تم صرف میری ہو قسط نمبر:19

347 23 0
                                    

ناول: تم صرف میری ہو۔۔
مصنف: زارون علی(Zaroon Ali)
قسط نمبر: 19

زارون کے جاتے ہی نور نے ایک نظر فرش پہ بکھرے کانچ کو دیکھا اور پھر پرنسس کو جو دودھ پینے کے بعد لاؤنج سے کچن میں آچکی تھی۔۔۔
”نو۔۔ پرنسس اندر نہیں آنا باہر جاؤ۔۔۔“ اس سے پہلے کے پرنسس اپنا پاؤں کانچ پہ رکھتی نور نے جلدی سے آگے بڑھتے اُسے اُٹھایا۔۔۔
”ابھی لگ جاتا نا تمہیں تو تمہارے اُس جلاد مالک کو پھر سے مجھے باتیں سنانے کا موقع مل جانا تھا۔۔“اُسے اُٹھا کر اپنے کمرے میں لاتے نور نے زارون کے غصے سے خائف ہوتے پرنسس سے کہا اور اُسے بیڈ پہ بٹھاتے وہی بیٹھنے کا کہتے خود واپس کچن میں آئی تاکہ کانچ اُٹھا سکے۔۔۔
”پتا نہیں کیا سمجھتا ہے خود کو کھڑوس کہیں کا۔۔“ کانچ اُٹھاتے وہ مسلسل زارون کو بُرا بھلا کہہ رہی تھی جو تب سے خود کو کمرے میں بند کیے بیٹھا تھا۔۔۔ ”اُففف اب تو میرا بھی کچھ  کھانے کو دل نہیں کر رہا“ کانچ اُٹھانے کے بعد اُس نے باقی چیزوں کو  اپنی اپنی جگہ رکھ کر ہاتھ دھوئے اور شلیف پر زارون کے بنائے ہوئے انڈوں کو دیکھتے سوچا۔۔۔
”ویسے میں نے بھی غلط بات کی مجھے ایسے اُس کی امی کے بارے میں نہیں کہنا چاہیے تھا۔۔۔“ کمرے کے بند دروازے کو دیکھ کر نور نے خودکلامی کی اور اپنی غلطی سدھارنے کے لیے اُس نے زارون کے بازؤ میں درد کا یاد آتے ہی،فریج سے آٹا نکال کر دو روٹیاں بنائی اور سالن گرم کرتے تمام چیزیں ٹرے میں رکھ کر کمرے میں لے آئی جہاں زارون کے آنے کی بالکل بھی توقع نہیں تھی۔۔۔۔۔۔
”کیا کرنے آئی ہو اب؟“ ایک نظر اُس کی طرف دیکھ کر زارون نے ماتھے پر تیوری ڈالی۔۔۔
”وہ تمہیں بھوک لگی تھی اس لیے میں کھانا لے کر آئی ہوں“ ٹرے سائیڈ ٹیبل پر رکھتے نور نے حتی الامکان خود کو غصہ کرنے سے روکا۔۔
”مجھے بھوک نہیں ہے اور پلیز مجھے اکیلا چھوڑ دو مجھے تم سے کسی قسم کی کوئی بات نہیں کرنی۔۔“ ایک نظر ٹرے میں رکھی چیزوں کو دیکھ کر زارون نے اپنی ناراضگی برقرار رکھتے کہا اور دوبارہ سے اپنے موبائل کی طرف متوجہ ہوا۔۔۔۔
”لیکن پہلے تو تمہیں بہت بھوک لگی تھی اور اب میں کھانا لے آئی ہوں تو تم نخرے کر رہے ہو۔۔“اُس کے سامنے صوفے پر بیٹھتے نور نے نا چاہتے ہوئے بھی نرمی کا مظاہرہ کیا تو زارون کو اُس کی اتنی مہربانی ہضم نہیں ہوئی۔۔۔
”پہلے تھی بھوک اب نہیں ہے اور تمہیں میری فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ، مجھے جب بھوک لگی میں خود بنا کر کھا لوں گا۔۔۔“ نور سے بات کرتے وہ اپنے لہجے کی تلخی کو چاہتے ہوئے بھی کم نہیں کر پایا۔۔۔
”اوکے مجھے بھی کوئی شوق نہیں چڑھا تمہارے لیا کھانے بنانے کا یا تمہاری منتیں کرنے کا، میری طرف سے بھاڑ میں جاؤ تم اور تمہاری بھوک۔۔۔“ زارون کے غصے سے بات کرنے پر نور نے بھی تڑخ کر کہا اور ٹرے وہیں چھوڑ کر اپنے کمرے میں چلی آئی۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”میرا ہی دماغ خراب تھا جو اُس کھڑوس اور بد دماغ انسان کے لیے کھانا لے کر چلی گئی۔۔“ زارون کے انکار پر نور نے کمرے میں آتے ہی اپنی مہربانی پر خود کو کوسا اور ایک نظر پرنسس پہ ڈالتے جو سکون سے سو رہی تھی اُس نے کمرے کا دروازہ بند کیا اور موبائل اُٹھا کر ایف بی آن کی جہاں ابھی بھی آرجے کا کچھ اتاپتا نہیں تھا۔۔۔
”آرجے کہاں ہیں آپ؟“ نور نے پھر سے میسج ٹائپ کرتے سینڈ کیا اور ایف بی آن چھوڑے ہی وضو کرنے واش روم کی جانب بڑھی تاکہ عشاء کی نماز پڑھ سکے۔۔۔۔ وضو کر کہ وہ باہر آئی تو موبائل کی بار بار ہوتی ٹون پر متوجہ ہوتے اُس نے جلدی سے قدم سائیڈ ٹیبل کی جانب بڑھائے اور موبائل اُٹھا کر دیکھا جہاں آرجے کے دس بارہ میسجز موجود تھے جیسے دیکھتے ہی نور کی جان میں جان آئی کہ وہ ٹھیک ہے۔
”کہاں تھے آپ؟میں کب سے میسجز کر رہی تھی؟“ زین کے تمام میسجز پڑھنے کے بعد (جس میں اُس نے نور کی شادی کی وجہ سے میسج نہ کرنے کا بتاتے ،اُسے مبارکباد دی تھی) نور نے غصے اور ناراضگی والے ایموجی لگاتے میسج سینڈ کیا۔۔۔۔۔۔۔
”ناراض مجھے ہونا چاہیے نہ کہ تمہیں،خود تم اپنی شادی میں اتنی مصروف تھی کہ مجھے بھول گئی اور ایک میسج تک نہیں کیا میں تو بیچارا انتظار کرتا ہی رہ گیا کہ کب تم میسج کرو اور کب میں تم سے بات کر وں۔۔۔“ معصومیت بھرے ایموجی لگا کر زین نے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا تو نور کی آنکھیں پانیوں سے بھر گئیں پر وہ چاہ کر بھی زین کو زارون کے بارے میں نہ بتا سکی کیونکہ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اُس کی وجہ سے زین کسی مصبیت میں پھنسے۔۔
”کیا ہوا؟کہاں گئی اب؟“ کچھ دیر اُس کے جواب کا انتظار کرنے کے بعد زین نے پوچھا تو نور نے اپنی آنکھیں صاف کی۔۔۔
”یہی ہوں بس آپ کو اتنا کہنا تھا کہ میں اب دوبارہ آپ سے بات نہیں کروں گی۔۔“ اُس کا میسج پڑھتے ہی نور نے فیصلہ کرنے میں ایک سیکنڈ لگایا۔۔۔
”کیوں؟کیا تمہارے شوہر نے منع کیا ہے؟“
”نہیں ایسی کوئی بات نہیں پر پہلے بات اور تھی پہلے میں کسی کے نکاح میں نہیں تھی اس لیے آپ سے بات کر لیتی تھی پر اب جب کہ میں کسی کے نکاح میں ہوں تو میں اُسے دھوکا نہیں دے سکتی بے شک ہمارے بیچ ایسا ویسا کچھ نہیں ہے پھر بھی اب میرا آپ سے بات کرنا ٹھیک نہیں۔۔۔“نور نے میسج ٹائپ کرتے سینڈ کیا اور دوسری طرف سے جواب کا انتظار کرنے لگی۔۔۔۔
”ٹھیک ہے اور بہت اچھا فیصلہ کیا ہے تم نے بس میں تو یہ چاہتا ہوں کہ تم اپنی زندگی میں ہمیشہ خوش رہو پر پھر بھی اگر کبھی بھی تمہیں میری ضرورت ہو تو تم مجھے میسج کر سکتی ہو۔۔“ زین نے مسکراہٹ والے کچھ ایموجی لگا کر نور کو میسج سینڈ کیا تو اُس کے اپنے اندر بھی ایک سکون کی لہر دوڑ گئی جیسے وہ لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا تھا۔۔۔۔
”ٹھیک ہے آپ بھی اپنا خیال رکھیے گا۔۔۔“ ایک آخری رشتے کو ختم کرتے نور کی ہر امید ختم ہو چکی تھی تب ہی اُس نے زین کی طرف سے کسی جواب کا انتظار کیے بغیر ہی ایف بی ہمیشہ کے لیے لاگ آؤٹ کی اور خاموشی سے اپنی آنکھوں کو بند کیے کچھ دیر سکون سے اپنے فیصلے کے بارے میں سوچنے لگی جو آج پہلی بار اُس نے زارون کے لیے کیا تھا۔۔۔۔
”میں چاہتی تو تم سے بدلہ لینے کے لیے زین سے بات کر سکتی تھی پر میں نے آج تمہاری خاطر اُسے چھوڑا کیونکہ اب  تم جو بھی ہو جیسے بھی ہو میرے شوہر ہو، بے شک نام کے ہی صیح پر جو پاک رشتہ میرا تمہارے ساتھ ہے اسے اللہ نے میرے لیے چنا ہے اس لیے میں اس میں کبھی بھی بد دیانتی نہیں کروں گی، چاہے میں ابھی تمہیں خود پہ کوئی حق نہ دوں چاہے، میں جنتا مرضی تم سے لڑوں پر زندگی میں کبھی بھی میں کسی اور کے ساتھ کوئی رشتہ رکھ کر نہ تو میں اپنی ذات کو گندہ کروں گی اور نہ ہی اس آڑ میں تم سے کوئی بدلہ لوں گی ،میں نے آج تمام فیصلہ اپنے رب پر چھوڑ دیے ہیں پر جو تم نے کیا؟؟ میں چاہ کہ بھی  تمہیں معاف نہیں کر سکتی۔۔۔“ زارون کو تصور میں لائے اُس نے کہا اور ایک لمبی سانس لیتے اپنے آپ کو پرسکون کرنے کی کوشش کی اور کلاک پر گیارہ بجتے دیکھ اُٹھ کر نماز پڑھنے لگی۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دعا نے کمرہ صاف کرنے کے بعد ملائکہ کو وہاں لا کر بٹھایا اور خود عمر کے بُلانے پر اُس کی بات سننے چلی گئی تو ملائکہ نے اُس کے جاتے ہی کمرے کا جائزہ لیا جس میں کچھ دیر پہلے سب کچھ بکھرا ہوا تھا۔۔۔۔
”پتا نہیں کیا سمجھتی ہے خود کویہ عورت، لیکن میرا نام بھی ملائکہ ہے ناک سے لکیریں نہ نکلوا دی تو میرا نام بدل دینا۔۔۔۔“ خود کلامی کرتے اُس نے اپنی اور اپنے ماں باپ کی بے عزتی کا بدلہ لینے کا ارادہ کیا اور دروازہ کھلنے کی آواز پر جلدی سے سر جھکاتے بیٹھ گئی۔۔۔
”تمہیں کیا لگتا ہے؟کہ تم اس گھر میں بیاہ کر آگئی ہو تو خالدہ بیگم سے جیت جاؤ گی؟“جنید کی بجائے زنانہ آواز پر اُس نے سر اُٹھا کر دیکھا تو سامنے خالدہ بیگم اپنے پورے جلال کے ساتھ کھڑی اُسے گھور رہی تھیں۔۔۔۔
”تو آپ کو کیا لگتا ہے ملائکہ ہارنے کے لیے پیدا ہوئی ہے؟“ جواب کی بجائے اُس نے نڈر ہو کر اُن کے سامنے کھڑے ہوتے سوال کیا تو خالدہ بیگم اُس معصوم نظر آنے والی لڑکی کی ڈیڑھ گز کی زبان دیکھ کر تھوڑا بوکھلائی پر جلدی ہی خود پر قابو پاتے پھر سے گویا ہوئیں۔۔۔۔
”اووہ مطلب کم ذات ہونے کے ساتھ ساتھ تم کافی بد زبان بھی ہو۔۔۔۔“ایک نظر اُس کے ماتھے پر پڑتے بل دیکھ کر خالدہ بیگم نے اپنی کمر پر ہاتھ رکھتے طنز کیا۔۔۔
”جی بالکل لیکن میری بد زبانی کا لیول آپ سے تھوڑا نیچے ہی ہے ساسو ماں میں کوشش کروں گی کہ آپ کے ساتھ رہ کہ یہ لیول آپ کے مطابق کرسکوں۔۔“ ملائکہ نے چہرے پر معصومیت سجاۓ جتنے آرام سے خالدہ بیگم کو آگ لگائی وہ اُتنی ہی تیزی سے اُس کے اوپر جھپٹی۔۔۔
”میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گی مجھ سے زبان چلاتی ہے۔“اپنے دونوں ہاتھ اُس کے گلے کی جانب بڑھاتے اُنہوں نے چیختے ہوئے کہا تو ملائکہ نے اپنے بچاؤ کے لیے اُنہیں پیچھے کی جانب دھکا دیا۔۔۔
”خبردار اگر دوبارہ مجھ پر ہاتھ اُٹھایا یا مجھے پر یوں چلائی تو میں سارے لحاظ بھول کر آپ کو میں آپ کی اوقات یاد دلانے میں ایک سیکنڈ نہیں لگاؤں گی۔“ انگلی اُٹھاتے خالدہ بیگم کو سختی سے وارن کرتے وہ جلدی سے آنکھوں میں آنسو لیے جنید کی جانب بڑھی جو ابھی ابھی شور کی آواز پر کمرے میں آیا تھا۔۔۔۔
”جنید دیکھو آنٹی مجھے مارنے کی کوشش کر رہی ہیں۔۔“ ملائکہ نے باقاعدہ روتے ہوئے بتایا تو جنید نے حیرت سے خالدہ بیگم کی طرف دیکھا جو اُس کی لڑکی کی ہوشیاری پر خود بھی حیران تھیں۔۔۔۔
”امی کیا ہو گیا ہے آپ کو؟کیوں آپ ملائکہ کو مار رہی تھیں۔“ جنید نے اُسے خود سے الگ کرتے خالدہ بیگم کے قریب آتے پوچھا تو اُنہوں نے نفی میں سر ہلایا۔۔۔
”میں ۔۔نے اسے کچھ ۔۔نہیں کہا بلکہ یہ خود۔۔۔“ خالدہ بیگم نے وضاحت دینی چاہی مگر اُس سے پہلے ہی جنید نے ہاتھ اُٹھاتے اُنہیں روکا۔۔۔۔
”پلیز امی اب مزید کوئی بات کر کہ خود کو میری نظروں میں اور مت گرائیے گا اور اگر آپ کو ملائکہ پسند نہیں تو مہربانی ہو گی اس سے دور رہیں۔“ہاتھ جوڑتے ہوۓ اُس نے خالدہ بیگم سے کہا جن کی نظریں پیچھے کھڑی ملائکہ پر تھیں جو جنید کی باتوں پر مسکراتے ہوئے افسوس میں سر ہلاتے اُن کو مزید تیش دلا چکی تھی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنید کی بات سنتے اور ملائکہ کے سامنے اپنی ایک نہ چلتی دیکھ خالدہ بیگم کچھ کہے بغیر ہی غصے میں بھری اپنے کمرے میں آگئیں جہاں سلیم صاحب کپڑے تبدیل کرنے کے بعد اب کچھ دیر آرام کی غرض سے لیٹے تھے۔۔۔
”کہاں تھی تم ؟“ اُن کے دھڑم سے دروازہ بند کرنے پر اُنہوں نے آنکھیں کھولتے سوال کیا۔۔۔۔
”جہنم میں گئی تھی۔۔“غصے سے تلملاتے اُن کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ ہر چیز کو آگ لگا دیں۔۔۔
”تو پھر واپس کیوں آئی ہو وہیں رک جانا تھا۔۔۔“ سلیم صاحب نے اُن کے غصے کی پروا کیے بغیر بات کو مذاق کا رنگ دیا تو خالدہ بیگم نے کھا جانے والی نظروں سے اُنہیں دیکھا۔۔۔۔
”بہت باتیں آگئی ہیں آپکو اور میں نے کہا تھا نا جو فیصلہ کرنا ہے سوچ سمجھ کر کرئیے گا پر نہیں آپکو تو بس بیٹے کی خواہش پوری کرنے کی پڑی تھی اور بڑا کہہ رہے تھے آپ کہ بہت اچھی ہے ملائکہ بہت معصوم اُس کے منہ میں تو زبان ہی نہیں اب میں اگر آپ کو آپ کی پیاری بہو کے کرتوت بتا دوں تو اپنے بیٹے کی طرح آپ بھی میری بات کا یقین نہیں کریں گے۔۔“ مسلسل کمرے میں چکر لگاتے اُنہوں نے اپنے نصیب کو کوسا۔۔۔
”اچھا بس کرو اور اتنا غصہ تمہاری صحت کے لیے اچھا نہیں اس لیے سکون سے بیٹھ جاؤ جو ہونا تھا وہ تو اب ہو گیا۔“سلیم صاحب نے اُنہیں سمجھانے کی کوشش کی پراُن کی بات سنتے ہی خالدہ بیگم کو پتنگے لگ گئے ۔۔۔
”میں کبھی بھی سکون سے نہیں بیٹھوں گی اور جب تک یہ لڑکی میرے گھر میں ہے میں اُسے بھی سکون نہیں لینے دوں گی۔۔۔“،غصے سے چیختے اُنہوں نے سلیم صاحب کا ہاتھ جھٹکا اور اُٹھ کر باہر صحن میں چلی گئیں۔۔۔۔
”اُففف یہ عورت کبھی نہیں سدھرے گی۔“ اُن کے جاتے ہی سلیم صاحب نے سوچا اور تھکاوٹ کی وجہ سے مزید کسی بحث میں پڑنے کی بجائے سکون سے کمبل اوڑھے سونے کی کوشش کرنے لگے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔

ناول تم صرف میری ہوDonde viven las historias. Descúbrelo ahora