قسط 8

19 3 1
                                    



Is this was the sudden performance?
جی میم ۔۔۔وہ۔۔دراصل۔۔امل نے کہا جب بریرہ نے اس کی بات کاٹی۔
جی میم وہ ہم اینڈنگ پر جوش سی کرنا چاہ رہے تھے تو میں نے امل کو کہا کہ کوئی اچھا سا گانا بتاو۔۔
یس میم یہ مجھے آتا بھی تھا اور موٹیوٹنگ بھی تھا۔۔تو میں۔۔
I can't believe this such an outstanding performance.. And u both did very well..well-done.
جی بچو آپ دونوں نے بہت اچھے سے ہر چیز مینٹین کی۔۔میم ہانیہ نے کہا۔۔
امل اور بریرہ نے حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھا۔۔
اب ساری ٹیچرز ان دونوں کو سراہ رہی تھیں۔
وہ دونوں داد وصول کر کے باہر آئیں۔۔بے یقینی کا عالم دونوں پر تاری تھا۔۔
بریرہ۔۔۔امل۔۔دونوں نے بیک وقت ایک دوسرے کو بلایا۔۔اور ہنستے ہوۓ ایک دوسرے کے گلے لگ گئیں۔۔
مجھے تو ابھی تک یقین ہی نہیں آ رہا۔۔
تو مجھے کون سا آ رہا یارررر۔۔
وہ دونوں تبادلہ خیال کر رہی تھیں جب ان کی کلاس کا ایک گرپ ان کے پاس کھڑا ہوا۔۔ان دونوں سے حال احوال پوچھنے کے بعد ایک لڑکی نے امل سے کہا۔۔
امل جب تم سٹیج پر آئی تو ہمیں لگا پھر کوئی پارٹسپینٹ آۓ گا لیکن جب گانا شروع ہوا رو یاررر۔۔مزا آ گیا۔۔
سیریسلی یار۔۔دوسری لڑکی نے کہا۔۔
کیفے کے قریب آتے آتے امل اور بریرہ کو ہر گزرتی لڑکی نے روک کر ایپریشییٹ کیا تھا۔۔۔
امل سی آر بننے کے بعد اپنی کلاس میں مقبول تھی ۔اسے سراہا جاتا تھا۔یہاں تک کہ ہر سبجیکٹ کی ٹیچرز ۔۔اور تو اور جو دوسرے سبجیکٹس کی ٹیچرز تھیں وہ بھی امل کو جانتی تھی۔
اور آج پارٹی کے بعد امل پورے کالج کی نظر میں تھی۔ہر کوئی اسے سعاہ رہا تھا۔۔اس کے نصیب میں شہرت آئی تھی۔۔اسے بن مانگے پر عطا کیے گۓ تھے۔۔اس کی چار سال پرانی خواہش پوری ہو گئی تھی۔۔اسے عزت مل رہی تھی اور وہ سوچ رہی تھی۔۔
تُعِزُّ مَن تَشَا ءْ ۔۔
(وہ جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے)
وہ یہ بھول گئی تھی کہ عروج کو زوال بھی ہے
*******
سیکنڈائیر کی کلاسس کا آغاز ہوۓ تین ماہ گزر گۓ تھے۔۔آج فرسٹ اییئر کا رزلٹ تھا۔۔امل امی کو دعا کرنے کا کہہ کر کالج کے لیے نکلی۔۔دل دھک دھک کر رہا تھا۔۔
کاریڈور میں نوٹس بورڈ پر رزلٹ لسٹ لگی تھی اور خلاف معمول سافٹ بورڈ کے آگے لڑکیوں کا جم غفیر تھا۔۔
امل نے کلاس میں بیگ رکھ کر دوبارہ آنے کا فیصلہ کیا اور آگے چل دی۔۔
امل۔۔مروہ نے اسے پکارہ۔۔
امل مڑی۔۔ہاں
رزلٹ دیکھا
نہیں بیگ وغیرہ رکھ آوں پھر دیکھتی۔
یار۔۔۔۔ادھر آ و۔۔مروہ امل کا ہاتھ کھینچ کر لائی۔
امل اور مروہ سافٹ بورڈ کے قریب آئیں۔امل کی نگاہ بے اختیار اپنے نام پر پڑی۔۔
1.Amal Ibrahim.Fsc 1,  491/505
امل نے اپنے دونوں ہاتھ منہ پر رکھے۔What???
Am I in sleep?? Marwa??
نہیں جان۔۔تم نے ٹاپ کیا ہے۔۔۔
ادھر کھڑی تمام لڑکیاں اپنا رزلٹ بھول کر امل کی بے یقینی دیکھ رہی تھی جب کرن نے اس
بلایا۔امل مبارک ہو یار تم لاہور بورڈ میں دوسرے نمبر پر ہو۔۔
ہیں۔۔مجھے اچھے مارکس کی امید تو تھی مگر ٹاپ کرنے کا نہیں پتا تھا۔۔امل نے بے یقینی سے کہا۔۔پاس کھڑی سب لڑکیاں ہنس پڑیں۔۔
ہاں بھئ امل۔۔پارٹی کب دے رہی ہو۔۔عکس امل اور کچھ لڑکیاں جو ان کے ساتھ تھیں کاریڈور کی طرف جا رہی تھیں
جب پیچھے سے کسی لڑکی نے امل کو کہا۔۔
ایکسکیوز می امل۔۔بات سنو
امل نے کہا جی۔۔کہیں
سارا دن کالج میں پھرتی ہو۔۔کبھی پڑھتے نہیں دیکھا تمہیں۔۔تو ٹاپ کیسے کر لیا تم نے۔۔۔
امل نے اپنے قہقہے کا گلا گھونٹ کر بغور اس کا جائزہ لیا۔۔موٹے شیشوں والی میروں عینک بار بار سہی کرتی وہ شکل سے ہی کتابی کیڑا لگ رہی تھی۔اور کہا۔۔آپ کے کتنے مارکس آے؟
۔۔ اس نے کہا۔۔یہ میری بات کا جواب نہیں 456
ہے۔۔۔
میں نا ہر پیپر کے بعد پوری رات ایک پیر پر کھڑی ہو کر چلا کاٹتی ہوں۔امل نے اس کے کان کے قتیب ہو کر جیسے کوئی بڑے راز کی باے بتائی۔۔
وہ امل کو دیکھ کر رہ گئی۔
دیکھو۔۔میں کتابیں رٹ کر ٹاپ کرنے پر یقین نہیں رکھتی۔۔۔اور کالج میں اکسٹرا کریکولر کام کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ میں پڑھتی نہیں۔
اب ٹاپ جو کر لیا یہ ہی کہو گی نا تم۔۔ہنہ۔۔وہ چشمہ ٹھیک کرتی آگے بڑھ گئ۔
اس کے لیے ہر دن اس کی شہرت اور عزت میں اضافے کا باعث بن رہا تھا۔ جس عروج کو وہ اپنی کامیابی اور عزت سمجھ رہی تھی وہ نہیں جانتی تھی کہ یہ اس پر اس کے رب کی آزمائش ہے۔۔اور اسے نہیں معلوم تھا کہ اگر وہ شہرت کی دلدل میں گئ تو نکلنا مشکل ہو جاۓ گا۔
******
امل کالج سے گھر آئی۔۔ابھی فریش ہو کر نکلی ہی تھی کہ امی نے بتایا کہ اسلام آباد سے دادا کا فون آیا ہے انہوں نے ہم سب کو آنے کا کہا ہے۔تم تیار ہو جاو تمہارے ابا آتے ہی ہوں گے۔
سیرئسلی۔۔۔۔ییس۔۔دادا نے میرے ٹاپ کرنے کی خوشی میں بلایا ہے کیا؟
ہو سکتا ہے۔۔۔امی نے کہا اور باہر چلی گئیں
امل جوش سے بھرپور اپنے کپڑے نکالنے لگی۔۔
*****
شام چھ بجے کے قریب امل اپنے امی ابا اور دونوں چھوٹے بہن بھائیوں کے ہمراہ اسلام آباد پہنچی۔۔۔گراج میں گاڑی رکی تو سامنے ہی دو سیڑھیوں کے اوپر مین ڈور تھا اس کے سامنے تایا ابا ، اور دادا کھڑے تھے۔۔
ابوو۔۔۔امل بھاگتی ہوئی ان سے ملی۔۔دادا کو وہ شروع سے ابو کہتی تھی۔۔۔دادا نے اس کی پیشانی چومتے ہوۓ اسے رزلٹ کی مبارکباد دی ان سے الگ ہو کر وہ تایا کی طرف بڑھی۔۔
آا۔۔۔۔میرا بیٹا کیسا ہے۔۔۔تایا نے پیار سے اسے گلے لگایا۔۔۔بڑے پاپا سب کہاں ہیں۔۔کوئی نظر نہیں آرہا۔۔۔
اندر ہیں سب چلو۔۔تایا کے داتھ وہ اندر داخل ہوئی۔۔اسے ہر طرف خاموشی اور اندھیرا نظر آیا۔۔جب اچانک ایک دھماکے کی آواز اور لائیٹس کے ساتھ کارگریچولیشنز۔۔۔۔کا شور ابھرا۔۔امل حیرت سے سب کو دیکھ رہی تھی۔۔تائی امی اسے آگے ہو کر ملیں۔۔جب فاطمہ نے اسے پیچھے سے ایک چپت لگائی ۔۔تم کچھ زیادہ ہی مصروف ہو گئ ہو۔۔بھول گئ نا لاہور جا کر۔۔
امل مسکراتے ہوۓ اس کی طرف بڑھی۔۔چڑیلوں کو بھی کبھی کوئی بھولتا ہے کیا۔۔
اس پر فاطمہ نے اسے ایک اور چپت رسید کی۔۔
یار فاطی۔۔تمہاری یہ عادت ابھی بھی نہیں گئ۔۔
نہیں تم گئی ہو تو میری شامت آئی رہتی اس فاطی کے ہاتھوں۔۔۔حنزلہ نے لقمہ دیا۔
ہاہاہا۔۔۔۔۔امل کھل کر ہنسی۔۔
فاطمہ اور حنزلہ تایا کے جڑواں بچے تھے اور امل ان دونوں سے تین سال چھوٹی تھی مگر ان تینوں کی آپس میں کافی دوستی تھی۔۔
*******
کھانے کے بعد امل سب کے لیے چاۓ لے کر آئی۔۔لاونچ میں سب بیٹھے تھے ۔۔امل سب کو چاۓ سرو کی تو دادا نے فاطمہ۔حنزلہ سالار اور میینا کو جانے کا کہا۔۔امل بھی ان کے ساتھ جانے لگی تو دادا نے کہا۔۔امل رکو۔۔امل نے حیرت سے انہیں دیکھا اور بیٹھ گئی۔۔۔
میں سوچ رہا تھا امل کے رزلٹ کی خوشی میں چھوٹی سی پارٹی رکھتے ہیں۔۔تایا نے کہا۔۔
ہونی بھی چاہیے لیکن ہمارے گھر۔۔ابراہیم نے ان کو کہا۔۔۔
نہیں بھئ۔۔سب کا لاہور جانا مشکل ہو گا اور میں پہلے ایک بات کر لوں۔۔پھر کریں گے دعوت کی بات۔۔دادا نے رعب سے کہا۔۔
سب دادا کی طرف متوجہ ہوۓ۔۔
میں چاہتا ہوں کہ امل اور حنزلہ کا نکاح کر دیا جاۓ۔۔
سب نے حیرانگی سے دادا کی طرف دیکھا۔۔
اس سے اچھی بات کوئی نہیں ہو سکتی ابا جان مجھے کوئی اعتراض نہیں امل میری ہی بیٹی ہے۔۔
لیکن ابا جان۔۔امل ابھی بہت چھوٹی ہے اور اس کی تعلیم۔۔ابراہیم نے کہا
امل سکتے میں تھی۔۔اسے یقین ہی نہیں آ رہا تھا۔۔
ابراہیم بھائی۔۔امل پڑھتی رہے گی اور ابھی تو صرف نکاح کا ہی تو کہا۔شادی اس کی تعلیم لے بعد کر لیں گے۔۔تائی کلثوم نے کہا اور ساتھ ہی نازیہ کو بھی کہا کچھ بولو نازیہ۔۔
بھابھی اتنی اچانک فیصلہ۔۔حنزلہ مجھے اپنے بچوں کی طرح ہے مگر امل میڈیکل میں جانا چاہتی ہے اور آپ جانتی ہیں اگر اس کا دھیان بٹ گیا تو اس کا خواب ادھورا رہ جاۓ گا۔۔ ابراہیم نے کچھ سوچنے کے بعد کہا۔۔
ابراہیم۔۔۔مجھے ہاں یا نا میں جواب دو۔۔۔دادا نے سختی سے کہا۔۔
ابا مجھے کوئی اعتراض نہیں آپ امل سے پوچھ لیں۔۔
بتاو امل۔
ابو۔۔۔۔مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آ رہی۔۔مجھے کچھ وقت چاہیے۔۔
ٹھیک ہے مجھے صبح تک بتا دینا۔۔دادا نے اسے کہا اور امل اٹھ کر فاطمہ کے کمرے میں آئی۔۔جہاں حنزلہ، میینا ، اور سالار بھی تھے۔امل کو دیکھ کر وہ چاروں اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے۔۔
امل نے حنزلہ کو دیکھا اور پھر خود کو نارمل کرتی ہوئی فاطمہ کے ساتھ بیٹھی۔۔
کیا ہوا امل۔۔
لچھ نہیں۔۔پارٹی کی باتیں ہو رہی تھی



من کجاWhere stories live. Discover now