تم صرف میری ہو قسط نمبر:35

328 20 0
                                    

ناول: تم صرف میری ہو۔۔
مصنف: زارون علی (Zaroon Ali)
قسط نمبر: 35

زین کا فون سنتے ہی تہمینہ بیگم سڑھیاں چڑھتے اوپر آگئیں تاکہ شبنم کو نور کو نیچے لانے سے منع کر سکیں۔۔۔۔
”باجی دیکھیں اس نے کیا کیا“،شبنم نے تہمینہ بیگم کو کمرے میں داخل ہوتا دیکھ کر نور کی شکایت کی جس نے سارا میک اپ صاف کرنے کے ساتھ ساتھ تمام جیولری اُتار کر کمرے کے کونے کونے میں پھینک دی تھی۔۔۔۔
”میری اتنی مہنگی جیولری کا ستیاناس کر دیا“،دونوں ہاتھ چہرے پر رکھے اُنہوں نے ایک نظر فرش پر بکھرے پڑے اپنے سونے کے سیٹ پر ڈالی اور پھر کھا جانے والی نظروں سے نور کو دیکھا جو بڑے سکون سے اُس کی کسی بھی بات پر غور کیے بغیر دوپٹے کو اچھے سے اپنے گرد پھیلا کر اوڑھ چکی تھی۔۔۔۔
”کیا کیا ہے یہ تم نے؟؟تمہاری جراءت کیسے ہوئی تہمینہ بیگم کی چیزوں کو یوں پاؤں میں روندنے کی۔۔“ غصے سے پاگل ہوتے وہ اُس کے اوپر جھپٹی جو اس حملہ کے لیے بالکل بھی تیار نہ تھی۔۔
”منہ توڑ دوں گی میں تیرا“،دونوں ہاتھوں سے اُس کے گالوں پر تھپڑوں کی بارش کرتے وہ کچھ سیکنڈز کے لیے زین کے بارے میں بالکل بھول چکی تھی۔۔۔۔
”منہ توڑنا مجھے بھی آتا ہے اس لیے اپنے ہاتھ اور زبان کنٹرول میں رکھو“ ،اُس کا ہاتھ پکڑتے نور نے غصے اور تکلیف کے ملے جلے تاثرات لیے تہمینہ بیگم کو ایک زور دار دھکا دیا جس سے اس کا سر شبنم کے بروقت سنبھالنے سے دیوار میں لگتے لگتے بچا۔۔۔۔
”اگر زین صاحب کے آنے کا خیال نہ ہوتا نا مجھے تو تم  دیکھتی کہ تہمینہ بیگم کس قہر کا نام ہے“،غصے سے پاگل ہوتے اُنہوں نے پھر سے آگے بڑھتے نور کے جبڑوں کو سختی سے اپنے ہاتھ میں دبوچا تو تکلیف کی شدت سے آنسو آنکھوں سے نکلتے اُس کے گالوں پہ بہہ نکلے۔۔۔۔۔
”آج جتنی زبان چلانی ہے نا چلا لے جتنا اکڑنا ہے اکڑ لو کیوں کہ کل سورج نکلنے کے ساتھ ہی زین صاحب تجھے استعمال کر کہ میرے حوالے کر دیں گے پھر تو ساری زندگی میرے شر سے پناہ مانگے گی پر تجھے بچانے والا کوئی نہیں ہوگا،پھر تہمینہ بیگم دل کھول کر تجھ سے تیری ساری بدتمیزیوں کا بدلہ لے گی“،دانت پیستے اُس نے اپنی بات مکمل کی اور اُسے پیچھے بیڈ پر دھکا دیا جس کا چہر ہ تہمینہ بیگم کے بھاری ہاتھ کی انگلیوں سے بالکل سرخ ہوچکا تھا۔۔۔۔
”اس کا دھیان رکھو بلکہ یہاں اس کے پاس ہی رہو جب تک زین صاحب نہیں آجاتے“،شبنم کو حکم دیتے اُس نے ایک تمسخرانہ نظر نور پہ ڈالی (جو اپنے ہونٹ پر ہاتھ لگاتے اُس سے نکلتے خون کو صاف کر رہی تھی )اور کمرے سے نکل گئی۔۔۔
”زین میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی کبھی بھی نہیں اور نہ ہی زارون تمہیں معاف کرے گا“،سر گھٹنوں میں چھپائے نور نے سوچا اور ایک بار پھر سے روتے ہوئے احمد کے جلد آنے کی دعا کرنے لگی جو اُسے آس دلانے کے بعد کہیں غائب ہو گیا تھا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
سارہ نے کمرے سے نکلتے ہی اپنا رخ سکندر صاحب کے کمرے کی جانب کیا تاکہ اُن سے اپنے رویے کی معافی مانگ سکے جو پچھلے چند دنوں سے وہ اُن کے ساتھ اختیار کیے ہوئے تھی۔۔۔ دستک دیتے وہ اندر داخل ہوئی تو حاشر بھی وہیں موجود تھا۔۔۔
”سارہ تم یہاں کیوں آئی ہو؟؟ میں نے کہا تھا نا کہ آرام کرو“،حاشر جو سکندر صاحب کو سوپ پلا رہا تھا تاکہ اُنہیں میڈیسن دے سکے جو اُنہوں نے سارہ کی پریشانی میں راحیل کے لاکھ منتیں کرنے پر بھی نہیں کھائی تھیں۔۔۔۔
”ہاں،وہ میں ماموں سے بات کرنے آئی تھی“،ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں پیوست کرتے اُس نے اپنے آنے کا مقصد بتایا۔۔۔۔
”بات صبح بھی ہو سکتی ہے اس لیے تم خاموشی سے اپنے کمرے میں جاؤ اور آرام کرو“ ،پیالہ ٹیبل پر رکھتے اُس نے سکندر صاحب کا منہ صاف کیا تو اُنہوں نے اشارے سے سارہ کو قریب بلایا جو حاشرکے بار بار کہنے پر جانے کا ارادہ رکھتی تھی۔۔۔۔
”ہ۔۔ا۔۔ں کہ۔۔و۔۔“،سکندر صاحب نے اپنی لرزتی ہوئی زبان کو حرکت دی تو سارہ حاشر کے اُٹھنے پر اُن کے قریب ہی بیڈ پر بیٹھ گئی۔۔۔۔
”وہ ماموں میں آپ سے معافی مانگنے آئی تھی“،نظریں جھکائے اُس نے سکندر صاحب کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں
پکڑا۔۔۔
”ک۔۔س۔۔چی۔ز۔ک۔ی۔۔مع۔۔۔ف۔۔ی۔۔“،ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں اُنہوں نے سوال کیا تو سارہ نے جواب دینے کی بجائے ایک دم سے اُن کا ہاتھ اپنی آنکھوں سے لگاتے رونا شروع کر دیاجس پر سکندر صاحب کے ساتھ ساتھ حاشر نے بھی حیرت سے اُسے دیکھا۔۔۔
”کیا ہوا؟؟کچھ ہوا ہے کیا؟؟میں شام سے دیکھ رہا ہوں کہ تم ایسے ہی پریشان ہو“،حاشر نے کرسی کھینچ کر اُس کے قریب بیٹھتے کب سے اپنے ذہن میں گردش کرتے سوال کو زبان پر لاتے پوچھا۔۔۔۔
”نہیں، کچھ نہیں ہوا بس میری آنکھیں کھل گئیں ہیں۔ ماموں پلیز مجھے معاف کر دیں میں نے پچھلے دنوں میں آپ کے ساتھ بہت بدتمیزی کی۔ میں کچھ دیر کے لیے اپنا اصل بھول کر سود کے نشے میں یہ سمجھ بیٹھی کہ سود مجھے نفع دے گا پر درحقیقت سود تو انسان کی نسلوں تک کو کھوکھلا کر دیتا ہے اور اس دنیا میں بھی رسوائی کا سبب بنتا ہے اور آخرت میں بھی“،نم آواز میں کہتے اُس نے آہٹ پر دروازے کی جانب دیکھا جہاں سے فریحہ بیگم اندر داخل ہوئیں۔۔۔۔
”پھوپھو کیا ہوا آپ کو اور یہ سارہ کیسی باتیں کر رہی ہے؟؟کیا ہے یہ سب؟؟“حاشر جو تمام باتوں سے انجان تھا اُس نے فریحہ بیگم کی روئی ہوئی سرخ آنکھوں کو دیکھتے ہوئے سوال کیا۔۔۔
”ٹھیک ہوں میں اور سارہ بالکل ٹھیک کہہ رہی ہے میں نے آج تک اسے اپنوں کی بجائے پرائے لوگوں کواہمیت دینا سکھایا اسے یہ بتایا کہ یہ رشتے کچھ نہیں ہوتےصرف دولت ہی سب کچھ ہے کیوں کہ اپنی زندگی کے ایک تلخ تجربے سے مجھے یہ احساس ہوا کہ رشتوں کو جتنی مرضی اہمیت دے لو پر وہ کبھی بھی آپ کے نہیں بنتے جیسے کاشف نے طلاق دیتے ایک بار بھی میرے یا سارہ کے بارے میں نہیں سوچا اُس کے سر پر نئی بیوی کی دولت کا ایسا نشہ چڑھا تھا کہ اُس نے میری سات سال کی ریاضتوں کو یوں خاک میں ملا دیا جیسے وہ سال نہیں بلکہ کچھ پل ہوں،تب ہی میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ بس مجھے دولت چاہیے تاکہ میں اور میری بیٹی کبھی بھی کسی رشتے کی محتاج نہ ہوں پر میں یہ بھول گئی کہ اس دولت کے چکر میں وہ وہی سب دوہرا رہی ہوں جو کاشف نے کیا اُس نے میری زندگی برباد کی اور میں اب اپنے ہاتھوں سے اپنی بیٹی کی زندگی برباد کرنے چلی تھی۔ میں اپنے ساتھ کیے جانے والے ظلم کا بدلہ اپنی ہی بیٹی سے چکانے کی سوچ میں لگی یہ تک فرموش کر گئی کہ نقصان پھر بھی میرا ہی ہوگا“،گہری سانس لیتے وہ سکندر صاحب کے پاؤں کے قریب بیٹھ گئیں جو حیرت سے کبھی سارہ کو اور کبھی فریحہ بیگم کو دیکھ رہے تھے۔۔۔۔
”بھائی صاحب مجھے معاف کر دیں میں نے آپ کو بھی سب جیسا سمجھا حالانکہ آپ نے ساری زندگی سارہ کو اپنے بچوں پر فوقیت دی مجھے گھر کا سربراہ بنایا اور کبھی یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ میں یا سارہ آپ پر بوجھ ہیں“،آنکھوں میں آنسو لیے اُنہوں نے اپنے ہاتھ سکندر صاحب کے پاؤں پر رکھے تو اُنہوں نے جلدی سے نفی میں سر ہلایا۔۔۔۔
”پھوپھو کیا کررہی ہیں آپ؟؟ پلیز ایسا مت کریں اور اگر ابو نے آپ کا خیال کیا تو یہ اُن کا فرض تھا وہ بھائی ہیں آپ کے اور آپ نے بھی تو ساری زندگی ہمیں سنبھالا کبھی ماں کی کمی محسوس نہیں ہونے دی اس لیے پلیز آپ ایسا کر کہ ہمیں شرمندہ مت کریں“،حاشر نے اُن کے دونوں ہاتھ ہٹائے تو فریحہ بیگم اُس کے ساتھ لگتے پھوٹ پھوٹ کر روتے اپنے تمام بُرے رویوں کی معافی مانگنے لگیں۔۔۔
”کوئی بات نہیں پھوپھو آپ پلیز پریشان نہ ہوں اور چپ کر جائیں دیکھیں ابو بھی فکر مند ہو رہے ہیں“،حاشر نے اُنہیں خود سے الگ کرتے سکندر صاحب کی جانب متوجہ کروایا جو اشارہ سے اُنہیں اپنے پاس بُلا رہے تھے۔۔۔۔
”مجھے معاف کر دیں بھائی صاحب اگر امی ابو بھی ہوتے تو شاید مجھے اور سارہ کو اتنی سہولیات اتنا پیار نہ دیتے جتنا آپ نے دیا“،اُن کے سینے پر سر رکھتے آج جلن اورحسد سے ہٹ کر اُنہوں نے لہجے میں بہنوں والا مان سموتے کہا تو سکندر صاحب نے آنکھوں میں نمی لیے اپنا ہاتھ اُٹھ کر اُن کے سر پر رکھا اور سارہ کو اشارہ سے اپنے پاس بُلایا جو تب سے رو رہی تھی۔۔۔۔
”پلیز ماموں ہمیں معاف کر دیں“سارہ نے دوسری سائیڈ پر جاتے اپنا سر اُن کے سینے پر رکھتے کہا تو سکندر صاحب نے آنکھوں میں نمی لیے حاشر کو دیکھا جو منہ بناتے خود ہی اُن کے پاس آچکا تھا جو اب اپنی ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں سارہ کو تسلی دے رہے تھے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تہمینہ بیگم نے نیچے آتے ہی پروگرام کی وجہ سے زین کو کال کرتے پچھلے دروازے سے اندر آنے کا کہہ دیا جو وہاں پہنچ چکا تھا۔۔۔
”ٹھیک ہے میں بس پہنچ گیا ہوں بس تم دھیان رکھنا کوئی اوپر نہ آئے“ ،اُس کی بات سنتے زین نے اپنی گاڑی پچھلے دروازے سے اندر لاکر گراج میں کھڑی کی۔۔۔۔۔۔
”جی صاحب آپ بے فکر ہو کر اپنا کام کریں کوئی نہیں آئے گا“،شیرے کو اشارے سے اپنے قریب بلاتے اُس نے زین کو تسلی دی اور اُسے اندر داخل ہوتا دیکھ کر موبائل کان سے ہٹایا۔۔۔۔
”زہے نصیب ،شکر ہے زین صاحب آپ کی شکل دیکھنے کو ملی“،دانتوں کی نمائش کرتے اُس نے اک ادا سے اُس کے سامنے آتے کہا جو اپنے دھیان میں اندر آرہا تھا۔۔۔
”پر مجھے تمہاری شکل میں کوئی دلچسپی نہیں اس لیے میرا وقت ضائع کرنے کی بجائے جو کہا ہے وہ کرو“،چند ہزار کے نوٹ اُس کے سامنے کرتے زین نے غصے سے کہا۔۔۔
”صاحب جی آپ تو ناراض ہی ہوگئے میں تو بس یونہی۔۔۔“ ،اپنی بے عزتی پر لال ہوتے تہمینہ بیگم نے وضاحت دی۔۔۔
”بس میں نے کہا نا میرا وقت ضائع مت کرو اور کہاں ہے نور ؟؟“اُسے مزید کچھ بولنے کے لیے منہ کھولتا دیکھ کر اُس نے ٹوکا اور مطلب کی بات پر آتے سوال کیا۔۔۔
”جی اوپر ہے۔ شیرے، صاحب کو اوپر اُس نئی لڑکی کے پاس چھوڑ آؤ“ ،بدمزہ ہوتے اُس نے شیرے سے کہا جو اثبات میں سر ہلاتے زین کو گھر کے قدرے ویران حصے کی جانب لے گیا۔۔۔۔۔۔
نور کے رونے کا تسلسل شبنم کی آواز پہ ٹوٹا جو اُسے زین کے آنے کا بتاتے کمرے سے باہر نکل چکی تھی۔۔۔۔
”میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گی اس نے میری زندگی برباد کی میں اسے جان سے مار دوں گی“، ڈرنے کی بجائے نور نے جلدی سے اپنے آنسو صاف کیے اور کسی چیز کی تلاش میں ادھر اُدھر نظر دوڑائی تو بیڈ کے نیچے اُسے ایک لوہے کا راڈ نظر آیا جیسے اُٹھاتے اُس نے مضبوطی سے اپنے ہاتھ میں پکڑا اور دروازے کے پیچھے جا کھڑی ہوئی جو شبنم نے ٹھیک دو منٹ بعد دوبارہ کھُولا جس سے اندر آتے شخص کا چہرہ دیکھتے اُس کے ہاتھ میں موجود راڈ لرزا۔۔۔
”کہاں ہو سویٹ ہارٹ۔۔۔؟؟“ایک نظر خالی کمرے پہ ڈالتے وہ مڑا تو نور کو دروازے کے پاس گم صم سا حیرت سے ہونقوں کی طرح منہ کھولے اپنی طرف متوجہ پایا۔۔۔
”تو تم یہاں ہو،اور یہ راڈ۔۔۔۔ لگتا ہے مجھے مارنے کا ارادہ رکھتی ہو“،آنکھوں میں کسی بھی قسم کی شرمندگی کا تاثر لائے بغیر اُس نے راڈ پکڑ کر دور پھینکا۔۔۔
”تمہیں کیا لگا تھا؟؟؟تم اتنی آسانی سے مجھ سے بچ جاؤ گی؟؟زین تمہیں اتنی آسانی سے اپنی زندگی سے جانے دے گا؟؟؟“قدم آگے بڑھاتے اُس نے نور کو چار قدم پیچھے ہونے پر مجبور کیا۔۔۔۔
”ت۔۔م۔۔۔ن۔۔ہیں ت۔۔م ز۔۔ین نہیں ہو تم ۔۔تو۔۔“ اس سے پہلے کے نور مزید کچھ بولتی اُس نے آگے بڑھتے اُس کے ہونٹوں پر اپنا ہاتھ رکھا۔۔۔۔
”نہ بے بی آج کوئی بات نہیں، آج صرف تم اور میں اور یہ رات“ ،اپنا چہرہ اُس کے چہرے کے قریب کرتے اُس نے اپنی بات مکمل کرتے اُس پہ جھکنا چاہا مگر اُس سے پہلے ہی نور نے اپنے دونوں ہاتھ اُس کے سینے پر رکھتے اُسے پیچھے کی جانب دھکیلا۔۔۔۔
”میرے قریب مت آنا میں تمہارا منہ توڑ دوں گی دروازے کی جانب بڑھتے اُس نے اُسے کھولتے باہر نکالنا چاہا مگر اُس سے پہلے ہی زین نے آگے بڑھتے نور کو بازؤں سے پکڑتے بیڈ پر دھکا دیا اور دروازہ لاک کرتے زمین سے لوہے کا راڈ اُٹھائے اُس کی جانب بڑھا جس کی آنکھوں میں اب وحشت آچکی تھی۔۔۔
”میں نے کہا نا مجھ سے دور رہو“ آنکھوں میں خوف لیا اُس نے راڈ کو دیکھا۔۔۔۔
”نہیں میری جان آج یہ ناممکن سی بات ہے کیوں کہ میں اس رات کے لیے پہلے ہی کافی انتظار کر چکا ہوں زین نے آنکھوں میں سرخی لیے اُس کا پاؤ ں پکڑے اپنے جانب کھینچا تو دوپٹہ اُس کے ہاتھ سے چھوٹتے بے ترتیب ہوا اور ایک چیخ اُس کے منہ سے نکلی جیسے زین نے اُس کے منہ پر ہاتھ رکھتے روکا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”یہ زارون پتا نہیں کہاں رہ گیا ہے۔۔۔“ احمد نے سہیل کوسہارا دیتے گاڑی کی پچھلی سیٹ پر لٹایا جو نشے سے بالکل مدہوش ہو چکا تھا۔۔۔
”کہا بھی تھا جلدی آ جانا۔۔“ دروازہ بند کرتے اُس نے اپنا موبائل نکالتے زارون کا نمبر ڈائل کیا۔۔۔
”یار کہاں ہو تم ؟؟میں نے کہا بھی تھا جلدی پہنچ جانا“،دوسری طرف ہیلو کی آواز سنتے ہی احمد نے سوال کیا۔۔۔
”پہنچ گیا بس اُس؛کے قریب بریک لگاتے زارون نے موبائل ڈیش بورڈ پر پھینکا اور اپنی گن نکالتے باہر آیا۔۔۔
”کہاں ہے نور؟؟؟“زارون نے اُترتے ہی پوچھا تو احمد نے اپنے پیچھے موجود کوٹھی کی جانب اشارہ کیا جو کہیں سے بھی کسی شریف گھرانے کی رہائش نہیں لگ رہی تھی۔۔۔ ”کونسی جگہ ہے یہ؟؟“زارون نے اندر کی جانب بڑھتے سوال کیا پر احمد کے جواب دینے سے پہلے ہی وہاں موجود لوگ اور عورتیں اُسے اُس کی بات کا جواب دے گئیں۔۔۔
”نور یہاں ہے؟“؟زارون نے رک کر احمد کی جانب دیکھا۔۔۔
”ہاں وہاں اوپر۔۔۔۔“،احمد نے شرمندگی سے سر جھکایا تو زارون کی آنکھوں میں خون اُترنے لگا اُس نے احمد کو اشارے سے چلنے کا کہا تو وہ سر جھکائے جلدی سے اندر کی جانب بڑھا اور تہمینہ بیگم بھی اُن کو اندر کی جانب جاتا دیکھ کر اپنے بندوں کو لیے اُن کے پیچھے لپکیں۔۔۔۔
”صاحب پروگرام وہاں چل رہا ہے اندر نہیں، اور یہ ہمارا گھر ہے یہاں کوئی بھی میری اجازت کے بغیر نہیں جاسکتا“،احمد کو دیکھتے ہی وہ سمجھ گئیں تھیں کہ معاملہ اُس کا ہی پھیلایا ہوا ہے کیوں کہ وہ جب سے نیچے آیا تھا تہمینہ بیگم کو وہ کچھ بے چین سا لگا۔۔۔۔
”میرے راستے سے ہٹ جاؤ۔۔۔“لہجے میں سختی لیے زارون نے سامنے کھڑی عورت کا لحاظ کیا اور ہاتھ کی بجائے زبان سے بات کی۔۔۔۔
”کیوں صاحب ؟؟میں کیوں ہٹوں یہ میرا گھر ہے یہاں سب میری مرضی سے ہو گا“ ،آنکھوں میں تکبر لیے وہ بولی تو زارون نے گارڈز کو اشارے کیا جو تہمینہ بیگم اور اُس کے بندوں کو قابو میں کر تے ایک سائیڈ پر لے گئے تو زارون احمد کے پیچھے اُس حصے کی جانب بڑھا جہاں نور کو رکھا گیا تھا۔۔۔
”اس کمرے میں تھی۔۔۔“ ،احمد نے اوپر آتے اشارہ کیا اور ساتھ ہی آگے بڑھتے کنڈی کھولنے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو دروازہ اندر سے بند تھا۔۔۔
”پیچھے ہٹو۔۔۔“،زارون نے احمد کو مزید کسی بات کا موقع دیے بغیر ہی دروازے کو ایک زور دار دھکا مارا تو وہ پرانے اور بوسید ہونے کی وجہ سے فورا کھل گیا۔۔۔
ع۔لیان ؟؟سامنے موجود شخص کو دیکھ کر جہاں زارون کی زبان ساکت ہوئی وہیں احمد نے اُس کے پیچھے کمرے میں داخل ہوتے حیرت سے اُس کا نام پکارا جو اُن دونوں کو وہاں دیکھ کر ہکا بکا سا رہ گیا۔۔۔۔۔
”تمہاری ہمت کیسے ہوئی یہ سب کرنے کی“ دوستی کا کوئی بھی لحاظ کیے بغیر زارون نے آگے بڑھتے اُسے گریبان سے پکڑا اور احمد نے بیڈ سے نیچے پڑا نور کا دوپٹہ اُٹھا کے اُس کو تھامایا جسے اوڑھتے اُس نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ آج احمد کی وجہ سے اُس کی عزت بچ گئی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے

جملہ حقوق بحق راہ ادب رائٹرز ایسوسی ایشن آف پاکستان و مصنف محفوظ ہیں۔۔

https://www.facebook.com/RjZaroonAli/

ناول تم صرف میری ہوHikayelerin yaşadığı yer. Şimdi keşfedin