تم صرف میری ہو قسط نمبر:16

360 25 0
                                    

ناول: تم صرف میری ہو۔۔۔
مصنف: زارون علی (Zaroon Ali)
قسط نمبر: 16

اپنے غصے کی وجہ سے زارون اُسے بارش میں چھوڑ تو آیا پر پچھلے دس منٹ سے خود بھی بے سکونی سے لاؤنج میں ٹہل رہا تھا۔۔۔ پتا نہیں کیوں غصہ دلاتی ہے مجھے۔ بادلوں کے گرجنے کی آواز پر اُس نے خود کلامی کرتے جلدی سے ٹیرس کا رخ کیا۔۔۔
”ٹھیک ہو تم؟؟“ٹیپ اُس کے منہ سے اُتارتے زارون نے بارش میں آتی تیزی کو دیکھتے جلدی سے اُس کے ہاتھ کھولے جو بادلوں کے گرجنے کے شور اور بارش سے گھبرا کر بالکل چپ اور سہمی سی بیٹھی تھی۔۔۔
”اندر چلو“ پاؤں کھولتے اُس نے نور سے کہا جو ابھی بھی خود میں سیمٹی بیٹھی تھی۔۔ ”اندر چلو،بارش تیز ہو رہی ہے“ اُسے ٹس سے مس نہ ہوتا دیکھ کر زارون نے ہاتھ پکڑتے کہا تو نور نے نظر اُٹھا کر اُسے دیکھا اور نفرت سے اُس کا ہاتھ جھٹکتے اٹھی۔۔۔
”کیا سمجھتے ہو تم خود کو؟؟“ایک زور دار تھپٹر اُس کے گال پر جڑتے نور نے چلاتے ہوئے کہا تو زارون نے ضبط سے اپنی مٹھیاں بند کیں۔۔۔
”کیا لگتا ہے تمہیں میں کوئی تمہاری زر خرید غلام ہوں جیسے تم اس طرح سزائیں دو گے تو وہ برداشت کرتی رہے گی“روتے ہوئے اُس نے بادلوں کی گرج سے بھی زیادہ زور سے چیختے زارون کہ کندھے پر ہاتھ رکھے اُسے پیچھے کرنے کی کوشش کی جو چٹان کی مانند آنکھوں میں بے انتہاء سختی لیے اُسے دیکھ رہا تھا۔۔
”مجھے جانے دو“،اُس کی آنکھوں میں خون اُتارتا دیکھ نور نے اپنی حرکت پر خود کو ملامت کرتے مزاحمت کی تو زارون نے دونوں ہاتھ گرل پر رکھتے اُسے اپنے حصار میں قید کیا۔۔۔
”تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھ پہ ہاتھ اُٹھانے کی“ غصے کے مارے اپنے جبڑوں کو بھنچتے زارون نے اُس کے اوپر جھکتے اُسے نیچے کی جانب جھکنے پر مجبور کیا۔۔۔
”سوری ۔وہ۔۔غلطی سے ۔۔نور نے گرل سے نیچے دیکھتے زارون کو اپنے اوپر مزید جھکتا دیکھ فرار کا کوئی راستہ نہ پا کر وضاحت دی۔۔۔”غلطی ؟؟یہ غلطی نہیں بلکہ اپنے لیے مصیبت کا ایک اور گڑھا کھود لیا ہے تم نے اور تم کیا سمجھتی ہو ؟؟جو تمہارے اپنے تھے جن کے لیے کل سے تم نے مجھے ایک سیکنڈ بھی سکون نہیں لینے دیا وہ اب تک تمہارے لیے رو رہے ہوں گے؟؟ پریشان ہوں گے؟؟؟؟تو یہ تمہاری غلط فہمی ہے کسی کو بھی وہاں نہ پہلے تمہاری فکر تھی نہ اب ہے اور فکر ہوتی تو وہ تمہاری بات سنتے مجھ پہ نہیں تم پہ یقین کرتے“ ،زارون نے اُسے پوری طرح سے ٹیرس پر جھکائے اپنی بات کو جاری رکھا تو نور نے گرنے کے ڈر سے آنکھیں بند کرتے اُس کی شرٹ کو مٹھی میں دبوچا۔۔۔
”میرے اپنے میرے ہی ہیں اور وہ یقین کیسے کر لیتے تمہارے سامنے تمہاری بیٹی سے کوئی نکاح کی بات کرے تو کیا تم بیٹی کو وضاحت کا موقع دو گے؟؟؟“ نور نے اُس کی شرٹ پر گرفت مضبوط کرتے بند آنکھوں سے ڈر سے کانپتے ہوئے سوال کیا تو زارون نے اُس کی کمر پر ہاتھ رکھتے اوپر کیاجو بالکل گرل میں پیوست ہو چکی تھی۔۔۔
”میں کبھی ایسا موقع آنے ہی نہیں دوں گا کہ میری بیٹی کو مجھے صفائی دینا پڑے اور تم اب سے اپنی حد میں رہنا ورنہ میں بھول جاؤں گا کہ مجھے تم سے محبت ہے“ الفاظ کے ساتھ ساتھ اُس نے انگلی اُٹھاتے اُسے وارن کیا اور لمبے ڈگ بھرتے کمرے میں چلا گیا۔۔۔۔
”کاش کے ایسا ہو تا کہ تمہیں پتا چلے کہ تکلیف کیا ہوتی ہے“ بارش میں کھڑے اُس نے آج بلاخوف خطرہ دل سے دعا کی اور چند سیکنڈ وہاں مزید رکنے کے بعد کمرے میں آگئی جہاں اب زارون موجود نہیں تھا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھیگے ہوئے کپڑوں کے ساتھ صوفے سے ٹیک لگا کر بیٹھا وہ کب سے آنکھیں موندے اپنے غصے کو کم کرنے کی کوشش کر رہا تھا پر نور کی حرکت نے آج اُسے مایوسی کے ساتھ ساتھ دکھ اور تکلیف بھی دی تھی وہ چاہ کہ بھی یہ بات دماغ سے نکال نہیں پا رہا تھا کہ زندگی میں پہلی بار کسی نے اُس پر ہاتھ اُٹھایا وہ بھی اُس نے جس سے زندگی میں اُس نے ہر انسان سے زیادہ محبت کی تھی۔۔۔۔
”مجھے سردی لگ رہی ہے“ایک گھنٹہ گزرنے کے بعد بھی جب وہ کمرے میں نہ آیا تو نور نے ہمت کر کہ اپنے بھیگے کپڑوں کی وجہ سے مسلسل آتی چھینکوں سے پریشان ہوتے، لاونج میں اُس کے قریب آتے کہا۔۔۔۔۔
”شاپرز میں کپڑے ہیں چینج کر لو اور کھانا کچن میں رکھا ہے کھا لینا“اُس کی آواز پر آنکھیں کھولتے زارون نے سامنے صوفے پر پڑے شاپرز کی طرف اشارہ کیا۔۔۔۔
”تم نہیں کھاؤ گے؟؟“ نور نے اُس کی آنکھوں میں سرخی دیکھتے ناچاہتے ہوئے بھی سوال کیا۔۔۔۔
”مجھے بھوک نہیں“جواب دیتے وہ اُس کی طرف دیکھے بغیر ہی اُٹھا اور کمرے میں جا کر اپنے کپڑے نکال کر نور کو کچھ بولنے کا موقع دیے بغیر ہی عالیان کے کمرے میں آگیا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زارون ابھی کپڑے تبدیل کر کے واش روم سے باہر آیا تھا کہ ڈور بیل کی آواز پر اُس نے کلاک کی طرف دیکھتے باہر کا رخ کیا۔۔۔”کون ؟؟؟“ نور کو لاؤنج میں نہ پا کر اُس نے دروازے کے پاس جاتے پوچھا۔۔
”شہزاد“ زارون کی آواز سنتے دوسری طرف سے جواب آیا تو اُس نے دروازہ کھولنے کی بجائے کمرے کا رخ کیا جہاں نور شاپرز میں سے اپنے لیے کوئی مناسب سا سوٹ پہننے کے لیے نکال چکی تھی۔۔۔
”میرا دوست آیا ہے باہر مت آنا اور کوئی بھی الٹی سیدھی حرکت کی تو مجھ سے بُرا کوئی نہیں ہو گا“ آگے بڑھ کر ٹیرس کا دروازہ لاک کرتے اُس نے چابی نکالی اور نور کو وارن کرتے کمرے سے باہر آیا۔۔۔”ہوننہ دوست آیا ہے تو میں کون سا باہر آنے لگی تھی اور تم سے بُرا کوئی ہے بھی نہیں“ اُس کے جاتے ہی نور نے آگے بڑھتے دروازہ بند کیا اور کپڑے اُٹھاتے واش روم میں چلی گئی۔۔۔۔۔
زارون نے دروازہ کھولا تو سامنے شہزاد ہاتھ میں اُس کی پرنسس کو لیے کھڑا تھا جو پچھلے چند مہینوں سے اُس کی مصروفیت کی وجہ سے بیمار ہو گئی تھی تب ہی اُس نے اُسے شہزاد کے حوالے کردیا تھا تاکہ وہ اپنے جانوروں کے ساتھ اُسکا بھی خیال رکھ سکے۔۔۔۔
اوو مائی پرنسس،شہزاد کے سلام کا جواب دیتے ہی اُس نے سفید بڑے بالوں والی اُس روئی کی ماند نرم بلی کو گود میں لیاجو زارون سے ناراضگی کے اظہار کے طور پر اُس کی گود سے نکل کر صوفے پہ جا بیٹھی۔۔۔
”اتنی دیر کیوں لگائی؟؟؟“ شہزاد نے ایک نظر لاؤنج میں بکھری چیزوں کو دیکھتے پوچھا۔۔۔۔”لاک کیا تھا دروازہ اور چابی نہیں مل رہی تھی،اس لیے دیر ہو گئی“ صوفے کی جانب بڑھتے اُس نے پرنسس کو دوبارہ اپنی گود میں بیٹھایا۔۔۔ ”کیسی ہو تم اور سو سو ری میری جان میں بہت مصروف تھا تب ہی تمہیں لینے نہیں آسکا“ شہزاد کو بیٹھنے کا اشارہ کرتے وہ اُس  کی نیلی آنکھوں میں اپنے لیے خفگی دیکھ کر وضاحت دیتے اُس کے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا تو وہ فٹ سے اُس کی گود سے نکل کر شہزاد کے پاس چلی گئی۔۔۔
”لگتا ہے زیادہ ہی موڈ خراب ہے“ ،زارون نے اُس کی حرکت پر مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
”ہاں کافی دن میرے پاس رہی نا شائد اس لیے اور یہ یہاں کوئی لڑائی ہوئی ہے کیا؟؟؟“ فرش پر پڑے کانچ کو دیکھتے  شہزاد نے سوال کیا تو زارون نے نفی میں سر ہلایا۔۔۔
”نہیں، بس مجھے غصہ تھا اس لیے چیزوں پہ نکال دیا“ زارون نے لاپروائی سے جھوٹ بولا۔۔۔
”شرم کر لو یار اور کیوں کرتے ہو اتنا غصہ ؟؟؟“شہزاد نے اُسکی بات سنتے ٹوکا۔۔۔
”کرتا نہیں ہوں،بس خود بخود ہی  آجاتا ہے اور تم بتاؤ پرنسس نے زیادہ تنگ تو نہیں کیا؟؟؟“زارون نے اُسکا دھیان بٹانے کے لیے پوچھا ۔۔۔۔”نہٖیں تنگ کیا کرنا تھا اسکی تو سینڈی کے ساتھ کافی اچھی دوستی ہو گئی تھی پر مجھے کچھ وقت کے لیے لندن جانا ہے اس لیے سوچا پرنسس کو خود ہی جا کر اُسکے گھر چھوڑ آؤں۔۔۔”لندن ؟؟خیریت سے جا رہے ہو؟؟“ایک نظر اُس کے قریب  بیٹھی پرنسس پرڈالتے اُس نے کمرے کے بند دروازے کو دیکھا اور کچن میں آگیا۔۔۔”ہاں، بس کچھ بزنس کا کام ہے اور ایک نیو پراجیکٹ کے سلسلہ میں وہاں ایک جگہ بھی دیکھنی ہے“،شہزاد بتاتے ہوئے پرنس کو وہیں بیٹھا کربخود بھی اُٹھ کر کچن میں آگیا۔۔۔
”اچھا واپسی کب تک ہے؟؟“ زارون نے اُسبکے لیے چائے بناتے سوال کیا۔۔۔”شاید ایک دو مہینے لگ جائیں اور یہ عالیان نظر نہیں آرہا ہے؟؟“ شہزاد نے جواب دیتے ایک نظر اُسںکے کمرے کہ بند دروازے پہ ڈالی۔۔۔”کراچی گیا ہے میٹنگ تھی“ زارون نے جلدی جلدی ہاتھ چلاتے اُسے جواب دیا۔۔۔
”یہ آواز کیسی ہے ؟؟کیا تمہارے علاوہ اور بھی کوئی گھر ہے؟“ اُس کی بات سنے بغیر شہزاد نے کمرے سے آتی آواز پر سوال کیا۔۔۔۔
”کونسی آواز؟؟؟مجھے تو کوئی آواز نہیں آرہی“ کندھے اچکاتے اُس نے لاعلمی ظاہر کی تو شہزاد نے بھی اپنا وہم سمجھتے سر جھٹکا اور اُس سے اپنے لندن شروع ہونے والے پراجیکٹ کے بارے میں بات کرنے لگا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ناول تم صرف میری ہوHikayelerin yaşadığı yer. Şimdi keşfedin