تم صرف میری ہو قسط نمبر:24

349 21 0
                                    

ناول: تم صرف میری ہو...
مصنف: زارون علی(Zaroon Ali)
قسط نمبر: 24

زارون کی آنکھ لگے ابھی کچھ دیر ہی گزری تھی کہ اُس کے کانوں میں نور کے بڑابڑانے کی آواز پڑی تب ہی اُس نے سر اُٹھاتے اُسے دیکھا جو شاید نیند میں ڈر جانے کی وجہ سے مسلسل بول رہی تھی۔
”نور، میری طرف کروٹ لے لو“،اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے زارون نے ہلکا سا ہلایا تو اُس نے ڈرسے چیختے ہوئے آنکھیں کھولیں۔
”کیاہوا؟“سردی کے باوجود بھی اُس کے چہرے پر پسینہ دیکھ کر زارون نے نرمی سے پوچھا تو نور نے اُسے جواب دینے کی بجائے اپنے اور اُس کے درمیان موجود تھوڑا سا فاصلہ ختم کرنے میں ایک سیکنڈ لگایا اور کچھ بھی سوچے سمجھے بغیر اُس کے سینے سے جا لگی۔
”زارون وہ مجھے مار دے گا پلیز تم مجھے چھوڑ کر مت جانا“،زین کو خواب میں دیکھ کر وہ ایک بار پھر سے ڈر گئی تب ہی تحفظ کے لیے وہ اپنے ساتھ لیٹے اُس شخص کا سہارا چاہتی تھی جس کی زندگی میں اُس نے زہر گھولنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔
”کوئی تمہیں کچھ نہیں کہے گا، میں پاس ہوں تمہارے اس لیے ڈرو مت اور سکون سے سو جاؤ“،اُسے ایک دم سے اپنے اتنے قریب دیکھ کر زارون بالکل بوکھلا سا گیا تھا پر جلد ہی اپنے آپ پر قابو پاتے اُس نے نور کو تسلی دی جو اب خوف سے رونے لگی تھی۔
”نہیں،وہ مجھے مار دے گا۔ وہ ہم دونوں سے بدلہ لینا چاہتا ہے اور وہ مجھے بھی میری غلطی کی سزا دے گا“،کچھ کہتے کہتے اُس نے اپنی زبان کو بریک لگائی تو زارون نے اُسے خود سے الگ کرتے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
”کس غلطی کی سزا اور ہم سے کون بدلہ لینا چاہتا ہے؟کون تھا وہ؟ تم نے اُسے دیکھا تھا کیا اور اُ س نے تم سے یہ سب کہا؟ پلیز نور مجھے سب سچ بتانا“،پہلے تو زارون کو لگا تھا کہ ابھی نور سے یہ سب پوچھنا اُسے دوبارہ سے وہ سب یاد دلانے اور تکلیف دینے کے مترداف ہو گا تب ہی وہ اُس دن سے خاموشی اختیار کیے اُس کے سنبھلنے کا انتظار کر رہا تھا پر اب نور کے منہ سے یہ سب سُن کر اُسے پوچھنا پڑا۔۔
”پ۔۔تا۔۔ن۔۔نہیں۔۔مجھے ۔۔کہ ۔۔وہ ۔۔کو۔۔ن تھا“،خود کو زین کا نام لینے سے روکتے نور نے پھر سے سر اُس کے سینے پر رکھا تو زارون نے اُس کی ہچکچاہٹ کو اُس کا خوف سمجھ کر مزید کچھ پوچھنے کی بجائے اپنے حصار میں قیدکیا۔
”سو جاؤ، میں پاس ہوں“، اُس کی پیشانی پر بوسہ دیتے زارون نے کہا تو نور نے آنکھیں موندیں خود کو کوسا کہ کیوں اُس نے زین کے ڈر کو اپنے سر پر اتنا سوار کیا کہ اُسے زارون کے سامنے وہ سب بولنا پڑا جس کی وجہ سے اُس کی آگے آنے والے زندگی مزید خراب ہو سکتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نور کے سونے کے بعد زارون کافی دیر تک اُس کی بات کے بارے میں سوچتا رہا پر پھر اتنے دنوں کی تھکاوٹ اور مسلسل اسپتال میں جاگنے کی وجہ سے اُس کی آنکھ لگ گئی جو صبح اپنے موبائیل کی بیپ پر کھلی۔
”اُففف کس کو مصیبت پڑ گئی صبح صبح“ ،الجھن سے بڑبڑاتے  اُس نے  بند آنکھوں سے ہی سائیڈ ٹیبل پر ہاتھ مارا اور موبائل کے نیچے گرنے کی آواز پر آنکھیں کھول کر اُٹھنے کی کوشش کی پر اپنے سینے پر وزن محسوس کرتے اُس نے حیرت سے سر اُٹھاتے دیکھا تو نور سکون سے اُس کے سینے پر سر رکھے سو رہی تھی۔
”اُففف یہ لڑکی کل سے میرے ہوش اُڑانے میں لگی ہے اور اب اگر میں نے ذرا سی بھی پیش رفت کی تو اس کا منہ بن جانا ہے کہ میرے قریب مت آنا۔ خبردار مجھے چھوا تو“،نور کی نقل اُتارتے اُس نے سر واپس تکیہ پر رکھا اور ساتھ ہی شکر ادا کیا کہ موبائل نیچے گرنے سے خود ہی بند ہو گیا۔ ”ہوننہہ رات سے ایسے میرے ساتھ چمٹ رہی ہے جیسے میں شہد ہوں اور یہ شہد کی مکھی،ویسے ہے تو مکھی ہی وہ بھی زہریلی، جو اب ساری زندگی مجھے ہی ڈنگ مارے گی“ ،اُس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے زارون نے سوچا اور اپنی سوچ پرمسکراتے آہستگی سے اُسے سیدھا کیا جو کسمکاتے ہوئے پھر سے سو گئی۔
”جتنی تم پیاری ہونا کاش اتنی اچھی بھی ہوتیں“ اپنے کندھے پر اُس کا سر رکھتے زارون نے اُس کی طرف کروٹ لی اور اُس کے چہرے سے بالوں کو ہٹا کے نا چاہتے ہوئے بھی اپنے ہونٹ اُس کے رخسار پر لگائے جو ایک طرف لیٹے رہنے کی وجہ سے سرخ ہو چکا تھا۔
”جان ہو تم میری، بس تھوڑی سی بدتمیز اور نک چڑھی ہو“،ہونٹ اُس کی بند آنکھوں پہ لگاتے، زارون نے آہستہ سے کہا تو نور نے اُس کے لمس کو محسوس کرتے نیند میں ہی ماتھے پر بل ڈالے جس پر مسکراتے  زارون نے اُس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ہونٹوں سے لگایا اور کچھ لمحے اُس کے سرخ ہونٹوں کو دیکھتے وہ اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر اُس کے ہونٹوں پر جھکا تو نور نے اپنا سانس بند ہوتا محسوس کرتے ہوئے آنکھیں کھولیں۔ زارون کو اپنے اوپر جھکا دیکھ کر پوری آنکھیں کھولتے اُسے دیکھا جو سکون سے اپنے کام میں مصروف اُس کے دونوں ہاتھ اپنے سینے سے ہٹا کر اپنوں ہاتھوں میں قید کر چکا تھا۔ کچھ لمحات کی خاموشی کے بعد زارون نے اُس کے ہونٹ آزاد کیے تو نور نے تیزی سے سانس لیتے اُسے بحال کرنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے اُس کی آنکھوں میں بھی آنسو آچکے تھے۔
”پلیز میرا سانس بند ہو جائے گا“،اُسے واپس اپنے اوپر جھکتا دیکھ کر نور نے جلدی سے نفی میں سر ہلایا تو اُس کی معصومیت پر مسکراتے زارون نے تھوڑا اوپر ہوتے اُس کی پیشانی پر ایک آخری بوسہ دیا جو شرم سے لال ہو چکی تھی۔
”اُٹھ جاؤ بہت ٹائم ہو گیا ہے“،اپنے منہ زور ہوتے جذبات پر قابو پاتے زارون نے کہا اور پرنسس کو بولتا دیکھ بیڈ سے اُٹھ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔ نور نے اپنی تیز ہوتی دھڑکنوں کو بحال کیا جو آج پہلی بار زارون کے قریب آنے سے منتشر ہو رہی تھیں۔
”اُففف یہ جلاد کسی دن میری جان لے گا“ ،اپنا دوپٹہ ٹھیک کر کے جلدی سے اُٹھ کر بیٹھتے اُس نے سوچا اور زارون کے آنے سے پہلے ہی بیڈ کا سہارا لے کر اُٹھتے جا کر صوفے پر بیٹھ گئی تاکہ پھر سے اُسے کسی ایسی حرکت کا موقع نہ ملے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زارون کی شادی کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پوری حویلی میں پھیلی تو ساجدہ بیگم نے بے یقینی کی سی کیفیت میں تصدیق کے لیے احتشام صاحب کو اپنے کمرے میں بلایا جن کے کسی خاص بندے نے اُنہیں یہ خبر دی تھی۔
”یہ میں کیا سُن رہی ہوں کہ زارون نے شادی کرلی ہے؟“ شہناز بیگم کو بھی اُن کے ساتھ کمرے میں آتا دیکھ ساجدہ بیگم نے پروا کیے بنا احتشام صاحب کو سامنے صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کرتے سوال کیا۔
”جی،ٹھیک سُنا ہے آپ نے، آج صبح ہی مجھے اطلاع ملی تھی جسے میں نے کچھ دیر پہلے ہی اکرم سے فون کر کہ کنفرم کیا ہے“ ،احتشام صاحب نے ساجدہ بیگم کو ساری تفصیل بتائی جسے سُن کر شک کی کوئی گنجائش نہیں رہی  پر پھر بھی اُنہیں یقین نہیں آیا۔ ”پر ابھی کچھ دن پہلے ہی تو زارون حویلی آیا تھا مگر اُس نے تو مجھ سے ایسی کوئی بات نہیں کی اور ہو سکتا ہے اکرم کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہو“،ساجدہ بیگم نے احتشام صاحب کے ساتھ ساتھ اپنے دل کو بھی تسلی دی کہ زارون اُن کو بتائے بغیر ایسا کوئی کام نہیں کرسکتا۔
”مجھے بھی یہی لگا تھا پر یہ بات مجھے دو دن پہلے اسلم (زارون کا ڈرائیور ) نے بھی بتائی تھی اور اُسی کے بعد میں نے خود شہر جا کر تصدیق کی“
”ہمم پر میرا دل نہیں مان رہا اس لیے تم اچھے سے پتا کروا لو۔ ہو سکتا ہے یہ سب جھوٹ ہو اور کسی نے ہماری بدنامی کے لیے یہ بات پھیلائی ہو“،ساجدہ بیگم نے اپنے دل کے خدشے کو احتشام صاحب کے سامنے بیان کیا تو اُنہوں نے اُن کی بات سنتے اثبات میں سر ہلایا پر شہناز بیگم جن کی زبان پر کب سے کھجلی ہو رہی تھی وہ اُن کے خاموش ہوتے ہی بولیں۔
”اماں حضور کوئی بھی اتنی بڑی بات ایسے ہی نہیں کر دیتا، ضرور آپ کے پوتے نے کوئی گل کھلایا ہوگا جولوگ ایسی بات کر رہے ہیں اور آپ۔۔۔آپ سے میں نے اتنی بار کہا تھا کہ جوان اولاد کو یوں اکیلا نہ چھوڑیں پر آپ کو تو میری کسی بات کا اثر ہی نہیں ہوتا“،اپنے طعنوں تشنوں کا رخ ساجدہ بیگم سے احتشام صاحب کی طرف کرتے اُنہوں نے سنائی جسے سُن کر احتشام صاحب کا سر مزید جھک گیا۔ ”زیادہ بولنے کی ضرورت نہیں اور میرے پوتے کے بارے میں کوئی بھی بات کرنے سے پہلے ہزار بار سوچ لینا“،اُسے زارون کے خلاف آگ اگلتا دیکھ کر ساجدہ بیگم نے سختی  سے ٹوکا تو شہناز بیگم کو مزید پتنگے لگ گئے۔
”آپ میرا منہ تو بند کر وادیں گی پر خاندان والوں کو کیا جواب دیں گی؟ جب سب یہ پوچھیں گے کہ ایسا کیا ہوگیا تھا  کہ آپ کے اکلوتے پوتے نے آپ کو بتائے بغیر اپنی زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ اکیلے ہی کر لیا وہ بھی چوری چھپے“ ،ساجدہ بیگم کی بات پر بھڑکتے ہوئے شہناز بیگم نے اُنہیں آئینہ دکھایا اور مزید کچھ بولے یا سنے بغیر ایک تیز نظر خاموشی سے بیٹھے احتشام صاحب پر ڈالتے،پیر پٹختے کمرے سے چلی گئیں۔
”اسے کس نے بتا یا ہے یہ سب اور تمہارے پیٹ میں کوئی بات نہیں ٹھہرتی کیا جو تم ہر بات اسے بتا دیتے ہو“ ،شہناز بیگم کے جاتے ہی ساجدہ بیگم نے احتشام صاحب کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ”میں نے کچھ نہیں بتایا اس نے مجھے فون پہ اکرم سے بات کرتے سُن لیا تھا“،ساجدہ بیگم کے غصے کی وجہ سے احتشام صاحب نے ہچکچاتے ہوئے بتایا۔
”ٹھیک ہے اب جو ہونا تھا ہو گیا تم جاؤ اپنی بیوی کا منہ بند کرو اور اگر یہ بات اس حویلی سے باہر نکلی تو مجھ سے بُرا کوئی نہیں ہو گا اور زارون سے میں خود ہی بات کر لوں گی“،اپنے غصے کو ضبط کرتے اُنہوں نے کہا تو احتشام صاحب سر ہلاتے اُنہیں یہ بات باہر نہ نکلنے کی تسلی دی اور کمرے سے چلے گئے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
ملائکہ کے گھر میں آنے پر جہاں جنید کی زندگی پرسکون ہوگئی تھی وہیں خالدہ بیگم کی زندگی میں ایک نہ ختم ہونے والا عذاب آچکا تھا جو دن بدن کم ہونے کی بجائے بڑھ رہا تھا۔ وہ جتنی کوشش اور شدت سے ملائکہ کو جنید کے دل سے نکالنے کی کوشش کرتیں وہ اتنی ہی چالاکی سے اُنہیں شکست دیتے جنید کے دل میں جگہ بنا تی جا رہی تھی جس کی وجہ سےخالدہ بیگم کی برداشت جواب دے چکی تھی تب ہی اُنہوں نے ملائکہ جیسی تیز مچھلی کو پکڑنے کے لیے ایک بڑا جال بچھایا تاکہ کسی کو بھی شک دلائے بغیر اُس کا پتہ آسانی سے صاف کر سکیں۔ ”اب دیکھتی ہوں تم میرے شر سے کیسے بچتی ہو“،گیس کے سلنڈر کا پائپ کھول کر سائیڈ پر کرتے اُنہوں نے اُسے فل سپیڈ میں کھولا تاکہ ملائکہ جیسے ہی ماچس چلائے تو آگ پوری طرح سے پھیل جائے۔کہتے ہیں اگر گھی سیدھی انگلی سے نہ نکلے تو انگلی ٹیڑھی کر لینی چاہیے ،اپنے چہرے پر مکارانہ مسکراہٹ سجاتے اُنہوں نے ملائکہ کو کمرے سے نکلتا دیکھ کر جلدی سے باورچی خانہ سے نکلتے اپنے کمرے کا رخ کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
”اُففف آج تو بہت دیر ہو گئی ہے پتا نہیں میں اتنی دیر تک کیسے سوئے رہی“ ،ملائکہ نے اپنے بالوں کو فولڈ کرتے  جوڑے کی شکل دے کر کیچر میں قید کیا اور کچن میں جانے کی بجائے سلیم صاحب کی آواز سنتے اُن کی بات سننے کے لیے لاؤنج میں آگئی۔
”جی ابو آپ نے بلایا تھا؟“سر پر دوپٹہ اوڑھے اُس نے پوچھا تو سلیم صاحب نے ٹی وی کی آواز ہلکی کی. ”میں تو خالدہ کو بُلا رہا تھا ،کہاں ہے وہ؟“
”پتا نہیں میں تو ابھی باہر آئی ہوں اور آپ کو کوئی کام تھا تو مجھے بتا دیں“ ،سلیم صاحب کے نرم رویے کی وجہ سے ملائکہ اُن کا کافی خیال کرنے لگی تھی۔
”ہاں بیٹا چائے کا کہنا تھا بس کافی دیر سے دل کر رہا ہے پر خالدہ بیگم کولڑائی جھگڑے سے فرصت ملے تو میرا کوئی کام کریں“ نظریں ٹی وی پر جمائے اُنہوں نے سر جھٹکا تو ملائکہ نے اُن کی بات پر مسکراتے ہوئے پانچ منٹ میں چائے بنا کر لانے کا کہتے باورچی خانے کا رخ کیا جہاں داخل ہوتے ہی اُس کے نتھنوں میں گیس کی بو محسوس ہوئی۔
”اُففف ایک تو یہ سلنڈر کو پتا نہیں کیا ہے دوسرے ہی دن لیک ہونے لگ جاتا ہے“ ،قدم آگے بڑھاتے اُس نے خود کلامی کی اور پہلے بھی کچن سے اس طرح کی بو آتی رہنے پر کچھ بھی سوچے سمجھے بغیر شیلف پر پڑی ماچس چلائی تو ایک دھماکہ کے ساتھ پورے باورچی خانے میں آگ پھیل گئی جس سے آتی ملائکہ کی دلخراش چیخیں پورے گھر کو ہلا گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احتشام صاحب کے جاتے ہی ساجدہ بیگم نے رشیدہ کو بُلا کر اپنا سامان پیک کرنے کا کہا کیونکہ وہ اب زارون کو بُلانے کی بجائے خود شہر جاکر دیکھنا چاہتی تھی کہ احتشام صاحب کی بات میں کتنی صداقت ہے۔۔۔
”بی بی جی میں نے سب چیزیں رکھ دی ہیں آپ کی دوائیاں بھی اور کچھ رکھنا ہے کیا؟؟“،رشیدہ جو ساجدہ بیگم کی پرانی اور خاص ملازمہ تھی اُس نے تمام کام کرنے کے بعد موبادنہ انداز میں پوچھا۔۔۔۔
”نہیں بس تم مراد کو گاڑی تیار کرنے کا کہو اور اپنا سامان بھی رکھ لو تم بھی میرے ساتھ جاؤ گی“ اُسے ہدایت دیتے ساجدہ بیگم نے جلدی کرنے کا کہا تو رشیدہ نےاُن کا حکم سنتے ہی اثبات میں سر ہلایا اور کمرے سے باہر نکل گئی۔۔۔
”میں چاہتی ہوں کہ جو احتشام نے بتایا وہ سب جھوٹ ہو کیونکہ اگر وہ سچ ہوا تو مجھے بہت دکھ ہو گا کہ تم نے اپنی زندگی کے اتنے اہم فیصلہ میں مجھے شامل کرنا تو دور کی بات مجھ سے اجازت لینا بھی گوارہ نہیں کیا“،سائیڈ ٹیبل پر پڑی زارون کی تصویر اُٹھا کر اُس سے کہتے ساجدہ بیگم نے یہ سب جھوٹ ہونے کی دل سے دعا کی اور اپنی چھڑی اُٹھاتے کپڑے تبدیل کرنے چلی گئیں تاکہ جلدی سے شہر کے لیے نکل سکیں۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے

جملہ حقوق بحق راہ ادب رائٹرز ایسوسی ایشن آف پاکستان و مصنف محفوظ ہیں۔۔

https://www.facebook.com/RjZaroonAli/

ناول تم صرف میری ہوOnde histórias criam vida. Descubra agora