع مت کرو اور جلدی سے گاڑی نکالو میں دو منٹ میں آیا“ اُس نے چمچہ اُس کے منہ سے نکالتے غصے سے ٹیبل پر پٹخا تو عالیان کو معاملے کی نزاکت کا احساس ہوا۔۔۔
”اوکے میں گاڑی نکالتا ہوں۔ آجاؤ تم“ مزید کوئی سوال کرنے کی بجائے اُس نے چابی لیتے باہر کا رخ کیا اور زارون موبائل پر کسی کو کال ملاتے جلدی سے اپنے کمرے کی طرف بڑھا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
”یہاں لاؤ میرے پاس بٹھاؤ میری بیٹی کو“ خالدہ بیگم نے سحر کے ساتھ ساتھ نور کو بھی لاؤنج میں آتا دیکھ کر جنید کے قریب سے اُٹھ کر دوسری طرف صوفے پر بیٹھتے کہا تو سحر نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلاتے نور کو اُن کے ساتھ بیٹھا دیا جہاں سارہ پہلے سے بیٹھی تھی۔۔۔
”قاری صاحب شروع کریں“ نور کے آتے ہی سکندر صاحب جو اُسی کے انتظار میں بیٹھے تھے اُنہوں نے قاری صاحب سے کہا جنہوں نے سکندر صاحب کے کہنے پر پہلے سارہ اور حارث کا نکاح پڑھانا شروع کیا۔۔۔۔
”اللہ... کیا کروں اب میں؟؟“ پلیز مجھے یہ گناہ کرنے سے بچا لے۔ نور نے آنسو جو اب آنکھوں سے باہر آنے کو بے تاب تھے اُن کو روکنے کے لیے اپنی آنکھیں سختی سے بند کیں اور ایک بار پھر سے وہ منظر اُس کی نظروں کے سامنے گھومنے لگا جب اُس نے اپنی زبان سے زارون کے لیے اقرار کیا تھا۔۔۔
”یااللہ مجھے موت دے دے، پر پلیز کوئی ذلت مزید میری قسمت میں مت لکھنا“ قاری صاحب کے بول اُسے بہت کچھ یاد دلانے لگے تو اُس نے آنکھوں کو مزید سختی سے بند کرتے دعا کی۔۔۔۔
نکاح مکمل ہوتے ہی سب نے دعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے اور حارث اور سارہ کے رشتے کی خیروبرکت کے لیے دعا کی۔۔۔۔
”بہت بہت مبارک ہو“ سب سے پہلے سکندر صاحب نے حارث کو گلے لگاتے مبارک باد دی تو حاشر کے ساتھ ساتھ باقی سب نے بھی اُٹھ کر حارث کو مبارک باد دی اور جنید جو ابھی تک خاموش بیٹھا تھا اُس نے خالدہ بیگم کے گھورنے پر اُٹھ کر حارث کے گلے لگتے اُسے مبارک باد دی۔۔۔۔۔۔
”منہ میٹھا کرواؤ بھئی سب کا“ خالدہ بیگم نے سحر کو کہا تو وہ مسکراتے ہوئے اُٹھی اور سب کا منہ میٹھا کروایا جس کے بعد سکندر صاحب نے قاری صاحب کو نور اور جنید کا نکاح شروع کرنے کا کہا تو وہ سر ہلاتے پہلے نور سے اُس کی مرضی پوچھنے لگے جو بالکل گم صم سی بیٹھی مسلسل اپنی موت کے دعا کر رہی تھی۔۔۔۔
”بیٹا کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے ؟؟؟“ قاری صاحب نے دوسری بار پوچھا تو خالدہ بیگم کے ہلانے پر اُسے ہوش آیا اور اس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب دیتی سب لوگ باہر سے آنے والے شور پر اُس کی بجائے دوسری جانب متوجہ ہوئے جہاں سب سے پہلے ایک نوجوان لاؤنج میں داخل ہوا۔۔۔۔
”کون ہیں آپ ؟؟؟“حاشر جو اُس کے قریب تھا اُس نے سب سے پہلے اُٹھتے پوچھا تو زارون نے جواب دینے کی بجائے ابرو اچکاتےاُسے ایک نظر دیکھ کر قدم آگے بڑھائے۔۔۔۔۔
”یہ سب کیا ہو رہا ہے یہاں ؟؟“ اُس کی بات کا جواب دینے کی بجائے اُس نے نور کے سامنے آتے سوال کیا جس کی سانس اُس شخص کی آواز اور چہرے پر اٹک سی گئی تھی۔۔۔
”تم ہوتے کون ہو یہ سب پوچھنے والے اور تم اندر کیسے آئے؟؟“ حارث نے اُسے نور کے سر پر کھڑا دیکھ کچھ ناسمجھی سے اُٹھ کر اُس کے قریب آتے پوچھا تو باقی سب بھی اُس لڑکے کے پیچھے دس بارہ لوگوں کو لاؤنج میں داخل ہوتا دیکھ کر کوئی چور ڈاکو سمجھ کر اُٹھ کر کھڑے ہوئے۔۔۔۔
”میں کون ہوں یہ جاننا زیادہ ضروری نہیں“ اُس نے کہتے ہوئے قدم حارث کی جانب بڑھائے اور اپنی بات کو جاری رکھا ”بلکہ یہ دیکھنا زیادہ ضروری ہے“ اپنے ہاتھ میں پکڑا کاغذ کھول کر اُس کے سامنے کرتے وہ خاموش ہوا۔۔۔۔
”کیا ہے یہ سب ؟؟؟“ نکاح نامے پر نور کے نام کے ساتھ ساتھ اُس کے دستخط دیکھ کر حارث نے جھپٹ کر کاغذ اُس کے ہاتھ سے لیتے سوال کیا۔۔۔
”ہمم لگتا ہے پڑھے لکھے نہیں ہو تب ہی نکاح نامے پر اپنی بہن کا نام دیکھ کر بھی سمجھ نہیں آئی کہ یہ کیا ہے؟“
کاغذ اُس کے ہاتھ سے لیتے اُس نے حارث کی آنکھوں میں دیکھتے بے خوف ہو کر بتایا تو اُس کے ساتھ ساتھ لاؤنج میں موجود سب لوگوں نے بے یقینی سے سرخ دوپٹے میں گھونگھٹ نکالے بیٹھی نور کو دیکھا جو سب کے بر عکس ابھی تک بیٹھی تھی۔۔۔۔
”کیا بکواس ہے یہ سب اور تمہاری ہمت کیسے ہوئی میری بہن کے بارے میں ایسی بات کرنے کی“حارث نے ہوش میں آتے ہی زارون کا گریبان پکڑا تو عالیان کے ساتھ ساتھ باقی چار لوگ بھی اُن دونوں کی جانب بڑھے پر اُس سے پہلے ہی زارون نے حارث کے ہاتھ اپنے گریبان سے جھٹکے۔۔۔۔
”اپنے ہاتھ کنٹرول میں رکھو ورنہ ان کو توڑنے میں بس مجھے ایک سیکنڈ لگے گا“ انگلی اُٹھاتے اُس نے سرخ آنکھوں سے حارث کو وارن کیا۔۔۔۔
”کیا سمجھتے ہو تم ؟؟ہم تمہاری دہشت سے ڈر جائیں گے اور اس جعلی نکاح نامے پر یقین کر لیں گے؟؟“حارث کا دل ابھی بھی اس بات کا یقین کرنے کے لیے تیار نہ تھا۔۔۔
”ہاہاہاہا جعلی ؟؟؟“ قہقہہ لگاتے اُس نے نکاح نامہ قاری صاحب کی طرف بڑھایا۔۔۔”دیکھیں یہ جعلی ہے؟“ خود سے وضاحت دینے کی بجائے اُس نے قاری صاحب سے پوچھا جو پہلے ہی گھبرائے کھڑے تھے۔ اُنہوں نے خاموشی سے نکاح نامہ پکڑتے دیکھا تو سکندر صاحب نے ہاتھ اُٹھاتے اُنہیں منع کیا اور نور کی طرف قدم بڑھائے جو بالکل گم صم بیٹھی اپنا ہی تماشہ بنتے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔
”یہ لڑکا سچ بول رہا ہے؟“ اُس کے سر پر کھڑے ہوئے سکندر صاحب نے آہستہ مگر سخت لہجے میں سوال کیا۔۔۔
”ابو میں کہہ رہا ہوں نا یہ لڑکا جھوٹ بول رہا ہے۔ مجھے نور پر یقین ہے وہ ایسا نہیں کر سکتی“ حارث نے آگے بڑھتے اُس کی سائیڈ لی تو سکندر صاحب نے ہاتھ کے اشارے سے منع کیا۔۔ ”کوئی بھی اتنی بڑی بات یونہی ہی نہیں بول سکتا اور تم چپ رہو میں پوچھ رہا ہوں نا“ اُس کی بات سنتے ہی اُنہوں نے چپ رہنے کا کہا اور نور کا بازو پکڑتے اُسے اپنے سامنے کھڑا کیا جس کی وجہ سے اُس کا دوپٹہ سرک کر سر سے کندھے پر آگیا۔۔۔۔
”کیا پوچھ رہا ہوں میں یہ لڑکا سچ کہہ رہا ہے یا نہیں؟“ اُس کے بازو کو دبوچتے اُنہوں نے گرجتے ہوئے پوچھا تو نور نے  رونا شروع کر دیا اُسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ انکار کرے یا اقرار۔۔۔۔ ”میں کچھ پوچھ رہا ہوں“ سکندر صاحب نے اُس کے رونے کی پروا کیے بناء ہی چلاتے ہوئے سوال کیا تو زارون جو خاموش کھڑا نور کے اقرار کا منتظر تھا آگے بڑھا۔۔۔
”میں آپ کو بتا چکا ہوں نا اور ثبوت بھی دکھا چکا ہوں تو کیوں آپ چلا رہے ہیں اس پہ۔۔۔۔“
”میں تم نے بات نہیں کر رہا اس لیے خاموش رہو“ اُس کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی سکندر صاحب نے وارن کیا اور نور سے پھر سے سوال کیا۔ جس کا جواب اُس نے زبان کی بجائے ہاں میں سر ہلایا ”ابو۔۔۔ م۔۔یں ن۔۔ے خو۔۔۔د نہٖی۔۔ں کی۔۔ ا ۔۔۔س نے۔۔ زب۔۔ر۔۔د۔۔س۔۔۔۔۔۔“ ہمت کرتے اُس نے اقرار کی بجائے اپنی صفائی دینا چاہی مگر اُس سے پہلے ہی سکندر صاحب کا ہاتھ اُٹھا اور اُس کے گال پر نشان چھوڑتے اُس کے ہونٹ کو زخمی کر گیا۔۔۔
”بے شرم بے حیا، پیدا ہوتے ہی تمہارا گلا دبا دیتا تو اچھا تھا“ کہنے کے ساتھ اُنہوں نے دونوں ہاتھ اُس کے گلے پر رکھتے دبایا تو زارون نے زور سے اُنہیں پیچھے دھکا دیا۔۔۔
”میں بار بار آپ سے کہہ رہا ہوں پر کیا سمجھ نہٖیں آرہی آپ کو“ پسٹل نکالتے اُس نے غصے سے دھڑاتے ہوئے اُس کا رخ سکندر صاحب کی طرف کرتے سب کی بولتی بند کی۔۔۔
”اب کسی نے کوئی اور بکواس کی تو میں شوٹ کر دوں گا“ نور کا ہاتھ پکڑتے اُس نے جتنی سختی سے کہا نور نے اتنی ہی بے رخی سے اُس کا ہاتھ جھٹکا۔۔۔۔
”حارث بھائی پلیز..!! میری بات سنیں“  اس نے میرے ساتھ زبردستی،س۔۔ب۔۔۔ نور نے حارث کے سامنے ہاتھ جوڑے تو اس نے سکندر صاحب سے بھی زور دار تماچہ اُس کے گال پر مارا۔۔۔
”زبردستی ؟؟زبردستی کوئی نکاح کر لیتا ہے کیا اور زبردستی کی تھی تو مر جاتیں پر یہاں واپس نہ آتیں“ ذلت اورغصے سے پاگل ہوتے حارث چلایا تو زارون کی برداشت جواب دے گئی اُس نے پسٹل حارث کی طرف کرتے فائر کیا جو عالیان کے بروقت ہاتھ مارنے پر دیوار میں جا لگا۔۔۔
”یار کیا کر رہے ہو“عالیان نے زارون کے ہاتھ سے پسٹل پکڑا تو وہ حارث کو مارنے کے لیے آگے بڑھا پر اُس سے پہلے ہی عالیان نے اُسے سنبھالا۔۔۔۔
”اسے کہو دفع ہو جائے۔ میری نظروں سے دور چلی جائے۔ اب میں اس کے غلیظ وجود کو مزید اس گھر میں برداشت نہیں کر سکتا“ سکندر صاحب نے اپنے دل پہ ہاتھ رکھتے کہا تو نور نے حارث سے نظر ہٹا کر بے یقینی سے اُن کی طرف دیکھا جو اُس کے اپنے تھے۔۔۔۔۔
”توبہ توبہ کیا زمانہ آگیا پر شکر ہے میرا بیٹا بچ گیا میں تو ایسے ہی اُس کی پسند کی بجائے اسے معصوم سمجھ کر بہو بنا کر لے جا رہی تھی پر لاکھ لاکھ شکر ہے. وقت پر حقیقیت کھل گئی“ خالدہ بیگم نے کانوں کو ہاتھ لگاتے کہا تو نور نے اپنی آنکھوں کو صاف کرتے ایک نظر حارث کو دیکھاجو منہ موڑے کھڑاتھا...
”۔۔۔بھا۔۔ئی ۔۔“ نور نے ہمت کرکے پھر سے کوشش پر اُس سے پہلے ہی اُس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا آیا اور وہیں حارث کے قدموں میں ہی زمین بوس ہو گئی۔۔۔۔۔

ناول تم صرف میری ہوDonde viven las historias. Descúbrelo ahora