تم صرف میری ہو قسط نمبر:08

402 20 2
                                    

ناول: تم صرف میری ہو..
مصنف: زارون علی
قسط نمبر: 08

شو ختم کرنے کے بعد وہ دو بجے کے قریب واپس اپارٹمنٹ میں آیا تو زارون کے کمرے کا دروازہ ابھی بھی بند تھا۔۔۔۔۔
”اُففف تھک گیا آج تو۔۔۔“ عالیان نے شوز اُتارے بغیر ہی صوفے پر گرنے والے انداز میں لیٹتے خودکلامی کی اور کچھ منٹ لیٹے رہنے کے بعد کچھ سوچتے ہوئے اُٹھ کر زارون کے کمرے کے دروازے پر ہاتھ رکھا جو لاک نہ ہونے کی وجہ سے کھلتا چلا گیا۔۔۔۔
”تم سوئے نہیں ابھی تک۔۔۔؟“ اُس کو لیپ ٹاپ پر مصروف دیکھ کر عالیان نے حیرت سے پوچھا کیونکہ زارون کی عادت تھی کہ وہ گیارہ بجے تک ہر حال میں سو جاتا تھا۔۔۔۔
”نہیں۔۔۔۔۔اور کسی کے کمرے میں آنے سے پہلے دستک دیتے ہیں نہ کہ منہ اُٹھا کر اندر چلے آتے ہیں“۔  بات کرتے اُس کی انگلیاں جومسلسل کی بورڈ پر چل رہی تھیں کچھ سکنڈز کے لیے رکیں پر اُس نے عالیان کی طرف دیکھنے کی زحمت نہیں کی۔۔۔۔
”ہوننہ میں دستک دے کر کہ آتا تو تم نے اندر سے ہی دفع کر دینا تھا مجھے اور کیا یہ ناراض محبوبہ کی طرح منہ پھولائے بیٹھے ہو۔ اُٹھو مجھے بھوک لگی ہے کھانا کھائیں“عالیان نے اُس کی ناراضگی کی پروا کیے بغیر لیپ ٹاپ پر ہاتھ مارتے اُسے بند کیا۔۔۔۔
”مجھے بھوک نہیں اور تمہاری محبوبہ یقینا مان گئی ہو گی جو تمہیں میری یاد آ گئی۔۔۔“ زارون نے اُس کی حرکت پر گھورتے ہوئے اُس کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھ کر اندازہ لگایا۔۔۔۔
”ہاں ،ناراض تو وہ کبھی مجھ سے ہو ہی نہیں سکتی ،پر جب کچھ بتائے بغیر غائب ہو جاتی ہے نا تو بس میں پریشان ہو جاتا ہوں کہ پتا نہیں کیا ہوا؟“ عالیان نے اپنے دانتوں کی نمائش کرتے زارون کی بات کی تصدیق کی تو زارون نے اُسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا۔۔۔
”ہممم اچھی بات ہے۔ ویسے مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آتی ؟“ زارون نے لیپ ٹاپ گود سے نکال کر بیڈ پر رکھتے پر سوچ انداز میں اُسکی طرف دیکھا۔۔۔
”کس بات کی؟“ عالیان نے سنجیدگی سے اُس کے قریب بیٹھتے سوال کیا۔۔۔۔
”یہی کہ نہ تم نے اُسے دیکھا نہ اُس نے تمہیں، تو! پھر یہ پیار ہو کیسے گیا؟اور کیا وہ لڑکی اندھی ہے؟ جو تم جیسے بندر کو دل دے دیا۔۔۔“ زارون نے جتنی نرمی سے اُس کی عزت افزائی کی عالیان بس اُس کے چہرے کی طرف دیکھتا ہی رہ گیا۔۔۔
”پہلی بات کہ پیار نہیں بس ہم دوست ہیں اور دوسری بات بے شک میں تم جیسا ہیرو نہیں ہوں پر شکر ہے تم جیسا جلاد بھی نہیں ہوں جو کسی لڑکی سے زبردستی نکاح کرلوں اور بعد میں بھی اُسے بدروحوں کی طرح رات کو جا جا کر ڈراؤں کہ تم صرف میری ہو نور...۔۔“ عالیان نے موقع ملتے ہی بھر پور طریقے سے زارون کی ٹانگ کھنچی تو اُس نے پاس پڑا کشن اُٹھا کر اُسے رسید کیا جو اُس نے لگنے سے پہلے ہی کیچ کیا۔۔۔۔۔۔
”ابھی اتنے بھی تم طاقت ور نہیں ہوئے کہ عالیان قیوم کو مار سکو۔۔۔۔“مسکراتے ہوئے اُس نے مغرورانہ اندار میں کہتے واپس کشن زارون کی طرف اچھلا جس سکنڈ میں کیچ کرتے زارون نے عالیان کو سنبھالنے کا موقع دیے بغیر واپس پھینکا جو سیدھا اُس کے منہ پر جا کر لگا۔۔۔۔
”زارون شرم کرو ایک معصوم انسان کو مارتے تمہارے ہاتھ نہیں کانپتے“ عالیان نے مزید کوئی پیش رفت کرنے سے خود کو روکتے کُشن واپس بیڈ پر رکھا۔۔۔“ نہیں کانپتے جیسے معصوم انسان کا دل نہیں کانپتا میرے سامنے میری ہی بیوی کا نام اتنی دلیری سے نام لینے میں“ اپنے الفاظ کے ساتھ ساتھ اُس کی آنکھوں میں بھی اب سنجیدگی تھی۔۔۔۔۔
”اچھا بھئی مجنوں معاف کر مجھے میں دوبارہ نور بھابھی کو  بہن کہہ کر بُلا لوں گا تاکہ تمہارے اندر جو سڑا ہوا دل ہے نا وہ وہ مطمئن رہے“ اُس کی بات سنتے عالیان نے اپنے کانوں کو ہاتھ لگاتے کہا تو زارون کے چہرے پر نا چاہتے ہوئے بھی مسکراہٹ آگئی۔ ( کیونکہ اُس کی زندگی میں دی جان کے علاوہ وہی ایک  شخص تھا جس سے وہ اپنے دل کی ہر بات کہہ دیتا تھا باقی اکلوتے ہونے کے ساتھ ساتھ ہتشام صاحب کی دوسری شادی اور کچھ دیر پہلے ہونے والے اپنے ماں کے انتقال نے اُسے اپنے باپ کہ ساتھ ساتھ ہر انسان اور چیز سے بدگمان کر دیا تھا)۔۔۔۔
”امی آپ لوگوں کو کیا جلدی ہے میری شادی کی؟جب میں کہہ رہا ہوں کہ مجھے آپ کی معصوم خوبصورت بھانجی پسند نہیں تو کیوں آپ اور ابو میرے ساتھ مل کر زبردستی کر رہے ہیں۔۔۔۔۔“ جنید جو اس مہینے میں دس بار خالدہ بیگم کو یہ بات کہہ چکا تھا آج پھر اُن کو مارکیٹ جانے کے لیے تیار دیکھ کر اُس نے چڑ تے ہوئے اپنی بات کہی۔۔۔۔
”تمہیں مسئلہ کیا ہے نور سے؟اچھی خاصی پیاری اور پڑھی لکھی ہے اور ساتھ باپ کی اتنی جائیداد کی مالک بھی جو حارث اور حاشر کے ساتھ ساتھ اُس کی بھی ہے“ خالدہ بیگم نے اُس کے قریب بیٹھتے پھر سے لالچ دیا۔۔۔۔
”میں مانتا ہوں وہ پیاری ہے اور بہت زیادہ ہے پر مجھے وہ پسند نہیں،کیونکہ میں پہلے بھی آپکو بتا چکا ہوں کہ مجھے ملائکہ پسند ہے اور میں شادی بھی اُسی سے کروں گا“ جنید نے ہٹ دھرمی برقرار رکھتے دو ٹوک جواب دیا تو سلیم صاحب بھی کمرے میں داخل ہوئے (جو ابھی ابھی اپنی دکان بند کر کہ آئے تھے)۔۔۔۔
”ٹھیک ہے اگر تمہیں اُس ملائکہ سے ہی شادی کرنی ہے تو پھر ہمیں ہمیشہ کے لیے بھول جانا۔۔“ خالدہ بیگم نے سلیم صاحب کی طرف دیکھتے اپنا فیصلہ سُنا یا تو جنید نے مدد طلب نظروں سے سلیم صاحب کی طرف دیکھا۔۔۔۔
”ٹھیک کہہ رہی ہے تمہاری ماں اور ایسی کوئی بات تھی تو تمہیں پہلے بتانی چاہیے تھی اس وقت نہیں جب شادی میں بس چند ہی دن بچے ہیں“(سلیم صاحب جو خالدہ بیگم کی طرح لالچی تو نہیں تھے پر خود بھی بیٹی کے باپ ہونے کی حیثیت سے اُنہیں سکندر صاحب کی عزت کا خیال تھا) سلیم صاحب نے خالدہ بیگم کی نسبت سختی سے بات کی۔۔۔۔
”ٹھیک ہے اگر آپ لوگ میرا ساتھ نہیں دیں گے تو میں خود ہی دیکھ لوں گا جو کرنا ہوا۔۔۔“  سلیم صاحب کو بھی خالدہ بیگم کی سائیڈ پر دیکھ کر جنید نے غصے سے کہا اور اُن دونوں کو ایک نظر دیکھ کر گھر سے باہر نکل گیا۔۔۔۔۔
”اس لڑکے کا تو دماغ خراب ہو گیا ہے ہاتھ آئی دولت گنوانے کے چکر میں ہے اور وہ ملائکہ اُس کے باپ کے پاس ہے ہی کیا دینے کو “جنید کے جاتے ہی خالدہ بیگم نے اپنا سر پکڑا تو سلیم صاحب کو اُن کی سوچ پر افسوس ہوا جو خالہ ہونے کے باوجود بھی بس نور کو دولت کی خاطر ہی اپنانا چاہتی تھیں۔۔۔۔۔
کل رات کے واقعہ کہ بعد گھر کے ماحول میں کافی کشیدگی آگئی تھی سب نے خاموشی سے ناشتہ کیا اور حاشر کی غیر موجودگی پر جہاں حارث کو دکھ ہوا وہاں فریحہ بیگم کافی مطمئن تھیں۔نور بھی یونی ورسٹی جانے کے لیے تیار ہو کر نیچے آئی تو سکندر صاحب ہمیشہ کی طرح اُس کے آتے ہی سارہ کو اپنی چائے کمرے میں لانے کا بولتے اُٹھ کر چلے گئے۔۔۔۔
”حاشر بھائی کہاں ہیں؟اُن کا موڈ ابھی بھی خراب ہے کیا؟“ نور نے سارہ کے ساتھ فریحہ بیگم کو بھی کچن میں جاتا دیکھ حارث سے سوال کیا جو رات کچھ سمجھانے کے بعد حاشر کو گھر لے کر آیا تھا۔۔۔۔
”ٹھیک ہے تم پریشان نہ ہو اور جلدی کرو دیر ہو جائے گی۔۔۔“ حارث نے اُسے تسلی دیتے ناشتہ کرنے کا اشارہ کیاتو نور بھی خاموشی اختیار کرتے ناشتہ کرنے لگی۔۔۔

ناول تم صرف میری ہوحيث تعيش القصص. اكتشف الآن