تم صرف میری ہو قسط نمبر:32

295 20 0
                                    

ناول: تم صرف میری ہو
مصنف: زارون علی (Zaroon Ali)
قسط نمبر: 32

خالدہ بیگم کا ہاتھ کاٹ دیا گیا تھا اور دعا آپریشن ختم ہوتے ہی اپنی طبیعت خرابی کا بہانہ کرتے وہاں سے جا چکی تھی جو جنید اور سلیم صاحب دونوں کے لیے ہی حیران کن تھا مگر اُنہوں نے خالدہ بیگم کی حالت کے پیش نظر کسی بھی قسم کی کوئی بات کرنے سے غرض برتے خود کو یہ کہہ کر تسلی دی کہ شاید ماں کی تکلیف کی وجہ سے دلبرداشتہ ہے اور اُن کی بے بسی اور تکلیف کو برداشت نہیں کر  سکتی تب ہی یہاں سے چلی گئی۔۔۔
خالدہ بیگم کو ہوش آیا تو اپنے جسم کے ایک اہم حصے کو اپنے ساتھ نہ پاکر اُن کے اندر اذیت کا ایک طوفان اُٹھا کو گناہ کے احساس کو مزید شدید کرتے اُنہیں شرمندگی کی اتہہ گہرائیوں میں دھکیلنے کے لیے کافی تھا۔۔
”کاش میں نے وہ سب نہ کیا ہوتا تو آج مجھے اتنی بڑی سزا نہ ملتی“،آنکھوں میں ندامت کے آنسوؤں لیے اُنہوں نے جنید کے چہرے کی طرف دیکھتے سوچا جودو دن سے دن رات اُن کی خدمت میں لگا تھا۔۔۔
”میں نے اپنے بیٹے کی خوشیاں اُس کی زندگی خوداپنے ہاتھوں سے برباد کر دی پر ملائکہ نے تو مر کہ بھی مجھ سے بازی لے لی،میں نے اُسے بس چند پل کی اذیت دی پر اللہ نے مجھے میرے گناہ کی سزا کے طور پر پوری زندگی کی اذیت سے دو چار کر دیا ہے تاکہ میں ساری زندگی سسک سسک کر بھی اپنی موت کی دعا مانگوں اور دن رات اُسی اذیت کا مزہ چکھؤں جس کا انتخاب میں نے ملائکہ کے لیے کیا تھا“،آنکھیں بند کرتے آنسوؤں کو بہنے سے روکتے اُنہوں نے دل ہی دل میں کہا تو جنید نے اُن کے پاس آتے نرمی سے اُن کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھا۔۔۔
”امی آپ ٹھیک ہے نا؟؟؟کہیں درد ہے تو بتائیں میں ڈاکٹر سے بول دیتا ہوں“ ،لہجے میں اُن کے لیے درد اور فکرمندی لیے اُس نے پوچھا تو خالدہ بیگم نے آنکھیں کھولتے نفی میں سر ہلایا۔۔۔
”مجھے کسی ڈاکٹر کی ضرورت نہیں ہے جنید، اور نہ ہی میرے درد کا علاج اب کسی ڈاکٹر کے پاس ہے، اُس کے ہاتھ کو اپنے کانپتے ہوئے ہاتھ میں لیتے خالدہ بیگم نے اجڑی ہوئی بے جان سی آواز میں کہا۔۔۔
”امی آپ کیوں پریشان ہو رہی ہیں اللہ نے چاہا تو سب ٹھیک ہو جائے گا“،جنید کو لگا کہ شاید وہ ہاتھ کی وجہ سے دلبرداشتہ ہو رہی ہیں۔۔۔
”اللہ مجھے معاف نہیں کرے گاجنید، وہ مجھے کیسے معاف کر سکتا ہے؟؟ وہ مجھے میرے کیے کی سزا دے چکا ہے اور اس سے بدتر سزا کیا ہو گی کہ میں اپنی بقیہ زندگی نہ صرف دوسروں کی محتاج رہوں گہ بلکہ لوگوں کی باتوں اور نفرتوں کانشانہ بنتے یہ سنوں گی کہ اس عورت کو اپنے کسی گناہ کی سزا ملی ہے ،اور تمہیں پتا ہے؟؟؟ لوگ غلط نہیں کہتے، مجھے سچ میں اپنے گناہ کی سزا ملی ہے۔ مجھے تو اس سے بھی بدتر سزا ملنی چاہیے تھی کیوں کہ میں نے ایک بے گناہ معصوم لڑکی کی جان لی ہے۔ ہاں میں نے قتل کیا ہے۔ تمہیں پتا ہے سلیم میں نے اپنے اسی ہاتھ سے سلنڈر کھولا تھا میں نے اسی ہاتھ سے ملائکہ کے لیے موت کا گھڑا کھودا، میں نے سوچا میرا گناہ چھپ جائے گا کیوں کہ مجھے کسی انسان نے یہ سب کرتے نہیں دیکھا پر ،میرا گناہ نہیں چھپا سلیم کیوں کہ میں ایک بات بھول گئی تھی کہ مجھے تو وہ سب سے بڑی اور اعلیٰ ذات دیکھ رہی ہے میرے ہر عمل پر نظر رکھے ہوئے ہے اور دیکھو آج اُس نے مجھے اس موڑ پہ لا کھڑا کیا کہ میں نے اپنی زبان سے اپنے ظلم کا اعتراف کیا ہے، میں نے ملائکہ کو مارا اُسے وہ اذیت دینا چاہی جو آج میرے ہی نصیب میں لکھ دی گئی ہے“،اُن دونوں کو بے یقین اور ساکت کھڑا دیکھ کر وہ زارو قطار رونے لگیں تو جنید نے اپنا ہاتھ ہٹاتے بے جان نظروں سے روتی بلکتی معافیاں مانگتی عورت کو دیکھا جو بدقسمتی سے اُس کی ماں تھی اور اُس کی مجرم بھی جسے وہ چاہ کر بھی سزا نہیں دے سکتا تھا۔۔۔۔۔
”اللہ نے مجھے سزا دی ہے اُس نے مجھے میرے اُسی ہاتھ سے محروم کیا جس سے میں نے وہ گناہ کیا اور زندگی بھر کی اذیت میرے نام لکھ دی تاکہ میں پل پل سسکوں اپنی موت کی دعا کروں، سلیم؟؟ اُس نے کیوں مجھے ایک ہاتھ سے محروم کیا؟؟؟ وہ مجھےمیرے دونوں ہاتھوں، میری زبان اور آنکھوں سے بھی محروم کر دیتا، پھر مجھے ایک زندہ لاش کی مانند اس دنیا میں چھوڑتا، تاکہ میرے جیسی بہت سی عورتیں جو اپنی بہوؤں کو آگ لگا دیتی ہیں، اپنی جلن اور غصے میں کسی معصوم کی جان لے لیتی ہیں مجھے دیکھ کر عبرت حاصل کرتیں، سیکھتیں کہ یہ دنیا مکافات عمل ہے جس نے جو کیا اُس نے بھر کر ہی قبر میں جانا، کیوں اُس نے مجھے اتنی چھوٹی سزا دی؟کیوں اللہ نے مجھے عبرت کا نشان نہیں بنایا؟؟کیوں اُس نے مجھے بس معمولی سی اذیت دی؟؟وہ مجھے معاف نہیں کرے گا جنید میں نے خون کیا ہے ،بلکہ قتل کیا ہے، میں نے تمہاری ملائکہ کو مار دیا۔ میں نے اپنے ان ہاتھوں سے تمہاری زندگی تباہ کی ہے“، مسلسل چیختے جہاں وہ اللہ کے عذاب سے ڈر کر سب کچھ اگل رہی تھیں وہیں اُن کی باتیں سنتے سلیم صاحب نے جنید کو سنبھالا جو زرد پڑتے بس گرنے کے قریب تھا۔۔
”امی ۔۔یہ۔۔ آپ۔۔کیا ۔۔بو۔۔ل رہی ہیں؟؟آ۔۔پ۔۔کیو۔۔ں ملا۔۔ئکہ۔۔“ ،جنید کا دماغ درد سے پھٹنے لگا تو اُس نے سلیم صاحب کا ہاتھ جھٹکتے ،خالدہ بیگم کو دونوں بازوؤں سے پکڑتے جھنجھوڑا جو اپنے ہوش وحواس سے بیگانہ ہو رہی تھیں۔۔۔
”ہاں میں۔۔سچ۔۔بو۔۔ل رہی ہوں ،ہا۔۔ں میں۔۔نے ل۔۔۔ی ہے جان۔۔ہاہاہا میں نے ل۔۔ی ہے میں نے ۔۔ملائکہ کو ۔۔ماردیا۔“ رونے کی بجائے اب ہنستے ہوئے اُنہوں نے ایک بار پھر سے اپنے جرم کا اعتراف کیا تو جنید نے اپنے ہاتھوں سے اپنے بالوں کو جکڑا اور وہیں زمین پر بیٹھتا چلا گیا ایک بے یقینی اور دکھ کی کیفیت اُس کے دل ودماغ پر حاوی ہونے لگی جو سلیم صاحب کے چیخنے اور پکارنے سے بھی نہ ٹوٹی جو خالدہ بیگم کے ناک، منہ اور کانوں سے خون نکالتا دیکھ کر مسلسل اُسے آوازیں لگاتے ڈاکٹر کو بلانے کے لیے دوڑے۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔

ناول تم صرف میری ہوOpowieści tętniące życiem. Odkryj je teraz