ناول: تم صرف میری ہو۔۔۔۔
مصنف: زارون علی(ZaroonAli)
قسط نمبر: 17اگلے تین دن نور نے بخار کی وجہ سے بیڈ پہ ہی گزارے اور زارون نے اُس کی نفرت ،حقارت اور تمام باتوں کو درگزر کرتے ایک سیکنڈ بھی اُسے اکیلا نہیں چھوڑا۔ بار بار اُس کا سر دبانا،پٹیاں کرنا ساری رات جاگ کر اُس کی ہر ضرورت کا خیال رکھنا حتیٰ کہ ان دنوں میں نہ تو اُس نے اپنے کھانے کی پروا کی نہ سونے کی اور نہ ہی درد کی جو زخم خراب ہونے کی وجہ سے اُسے مسلسل محسوس ہو رہا تھا بس اُسے فکر تھی تو نور کی جس کی طبیعت اب کافی حد تک بہتر ہو چکی تھی، تب ہی اُس نے اللہ کا شکر ادا کرتے ایک ضروری میٹنگ کی وجہ سے آفس جانے کا ارادہ کرتے کپڑے وغیرہ چینج کیے۔۔۔۔۔۔۔
”کہیں جا رہے ہو؟“ نور نے اُسے شیشے کے سامنے کھڑے کہیں جانے کے لیے تیار ہوتا دیکھ سوال کیا۔۔۔
”ہاں ایک ضروری میٹنگ ہے عالیان بھی نہیں ہے اس لیے میرا جانا ضروری ہے،۔۔۔“ ٹائی اُٹھا کر لگاتے اُس نے تفصیل سے جواب دیا۔۔۔۔
”کب تک آؤ گے؟“ اُس کا جواب سنتے ہی نور نے ایک اور سوال کیا جس پر زارون کے ٹائی بندھاتے ہاتھ رکے۔۔۔
”تم کہتی ہو تو جاتا ہی نہیں۔۔۔“اُس کے قریب آکر بیٹھتے زارون نے ایک جذبے سے کہا تو نور نے اُس کی بات پر تیوری چڑھائی۔۔۔
”زیادہ فری ہونے کی ضرورت نہیں اور مجھے تمہارے جانے یا آنے کی کوئی فکر نہیں ہے میری طرف سے ساری زندگی ہی باہر رہو میں توبس اس نیلی آنکھوں والی چڑیل کی وجہ سے پوچھ رہی تھی پتا نہیں کیوں سارا وقت مجھے ہی گھورتی رہتی ہے۔۔۔۔“ فوراً ہی اپنی بات کی وضاحت کرتے اُس نے سامنے صوفے پر بیٹھی پرنسس کی طرف اشارہ کیا جو اُن دونوں کو ہی دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
”ہمم اوکے۔۔۔ مجھے لگا شاید میرے لیے پوچھ رہی ہو۔۔“ سر جھٹکتے وہ اُٹھ کر واپس شیشے کے سامنے جا کر اپنی ٹائی بندھنے لگا۔۔۔
”غلط فہمی ہے تمہاری ،تم تو بے شک کبھی بھی گھر نہ آؤ میں تب بھی تمہارا نہ پوچھوں۔۔۔“نفرت سے کہتے اُس نے ایک نظر اُس کے شیشے میں نظر آنے والے عکس کو دیکھا۔۔۔
”اوکے یہ خواہش بھی جلد ہی پوری کر دوں گا تمہاری اور میں نے ناشتہ بنا دیا ہے۔۔لا دوں یا خود ہی کر لو گی؟“ اُس کی بات سے زارون کے اندر کچھ بکھرا تھا پر چہرے پر کسی قسم کا کوئی بھی تاثر لائے بغیر اُس نے اپنے لہجے کو نارمل رکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔
”میں خود کر لوں گی ہاتھ پاؤں سلامت ہیں میرے اور یہ چڑیل میرے پاس ہی رہے گی کیا“ اُسے شوز پہنتا دیکھ نور کو پھر سے فکر ہوئی۔۔۔
”ہاں گھر ہی رہے گی اب میں اسے آفس تولے جانے سے رہا۔۔۔“
”لے جاؤ آفس پر میں اسے اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتی،یہ میرے ساتھ رہی تو اسے دیکھ دیکھ تمہارے آنے سے پہلے ہی میں نے پوری ہو جانا ہے۔۔۔“ دوپٹہ لیتے وہ اُٹھ کر زارون کے سامنے آکر بولی۔۔۔۔
”نہیں ہوتی پوری اور یہ تمہارے پاس ہو گی تو مجھے بھی تسلی رہے گی۔۔۔“ ایک نظر اُس کے چہرے کو دیکھتے جو بخار کی وجہ سے بالکل اُتر سا گیا تھا اُس نے اپنا لیپ ٹاپ اُٹھایا۔۔۔
”یہ کوئی انسان نہیں ہے جو میرے پاس ہو گی تو تمہیں تسلی رہے گی اور میں تمہیں بتا رہی ہوں اس کا کوئی انتظام کر کہ جاؤ میں اسے اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتی۔۔۔۔“ اُسے مصروف دیکھ کر نور نے کہا تو زارون نے لمبی سانس لیتے لیپ ٹاپ بیگ میں رکھا اور اُس کی جانب پلٹا۔۔۔۔
”بعض دفعہ جس انسان کی انسانوں سے نہیں بنتی نا؟ اُس کی ان بے زبان جانوروں سے بن جاتی ہے اور تم اسے پیار کر کہ دیکھو یہ مجھ سے بھی زیادہ تمہارا خیال کرے گی۔۔۔۔“ اُس کے گال کو نرمی سے چھوتے زارون نے سمجھانے والے انداز میں اپنی بات مکمل کی اوراپنا موبائل ،والٹ اور چابی اُٹھاتے کمرے سے نکل گیا۔۔۔
”مطلب؟میں تمہیں جانور لگتی ہوں؟“ جلدی سے اُس کے پیچھے آتے نور نے اُس کا ہاتھ پکڑتے روکا تو زارون نے پہلے اپنے ہاتھ کو اور پھر اُسے دیکھا جو چہرے پر غصے لیے اُس کے جواب کی منتظر تھی۔۔۔
”میں نے پرنسس کو جانور کہا اور تمہیں بس اتنا کہ اُس سے دوستی کر لو،اپنا خیال رکھنا اور ٹائم سے ناشتہ کر کہ میڈیسن کھا لینا،باقی میں دروازہ باہر سے لاک کر کہ جاؤں گا پریشان مت ہونا بس کچھ دیر میں واپس آجاؤں گا۔۔۔۔۔“ اُس کے قریب آتے اُس نے نرمی سے اُس کی پیشانی پر بوسہ دیا تو نورنے اُس کے لہجے میں ہلکی سی نمی محسوس کرتے کوئی مزاحمت کرنے کی بجائے خاموشی سے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔۔
”گڈگرل ۔۔۔۔“ اُس کی تابعداری پر مسکراتے زارون نے باہر کا رخ کیا تو نور نے اپنی رکی ہوئی سانس بحال کی۔۔۔۔
”پتا نہیں کیا مسئلہ ہے اس کے ساتھ۔۔۔۔“سوچتے ہوئے اُس نے ایک نظر گھر کی حالت کو دیکھا جو تین دن صفائی نہ کرنے کی وجہ سے کافی گندہ سا لگ رہا تھا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زارون کے جاتے ہی نور کو بھوک محسوس ہوئی تب ہی اُس نے پرنسس کو اندر صوفے پہ سویا دیکھ کر تسلی ہوتے کچن کا رخ کیا تاکہ کچھ کھاسکے پر وہاں برتنوں کا ڈھیر دیکھ کر اُس کا سر گھوما۔۔۔۔
”اُفف کتنے برتن جمع کیے ہوئے ہیں۔۔۔“ ایک نظر سینک کو دیکھنے کے بعد اُس نے کچھ سوچتے ہوئے نل کھولا اور ناشتہ کرنے کی بجائے برتن دھونے لگی (کیونکہ اُسے خود بھی کچن کی حالت دیکھ کر کوفت محسوس ہو رہی تھی )اور ابھی چند منٹ ہی گزرے تھے کہ اُسے اپنے پاؤں پر کسی نرم سی چیز کا وزن محسوس ہوا جس پروہ ہاتھ میں پکڑی پلیٹ برتنوں میں پھینکتے بدک کر پیچھے ہٹی۔۔۔۔
”اُففف ڈرا دیا مجھے۔۔۔“پرنسس کو اپنے پاؤں کے قریب بیٹھا دیکھ اُس نے اپنا سانس بحال کرتے شکرا دا کیا کہ اب کاکروچ نہیں تھا۔۔۔
”کیا مسئلہ ہے؟“ اُسے بار بار بولتا دیکھ نور نے ڈرنے کے باوجود بھی اُس کے چہرے پر معصومیت دیکھ کر پوچھا تو وہ مزید اُس کے قریب آتے اپنا مسئلہ بتانے کی کوشش کرنے لگی جو نور کو بالکل بھی سمجھ نہیں آرہا تھا۔۔۔۔
”بھوک لگی ہے؟“ اُس کی حرکات سے اندازہ لگاتے نور نے پوچھا تو وہ بولتے ہوئے ایک کیبن کی جانب بڑھی اور ہاتھ سے اُسے کھولنے کی کوشش کرنے لگی تو نور نے ناچاہتے ہوئے بھی اُس بے زبان کو بے چین دیکھ کر اپنا ڈر ایک سائیڈ پہ رکھتے اُس کے قریب آتے کیبن کھولا جس میں پرنسس کے کھانے پینے کی چیزیں موجود تھیں۔۔۔
”یہ کھاتی ہو تم؟“ ایک پیکٹ اُٹھا کر اُس کے سامنے کرتے نور نے پوچھا تو پرنسس نے اپنی دم ہلانے کے ساتھ خوشی سے بھاگتے ہوئے لاؤنج کا رخ کیا اور ایک سیکنڈ میں اپنا کھانے والا باؤل منہ میں اُٹھائے واپس نور کے پاس کچن میں آئی جیسے اب اُس سے بالکل بھی خوف محسوس نہیں ہو رہا تھا۔۔۔
“توبہ کتنی تیز ہے۔۔۔“پیکٹ میں سے کچھ خوراک اُس کے باؤل میں ڈالتے اُس کے کاموں پر حیران ہوتے ( جس نے اُسے ساری بات اتنی آسانی سے سمجھا دی تھی) نور نے خود کلامی کی اور اُسے کھانے میں مصروف دیکھ کر ہاتھ دھوتے پھر سے سینک کی جانب آئی تاکہ برتن دھو سکے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
برتنوں سے فارغ ہوتے اُس نے کچن صاف کیا اور پھر کمرے اور لاؤنج کی صفائی کرتے پہلے نہا کہ کپڑے تبدیل کیے اور اب ناشتہ گرم کر کہ ٹیبل پہ لے آئی جہاں پہلے سے ہی پرنسس موجود تھی جسے دیکھتے ہی نور کا دل بھر آیا اور پچھلے دنوں کی کچھ یادیں خود بخود اُس کے دل و دماغ کا احاطہ کر نے لگیں جب ایک بار حاشر بڑے شوق سے بلی لے کر آیا تھا پر حارث نے نور کو روتا دیکھ نہ صرف اُسے ڈانٹا بلکہ حاشر کی ضد کے باوجود وہ بلی اُسی وقت واپس کردی۔۔۔۔
”حارث بھائی۔۔۔“اُس کا نام پکارتے ہی نور نے رونا شروع کر دیاتو پرنسس فکر مندی سے اُس کے قریب آئی اور ٹیبل پر اُس کے سامنے بیٹھتے آنکھوں میں اداسی لیے اُسے دیکھنے لگی جو اپنے دکھ میں یہ تک بھول چکی تھی کہ پرنسس اُس کے اتنے قریب بیٹھی ہے۔۔۔۔
”تمہیں پتا ہے؟حارث بھائی بہت اچھے ہیں اُنہوں نے کبھی بھی مجھے نہیں ڈانٹا پر اس انسان کی وجہ سے اُنہوں نے مجھے تھپٹر مارا میری بات تک نہیں سنی اور ابو؟وہ تو پہلے ہی مجھ سے نفرت کرتے تھے اور اب تو وہ ساری زندگی میری شکل نہیں دیکھیں گے۔۔۔“،روتے ہوئے اُس نے بغیر ڈرے اُسے اُٹھا کر اپنی گود میں بیٹھایا جو پوری طرح اُس کی بات سمجھتے اب خود بھی آہستگی سے بولتے اُس کی باتوں میں اُس کا ساتھ دے رہی تھی۔۔۔۔
”اس شخص نے مجھے میرے اپنوں سے دور کیا ہے وہ جیسے بھی تھے بے شک مجھ سے نفرت ہی کرتے تھے پر تھے تو میرے اپنے اور وہ گھر میرا تھا جہاں میری امی کی یادیں تھیں اُن کی خوشبو تھی۔۔۔“ اب کی بار اُس نے پھوٹ پھوٹ کر روتے اپنے چہرے کو دونوں ہاتھوں میں چھپایا تو پرنسس نے اُس کی گود سے نکل کر ٹیبل پر پڑے ٹشو کا ڈبہ اُٹھایا اور واپس اُس کے پاس آئی جو ابھی بھی رو رہی تھی ۔۔۔۔
کچھ دیر بعد پرنسس کی آواز نہ آنے پر اُس نے چہرے سے ہاتھ ہٹائے تو وہ سامنے ہی ٹیبل پر ٹشو کا ڈبہ منہ میں لیے بیٹھی معصومیت سے اُسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔
”تم بہت اچھی ہو ۔۔“ اس کی حرکت پر نم آنکھوں سے مسکراتے اُس نے ٹشو نکال کر اپنا چہرہ صاف کیا تو پرنسس نے اپنی تعریف پرشرماتے اپنا ہاتھ اُٹھاکر چہرے پر پھیراتو نور نے اُس کی حرکتوں پر رونا دھونا بھولتے ڈبہ واپس ٹیبل پر رکھتے اُس سے باتیں کرنے لگی جو کبھی آنکھیں بند کرتے تو کبھی اپنی مخصوص زبان میں بولتے اُس کی باتوں کا جواب دیتی ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
سکندر صاحب کی طبیعت اب کافی بہتر تھی تب ہی وہ آج کافی دنوں بعد ایک کام کے سلسلہ میں باہر گئے اور اب گھر واپس آتے ہی اُنہوں نے سب لوگوں کو اپنے کمرے میں آنے کا کہا ۔۔۔۔
”بھائی صاحب خیریت ہے۔؟“فریحہ بیگم نے کمرے میں آتے ہی حارث حاشر کے ساتھ سارہ کو بھی خاموش بیٹھا دیکھ کر پوچھا۔۔۔
”ہاں خیریت ہی ہے ادھر آؤ میرے پاس بیٹھو یہاں ۔۔۔“ اُن کے آتے ہی اُنہوں نے اپنے ساتھ پڑی فائل کو اُٹھا کر فریحہ بیگم کے لیے جگہ بنائی تو وہ آگے بڑھتے اُن کے ساتھ بیٹھ گئیں ۔۔۔۔
”میں نے آپ چاروں کو ایک اہم بات کرنے کے لیے یہاں بُلایا ہے ۔۔۔“ فریحہ بیگم کے بیٹھتے ہی سکندر صاحب نے اپنی بات کا آغاز کیا تو سارہ کے ساتھ ساتھ حارث اور حاشر نے بھی سوالیہ نظروں سے اُن کی جانب دیکھا۔۔۔
”میری زندگی کا اب کوئی بھروسہ نہیں اس لیے میں چاہتا ہوں جو کچھ بھی میرے پاس ہے میں اُسے اپنی زندگی میں ہی تم سب میں برابر تقسیم کردوں تاکہ میرے بعد ان سب کے لیے تم سب کے درمیان کو اختلاف نہ ہو۔“ اپنی بات مکمل کرتے اُنہوں نے ایک نظر سب کے چہروں کی طرف دیکھا۔۔۔
”اللہ نہ کرے بھائی صاحب آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں،اللہ آپ کو لمبی زندگی دے اور آپ کا سایہ ہم سب کہ سرںپر سدا سلامت رہے۔“دل میں خوشی سے لڈو پھوٹنے کے باوجود بھی فریحہ بیگم نے چہرے پر تکلیف کے آثار لاتے کہا۔۔۔۔
”ہاں زندگی موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے پر جو ذلت میری اولاد سے مجھے مل چکی ہے اُس کے بعد مجھے نہیں لگتا میں زیادہ دیر لوگوں کی حقارت بھری نظروں کا سامنا کر پاؤں گا اس لیے میں چاہتا ہوں کہ یہ سب جو میرے پاس ہے میں اپنے بیٹوں کے نام کر دوں تاکہ ان کو بھی اپنی ذمہ داری کا احساس ہو۔۔۔۔“ حارث اور حاشر کو دیکھتے اُنہوں نے کہا تو فریحہ بیگم نے ایک پریشان نظر سکندر صاحب کے چہرے پہ ڈالی کہ شاید وہ اُس سے کیا ہوا وعدہ بھول چکے ہیں۔۔۔۔
”جی جی بھائی صاحب سب کچھ حارث اور حاشر کا ہی ہے اور مجھے پتا ہے یہ اپنی ذمہ داری بہت اچھے سے نبھائے گیں۔۔۔“ان دونوں کے کچھ بولنے سے پہلے ہی فریحہ بیگم نے مٹھاس بھرے لہجے میں کہا۔
”ہاں ،بس میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ میری زندگی میں ہی یہ دونوں اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں۔۔“تھکے ہوئے انداز میں کہتے اُنہوں نے فائل اُٹھا کر کھولی۔۔۔
”پر ابو یہ سب کرنے کی کیا ضرورت ہے؟یہ سب آپ کے نام ہوتے بھی ہم اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکتے ہیں ۔۔۔“ حاشر نے مداخلت کی اور حارث نے فریحہ بیگم کی طرف دیکھا جن کی نظریں سکندر صاحب کے ہاتھ میں موجود پیپرز پر تھیں۔۔۔
”ضرورت ہے اور اب میری بوڑھی ہڈیوں میں اتنی طاقت نہیں کہ اتنے بڑے کاروبار کو دیکھ سکوں اس لیے سب تم دونوں کے نام کر دوں گا تاکہ اس سب کو اب تم لوگ سنبھال لو۔۔۔۔“کاغذات کو ایک نظر دیکھتے اُنہوں نے حاشر کو جواب دیا اور اُن میں سے سب کاغذات کو الگ کرنے لگے ۔۔
”میں نے سارا کاروبار تم دونوں بھائیوں میں آدھا آدھا تقسیم کرکہ اُس کے پیپرز بناوا لیے اور یہ گھرمیں نے فریحہ کے نام کردیا ہے باقی میری ملتان والی پراپرٹی جو کہ میں نے سارہ کے نام کر دی ہے۔۔۔“ انہوں نے گھر کے کاغذات فریحہ بیگم کی طرف بڑھاتے حارث کے ساتھ ساتھ حاشر کو بھی شاک کیا۔۔۔
”لیکن ابو آپ کو سارہ کی بجائے وہ پراپرٹی نور کے نام کرنی چاہیے تھی کیونکہ جو کچھ مجھے مل گیا تھا وہ ہمارے لیے کافی تھا۔۔۔“ حارث نے اُن کی بات سنتے پہلا اعتراض اُٹھایا تو فریحہ بیگم نے سارہ کی طرف دیکھا جو خود بھی حارث کی بات سُن کے حیران ہوئی۔۔۔
”اُس لڑکی کا نہ تو میرے گھر میں کوئی حصہ ہے اور نہ ہی کاروبار میں اور جو بھی اُس کی طرف داری کرے گا میرا اُس کے ساتھ بھی کوئی رشتہ نہیں رہے گا اس لیے دوبارہ اُس کی حمایت کرنے سے پہلے ہزار بار سوچ لینا۔۔“ صاف لفظوں میں حارث کو تنبیہ کرتے اُنہوں نے مزید کوئی بات سنے یا کہے بغیر اُن سب کو جانے کا کہاتو حارث نے نور کی حق تلفی پر خاموش رہنے کی بجائے احتجاج کیا۔۔۔۔۔
”ابو پلیز آپ بے شک نور سے کوئی رشتہ نہ رکھیں پر اُسے اُس کا حق ضرور دیں کیونکہ اس بات کے جوابدہ آخرت میں آپ ہوں گے اور اگر آپ اُس کا حق نہیں دیں گے تو میں سارا حصہ نور کے نام کر دوں گا جو نہ تو آپ چاہیں گے اور نہ ہی سارہ اور پھوپھو۔۔۔۔“ ایک نظر اُن دونوں کے خوشی سے چمکتے چہروں پہ ڈالتے وہ اپنا فیصلہ سُنا کر سکندر صاحب کے ساتھ ساتھ فریحہ بیگم اور سارہ کو بھی ساکت چھوڑ کر لمبے ڈگ بھرتے کمرے سے نکل گیا۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زارون میٹنگ کے بعد مارکیٹ چلا گیا تو اُسے وہاں کافی ٹائم لگ گیا اور اب تقریباںتین گھنٹے بعد وہ گھر واپس آیا تو نور اور پرنسس کو ایک ساتھ بیڈ پہ سویا دیکھ اُسے جھٹکا لگا۔۔۔
”لگتا ہے کافی دوستی ہو گئی ہے۔۔“ خود کلامی کرتے اُس نے ایک نظر نور کے پرسکون چہرے پر ڈالی اور پانی پینے کچن میں آگیا جہاں ہر چیز اپنی جگہ پر رکھی ہونے کے ساتھ ساتھ برتنوں کا ڈھیر بھی سینک میں نہ پاکر زارون کو مزید حیرت ہوئی۔۔۔۔۔
”لگتا ہے میڈم کا دماغ کچھ ٹھنڈا ہو گیا ہے جو مجھ پر اتنی مہربانیاں ہو رہی ہیں۔۔“ ،گلاس میں پانی ڈالتے اُس نے خود کلامی کی اور باہر چیئر پر بیٹھتے پینے لگا۔۔۔
”تم کب آئے۔۔۔؟“کچن میں شور کی آواز پر نور کی آنکھ کھلی تو اُس نے باہر آتے زارون کو چیئر پر بیٹھا دیکھ پوچھا۔۔۔
”ابھی آیا ہوں ،تمہاری طبیعت کیسی ہے ؟؟اور یہ کام کرنے کی کیا ضرورت تھی میں خود ہی آکے کر لیتا۔۔۔“ جواب دیتے زارون نے اُس کے کھلے بالوں کو دیکھا جو کمر تک آرہے تھے۔۔۔
”کوئی احسان نہیں کیا بس جو تم میرے لیے کرتے ہو یہ اُن سب کا بدلہ ہے۔۔۔“ نور نے تلخی سے کہتے اُس کی ساری خوشی کو خاک میں ملایا۔۔۔
”ہمم اوک میں تمہارے لیے موبائل لایا تھا۔۔۔“ اُس کے رویے اور بات کو نظرانداز کرتے زارون نے گلاس ٹیبل پر رکھتے اپنے بیگ سے موبائیل نکال کر اُس کے سامنے رکھا۔۔۔
”اس کی کیا ضرورت تھی۔۔۔“نور نے ایک نظر موبائل کو دیکھ کر دوسری نظرزارون پر ڈالی جو اب چینج کرنے کے لیے کمرے کی طرف جا رہا تھا۔۔۔۔
”ضرورت تھی۔۔۔ کیونکہ میں اب ہر وقت تمہارے ساتھ یہاں گھر پہ نہیں رہ سکتا سو کام ہوتے ہیں مجھے اور تم اب کل سے یونیورسٹی جاؤ گی تو مجھ سے رابطہ کے لیے تمہیں اس کی ضرورت ہو گی۔۔۔مطلب تم مجھے یونیورسٹی جانے دوگے؟“ اُس کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی نور نے حیرت سے کھڑے ہوتے تصدیق چاہی۔۔۔
”ہاں تو میں کون سا تمہیں یہاں باندھ کے رکھوں گا تم جہاں جانا چاہو جا سکتی ہو پر میرے ساتھ اور دوسری بات مجھے تمہارے پڑھنے سے کوئی مسئلہ نہیں اپنی ڈگری مکمل کرو تاکہ بچوں کہ سامنے شرمندگی نہ ہو۔“ اپنی بات کے اختتام پر زارون نے آنکھوں میں شرارت لیے بڑی سنجیدگی سے اپنی بات مکمل کی ۔۔
”کونسے بچے؟“ ناسمجھی سے اُس کی جانب دیکھتے نور نے سوال کیا تو زارون نے جواب دینے کی بجائے پہلے اپنے اور اُس کے بیچ حائل چند قدم کا فاصلہ سیمٹا۔۔۔
”ہمارے بچے ،تمہارے اور میرے۔۔۔“ اُس کے کندھے سے بال ہٹاتے اُس نے اُس کے کان کے قریب جھکتے سرگوشی کی تو نور نے اُس کی بات سنتے ہی غصے سے لال ہوتے اُس کے سینے پہ ہاتھ رکھتے پیچھے دھکا دیا۔۔۔۔۔۔
”بھاڑ میں جاؤ تم اور دوبارہ مجھ سے ایسی کوئی بے ہودہ بات کی تو منہ توڑ دوں گی تمہارا۔۔۔“ اپنے سوال پوچھنے پر خود کو ملامت کرتے اُس نے زارون کو خبردار کیا جو اُسکے بدلتے رنگوں کو دیکھ کر محظوظ ہو رہا تھا۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔
https://www.facebook.com/RjZaroonAli/
![](https://img.wattpad.com/cover/232903514-288-k736388.jpg)
CZYTASZ
ناول تم صرف میری ہو
Romansیہ کہانی ہے ایک ایسے لڑکے کی جو محبت میں کچھ بھی کرسکتا ہے۔ پیار،محبت،دوستی،دشمنی کے جذبوں سے سجی ایک انوکھی کہانی...