قسط 9

21 3 3
                                    

من کجا
 

آریو سیریس امل۔۔فاطمہ نے کریدنے والے انداز میں کہا
یار فاطی۔۔اس نے میرے سامنے نہیں بتانا ہو گا۔۔حنزلہ نے لقمہ دیا۔۔امل نے جھٹکے سے اسے دیکھا۔۔وہ لاپرواہی سے کندھے اچکاتا یو کیری آن کہتا باہر نکلا۔۔
تمہیں پتا ہے فاطمہ کہ باہر کیا بات ہوئی ہے؟؟
بس تھوڑا سا۔۔اس نے دانت دکھاتے ہوۓ کہا۔۔
فاطی تم۔۔۔امل اس کی طرف لپکی تو اس نے تقیہ اپنے آگے کیا اور کہا اچھا سنو تو۔۔اس نے امل کو پکڑ کر اپنے پاس کیا۔۔میرے بھائی کے حوالے سے مجھے پتا ہے۔۔لیکن میری اس مووڈی بہن کے حوالے سے مجھے کچھ نہیں پتا۔۔اب خوش
ہی ہی ہی۔۔زیادہ بنو مت۔
اچھا چھوڑو۔۔یہ بتاو تم نے کیا سوچا۔۔
یار مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔۔اٹس ٹو ارلی۔۔میرا پہلا فوکس میڈیکل ہے ۔
تو یار تم کر لینا میڈیکل،تمہیں منع تو نہیں کر رہے نا۔۔
بہرحال یار فاطی۔۔میں کچھ سوچنے کے موڈ میں نہیں۔۔دادا کے پاس جا رہی ہوں۔اس کے بعد مجھے سونا ہے اور بس۔۔
اوکے بھابھی جی۔۔
امل نے اس گھورا۔۔
سوری۔۔
امل اس کے روم سے باہر آئی۔۔
اوپر کے پورشن میں تین کمرے تھے دو سامنے کی طرف اور تیسرا ان کے برعکس والا حنزلہ کا کمرہ تھا اس کے ساتھ ہی سیڑھیاں اترتی تھیں
۔۔نیچے دادا کا کمرہ، ماسٹر بیڈ روم گیسٹروم اور ڈرائنگ روم تھے،
امل دادا کے کمرے کی طرف بڑھی
،  وہ جب بھی یہاں
آتی دادا سے دو دو گھنٹے باتیں کرنے کے بعد فاطمہ کے کمرے میں جاتی۔
دادا کا کمرہ کھٹکھٹانے لگی کہ حنزلہ کی آواز آئی۔تھینکس دادا۔لیکن کام ابھی پورا نہیں ہوا۔حنزلہ دادا سے کہہ رہا تھا۔امل واپس جانے کا سوچ ہی رہی تھی کہ جھٹکے سے دروازہ کھلا۔اسی جھٹکے سے امل پیچھے ہوئی۔حنزلہ نے مسکراتی آنکھوں سے اسے دیکھا اور اندر آنے کا راستہ دیا۔اسے عجیب لگا
، حنزلہ سے دوستی ہونے کے باوجود وہ اس سے عجیب جھجک محسوس کر رہی تھی،وہ اس سے نظریں چراتی اندر کی طرف بڑھی۔۔
******
آگیا میرا بچا۔۔کب سے انتظار کر رہا تھا، دادا نے امل کو دیکھتے کہا،امل مسکرائی اور دادا کے مقابل ان کے بیڈ پر بیٹھی۔آپ نے دوا کھا لی ابو؟ جب میرا بچہ آتا ہے تو کسی دوا کی ضرورت نہیں ہوتی۔۔
پتا ہے۔۔لیکن لگتا ہے آپ نے پارٹی بدل لی ہے۔۔امل نے منہ بنا کر کہا۔اچھا۔۔کیوں لگتا ہے؟؟
بس لگتا ہے۔۔اچھا تو تم نے میری اور حنزلہ کی باتیں سنی ہیں۔نہیں لیکن اب آپ اسی کے کام کرتے ہیں امل نے منہ بنایا۔۔
باہر کھڑا حنزلہ کھل کے ہنسا۔
میرا بچہ پارٹی بدلی نہیں میں نے۔۔وہ تو بس اس کو اپنی پارٹی میں شامل کرنے لگا ہوں۔۔
داداااا۔۔وہ چڑی۔۔ہماری پارٹی کمزور تو نہیں ہے۔۔
کیا تمہیں حنزلہ پسند نہیں؟دادا نے سیدھا پوچھا۔۔باہر حنزلہ الرٹ ہو کر دروازے کے قریب ہوا۔دادا میں نے ایسا تو نہیں کہا
،  اس کا مطلب پسند ہے۔۔
ابو۔۔۔سب مجھے تنگ کرنے میں لگے ہیں مجھے سوچنے کا موقع ہی نہیں دے رہے۔۔امل رو دینے کو تھی۔تو چلو میں تمہاری مدد کر دیتا ہوں سوچنے میں۔دادا نے رسان سے کہا۔اور بولے
، حنزلہ اچھا ہے،؟؟ جی۔امل نے کہا
پڑھا لکھا ہے؟
جی۔۔
تممہارے تایا کا کاروبار سنبال رہا ہے؟؟ جی ابو۔۔
تو مسٔلہ کیا ہے؟ 
مجھے لگتا ہے وہ ایسا نہیں چاہتا۔اور وہ غصہ بھی کرنے لگا ہے۔اور وہ کل سے ایسے بیہیو کر رہا ہے جیسے وہ مجھے جانتا تک نہیں۔۔اور
اللہ اللہ امل۔۔اتنی مبالغہ آرائی ۔۔حنزلہ نے آنکھیں گھمائیں۔
اور،اور۔۔امل بس کرو یہ کوئی وجہ نہیں ہے منع کرنے کی۔۔
ابو میں نے منع تو نہیں کیا۔۔امل نے اچانک کہا۔۔تو اس کا مطلب تمہیں منظور ہے۔۔امل نے ہاں میں سر ہلایا اور کچھ کہے بغیر اٹھ گئی۔۔
حنزلہ کو پتا ہی نا تھا کہ وہ باہر آرہی ہے جب اچانک امل نےدروازہ کھولا تو وہ جو دروزے سے ٹیک لگاۓ کھڑا تھا بری طرح سے امل سے ٹکرایا۔۔امل سٹپٹا گئ۔۔جلدی سے حنزلہ نے اسے  بازو سے پکڑ کر آگے کیا اور دادا کے دیکھنے سے پہلے دروازہ بند کیا۔۔
اوہ۔ایک ٹھنڈی آہ بھرتا وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔جبکہ امل وہیں بت بنی اس کو اوپر جاتا دیکھتی رہی۔۔تو کیا یہ تب سے باہر کھڑا تھا؟؟ اففف۔۔امل فاطمہ کے کمرے کی طرف بڑھی۔۔
******
امل سو کر اٹھی

پر آ گئی .، فریش ہو کر اپنے لیے سیڈوچ اور چاۓ بنا کر اوپر ٹیرس
سب ناشتہ کر چکے تھے
، فاطمہ یونیورسٹی گئی تھی،تایااور ان کے ساتھ کام پر اور تائی اور امی آپس میں گفتگو میں مشغول،جبکہ سالار اور میینا سائکلنگ کرنے باہر۔۔
اوپر کے پورشن میں ڈرائنگ روم کی جگہ کھلا سا ٹیرس تھا اور یہ امل کی پسندیدہ جگہ تھی۔کین کا صوفہ درمیان مین پڑا تھا جبکہ ڈبل سیٹر جھولا اس طرح رکھا تھا کہ بیٹھنے والے کا چہرا اندر کی طرف ہو۔جبکہ لان سے اس کی پشت دکھائی دے۔۔امل چاۓ کا مگ پکڑے جھولے پر بیٹھ گئی۔
حنزلہ فریش ہو کر سیڑھیاں اترتا۔سیاہ جینز پر سفید ٹی شرٹ پہنے گیلے
بالوں کو ایک طرف کیے ہلکی بیرڈ کو ہاتھ سے درست کرتا بہت اچھا لگ رہا تھا۔گیراج میں گاڑی کی طرف بڑھے اس کے ہاتھ رکے۔اس نے ٹیرس پر امل کو دیکھا واپس اندر کی طرف گیا۔۔سیڑھیاں چرھتے بالوں کو سیٹ کیا اور خود کو نارمل رہنے کی تلقین کرتا ٹیرس کی طرف بڑھا۔۔
امل کو دیکھ کر رکا۔سیاہ کیپری پر سیاہ اور سفید ٹاپ پہنے سفید بینڈ لگاۓ وہ بہت خوبصورت لگی تھی۔
کب اٹھی امل۔۔
کچھ دیر ہوئی ہے۔امل نے اسے دیکھ کر فوراً منہ نیچے کیا اور چاۓ پینے کے ساتھ ساتھ منہ کے زاویے بنانے لگی۔۔
حنزلہ کین کا صوفہ کھینچ کر اس کے سامنے کی جانب بیٹھ گیا۔۔
تم نے چاۓ بنائی تھی تو میرے لیے بھی بنا دیتی،ناشتہ تو میں نے بھی کرنا تھا ابھی۔
مجھے کیا پتا تم بڑے پاپا کے ساتھ نہیں گۓ۔۔امل نے رسان سے جواب دیا۔
چچا ابراہیم نے ہی منع کیا تھا مجھے وہ جو گۓ ہیں۔
میں بنا لاتی ہوں چاۓ تمہارے لیے۔۔امل اٹھی تھی جب اس نے اس کا ہاتھ پکڑا۔رہنے دو بیٹھو ادھر۔امل کا دل ڈوبا۔۔وہ دوست رہے تھے لیکن امل کو اتنی ہچکچاہٹ محسوس ہو سکتی ہے اسے اندازہ نہیں تھا۔
خود کو کمپوز کرتی وہ بیٹھی۔۔تم نے دادا سے میری کیا شکایتیں کی ہیں ۔۔
کچھ بھی نہیں ،، ۔امل کھبرائی۔
تم پر غصہ کب کیا ہے میں نے، اور کل سے اگنور تو تم مجھے کر رہی ہو کہ ہمارے رشتے کی بات نا ہو گئی کوئی مسئلہ ہو گیا کہ تم مجھ سے چھپتی پھرو۔۔۔
امل پریشان ہوئی۔۔کیا کروں منہ نیچے کیے وہ ٹھنڈی پڑ رہی تھی۔۔تم نے دادا اور میری باتیں بھی تو سنی ہیں چھپ کر۔۔اب مجھے ڈانٹنے آ گۓ ہو۔امل نے منہ بسورا۔۔
ہیں۔۔۔میں ڈانٹ رہا ہوں؟؟؟
تو اور کیا۔۔امل کو دل ہی دل میں خوشی ہوئی تھی کہ اسے جواب مل گیا۔
امل۔۔۔تمہیں جو اعتراض ہے مجھ سے وہ مجھے بتاو
، کسی اور کو
نہیں۔۔اس نے نرمی سے امل کو کہا۔۔امل اسے دیکھ کر رہ گئ۔
بتاؤ کیا اعتراض ہے۔۔
ن۔نن۔نہیں۔۔کچھ بھی نہیں۔۔امل کہتی اٹھی اور فاطمہ کے کمرے کی طرف بڑھی۔۔
امل۔۔میں فاطمہ کو لینے جا رہا ہوں
، تم بھی چلو ورنہ قیمہ بنا دے گی وہ میرا۔۔۔
اس کے قریب سے گزرتا آہستہ سے کہتا وہ سیڑھیوں کی طرف بڑھا۔
******
امل گاڑی کا فرنٹ ڈور کھول کر بیٹھی تو سالار اور میینا گھر میں داخل ہوۓ۔۔
سالار۔۔۔حنزلہ نے اسے بلایا۔۔اس کو اپنا فون پکڑاتے ہوۓ اس کو آہستہ سے کچھ کہا کہ امل جو میینا سے بات کر رہی تھی سن نہ سکی۔۔کچھ لمحے وہ اسی طرح گاڑی میں بیٹھے رہے جب امل نے کہا
چلو۔۔دیر ہو رہی ہے۔۔
ہاں ایک منٹ۔۔
سالار نے اسے فون واپس کیا تو گاڑی نکالنے لگا۔ایک ہاتھ سے سٹیئرنگ گماتے دوسرے ہاتھ سے فون تھامے مدھم مسکراہٹ کے ساتھ سکرین دیکھتا حنزلہ امل لو اچھا لگا تھا۔۔
مرواؤ گے کیا۔۔۔گاڑی پر دھیان دو ۔۔امل نے اس سے فون چھینا۔۔حملہ اتنا اچانک تھا کہ وہ بیک بھی نہ کر سکا۔۔امل نے سراری نگاہ فون پر ڈالی اور ڈیشبورڈ پر رکھنے لگی کہ دوبارہ سکرین کو دیکھا۔۔حنزلہ اس کے تاثرات سے محظوظ ہوا۔۔امل نے حنزلہ کو دیکھا۔۔اور پھر موبائل کو۔۔یہ ۔۔یہ۔۔
حنزلہ بظاہر اپنا فوکس گاڑی پر رکھے اس کو ہی دیکھ رہا تھا۔۔گاڑی چلا رہا ہوں۔۔دیکھ نہیں رہی۔۔
اچھا چلاو چلاو۔۔ان کو تو میں ابھی ڈیلیٹ۔۔
نہیں امل۔۔۔اس کی بات پوری ہونے سے پہلے اس نے اچانک بریک لگائی ۔۔اور امل سے فون چھیننے کے لیے آگے ہوا۔امل نے فون دوسری طرف کر لیا تو اس نے امل کی کلائی کو زور سے پکڑا امل ایک دم پیچھے کو ہٹی۔۔ہاتھ چھوڑو حنزلہ۔۔پہلے فون دو۔ اس کی ہاتھ کی سخت گرفت سے امل گھبرائی اور فون اس کی طرف بڑھایا۔۔
اس نے فون پکڑا اور امل کی کلائی چھوڑی۔۔امل نے اپنے حلق میں آنسو اٹکتے محسوس کیے۔۔اپنی کلائی دوسرے ہاتھ سے سہلاتی اس نے اپنا رخ کھڑکی کی جانب موڑا۔۔
یونیورسٹی کے سامنے گاڑی کو بریک لگا کر حنزلہ نے فاطمہ کو آنے کا مسج کیا۔۔امل ابھی تک ایسے ہی بیٹھی تھی اس کی سرخ ہوتی کلائی کو نرمی سے حنزلہ نے تھاما۔۔سوری امل۔۔امل نے جھٹکے سے اپنا ہاتھ اس چھڑوایا۔۔
اچھا سوری نا۔۔اتنے میں فاطمہ نے گاڑی کا دروازہ کھولا جب امل بھی اتر کر اس کے ساتھ پچھلی سیٹ پر بیٹھی۔
کیا ہوا۔۔اس کا موڈ خراب دیکھ کر فاطمہ نے پوچھا ۔۔
یہ تو دادا بتائیں گے۔۔حنزلہ کی طرف دیکھ کر کہا۔وہ جو اس کے اترنے پر مڑا تھا اور پیچھے کو ہوا۔۔کیا؟؟؟
فاطمہ نے بھی سوالیہ نظروں سے دونوں کو دیکھا۔
یہ ہی کہ مجھے نہیں کرنی ان کے ہٹلر پوتے سے شادی۔۔
ہیں۔۔دونوں بیک وقت چیخے۔۔
ہوا کیا ہے کوئی مجھے بتاۓ گا۔۔
میں بتاتا ہوں۔۔امل کو منہ بناۓ بیٹھی دیکھ کر حنزلہ نے کہا۔۔۔
میں نے سالار سے ہماری تصویر بنوائی تھی،امل نے دیکھ لی اور میرے فون سے ڈیلیٹ کرنے لگی تھی۔۔مجھے اس سے فون چھیننا پڑا۔۔
فاطمہ نے امل کی طرف دیکھا۔۔بتاؤ کس کی غلطی ہے ؟؟ امل نے اس سے پوچھا ۔۔پہلے اس نے چھپ کے تصویر بنائی پھر اس نے میرا بازو اتنی زور سے مروڑ کر فون چھینا۔۔
فاطمہ نے امل کے ہاتھ کو دیکھا جہاں اب کوئی نشان نہ تھا۔
مروڑا تو نہیں بس پکڑا ہی تھا۔۔وہ بھی پیار سے۔۔۔منہ میں بڑبڑاتے ہوۓ اس نے گاڑی سٹارٹ کی۔۔
غلطی تمہاری ہے حنزلہ ۔۔اب ہمیں لنچ کراو اور آئسکریم بھی کھلاو فاطمہ نے اس کو ڈانتے ہوۓ کہا۔۔
اوکے باس۔۔ویسے صبح سے ناشتہ تک مجھ غریب نے نہیں کیا بیک مرر میں امل کو دیکھتے ہوۓ اس نے جواب دیا۔
امل لاپرواہ سی بیٹھی منہ کے زاویے بناتی رہی۔۔۔
امل۔۔۔کہاں جانا ہے؟؟ حنزلہ نے براہ راست اس سے پوچھا۔۔
سیور فوڈز۔۔غصے سے اسے دیکھ کر کہا۔۔
اوہووو۔ابھی سے ہی آرڈرز۔۔کیا بات ہے بھئ۔۔فاطمہ نے کہا۔۔
یہ ایسا کرے گا تو اس کو ڈبل خرچہ کرنا پڑے گا۔۔امل نے فاطمہ کو دیکھتے ہوۓ کہا۔۔جبکہ بیک مرر میں دیکھتا حنزلہ اس کی اس ادا پر دل تھا کر رہ گیا۔۔
******
امل۔۔۔۔۔۔۔فاطمہ دیوانہوار بھاگتی ہوئی اس کے پاس آئی۔۔یار جمعے کو تمہارا اور حنزلہ کا نکاح ہے۔۔۔ابھی دادا نے سب کو بتایا۔۔
فاطی میری کالج سے چھٹیاں ہو جائیں گی۔۔پہلے ہی دو ہو گئیں ۔۔امل نے پریشانی سے کہا۔۔۔
واہٹ۔۔تمہارا نکاح ہے اور تمہیں کالج کی پڑی ہے۔۔اور ویسے بھی ایک ہفتے کی ہی بات ہے۔۔آج منگل ہے۔۔۔سنڈے تک تم چلی جانا۔۔میں دادا سے بات کر کے آئی۔۔امل نے اس کو کہا اور آگے بڑھی۔۔
امل رکو۔۔۔وہ اس کو آواز دیتی رہ گئی
ابوو۔۔دادا کے کمرے کا دروازہ ناک کرتی وہ آندر داخل ہوئی ۔۔
ان سے پیار لیا اور پاس پڑے صوفے پر بیٹھی۔۔ابو پلیز ابھی صرف انگیجمنٹ رکھ لیں۔۔نکاح بعد میں ہو جاۓ گا۔پلیز۔۔
انہوں نے اس کے سر پر پیار سے ہاتھ رکھا۔۔میرا بچہ۔۔یہ منگنی ونگنی نا کوئی معنی نہیں رکھتی۔۔نکاح میں بڑی طاقت ہوتی ہے۔۔بس اب فیچلہ ہو گیا ہے تم اور فاطمہ جاؤ اور اپنی پسند کی چیزیں لے کر آو۔جاو شاباش۔۔چاروناچار امل اٹھ کر باہر آئی۔۔
امی اور تایئ امی کو دیکھ کر رکی۔۔ان دونوں نے اسے پیار کیا اور مبارک دی۔۔ساتھ ہی تائی امی نے اسے کہا کہ کچھ کپڑے وغیرہ خریدنے جا رہی ہیں فاطمہ اور تم ڈنر کا کچھ دیکھ لینا۔۔او کے تائی امی۔۔ان کو کہتی وہ اوپر آئی۔۔حنزلہ کو سیڑھیوں سے اترتا دیکھ کر وہیں رک گئ۔۔وہ اس کے قریب سے گزرتے ہوۓ رکا۔۔امل نے بےاختیار اس سے نظریں ہٹائیں،۔۔اس کی سرخ ہوتی گالوں کو مسکراہٹ دباۓ دیکھتا وہ آگے بڑھ گیا۔۔پریشان ہوتی امل بھاگتی ہوئی کمرے میں آئی۔۔شکر فاطمہ کمرے میں نہیں تھی۔۔خود کو کمپوز کرتی وہ اٹھی فاطمہ کو دیکھنے نیچے آئی۔۔
فاطی۔۔۔آواز دیتی امل کچن کی طرف بڑھی۔۔تم ادھر ہو۔۔اسے دیکھ کر امل نے کہا، کیا بنانے لگی ہو۔۔تائی امی نے ڈنر کا بولا تھا۔۔۔ہاں سوچ رہی ہوں کیا بناوں۔۔
میں منچورین بناوں؟ امل نے پوچھا۔۔فاطمہ نے حیرت سے اسے دیکھا۔۔ایسےکیا دیکھ رہی ہو مجھے بنانا آتا ہے۔۔امل نے اسے کہا۔۔بناو پھر ویسے بھی حنزلہ کو بہت پسند ہےفاطنہ نے اسے چھیڑا۔۔۔ہنہ۔۔پھر بہت برا بناؤں گی۔۔امل نے ببڑبڑاتے ہوۓ کہا جس کی آواز فاطمہ تک پہنچ چکی تھی۔۔
افف امل۔۔کچھ تو خیال کرو۔۔یی لو ویجیٹیبلز میں فرائیڈ رائس اور قیمہ بنا لوں گی۔۔اس کو کہتی وہ آگے بڑھی۔۔
فاطی۔۔میٹھے میں کیا بنانا ہے؟؟ امل نے پوچھا۔۔چاکلیٹ ٹرائفل حنزلہ جو کہ ابھی کچن میں داخل ہو رہا تھا اس نے جواب دیا۔۔
افف۔۔چاکلیٹ۔ ٹرایفل۔۔امل کے منہ میں پانی آیا۔۔مگر ظاہر کراۓ بغیر جواب دیا۔۔فاطی کیک کا سامان نکال دو۔۔
فاطی۔۔ٹرائفل بنانا نہیں آتا ہماری خوبصورت کزن کو۔۔۔حنزلہ نے امل کے سامنے پڑی سبزیوں میں سے گاجر کا ٹکڑا پکڑتے ہوۓ کہا۔۔۔
آتا ہے مجھے بنانا۔۔۔
تو بناو پھر۔۔حنزلہ ہنسا۔۔
بناوں گی بھی تو تمھیں تو ہر گز نہیں کھانے دوں گی۔۔ہنہ۔۔امل نے منہ توڑ جواب دینا ضروری سمجھا۔۔
کھانا کھاتے ہوۓ سب نے امل کے بناۓ منچورین کی تعریف کی تھی۔۔تایا ابا نے اسے سراہا تو اس نے کہا میں نے ٹرائفل بھی بنایا ہے۔۔
ارے واہ۔۔۔تایا ابا نے اسے داد دی
وہ ٹرائفل ہے جو فریج میں رکھا ہے؟؟ وہ تو کھیر لگ رہی ہے۔۔حنزلہ نے کہا۔۔
ابھی لے کر آتی ہوں میں۔۔وہ کچن کی طرف گئی۔۔فریج کھول کر ٹرائفل نکالنے کے لیے ہاتھ بڑھایا کہاں گیا۔۔امل جھک کر دیکھنے لگی کھیر کا باؤل رکھا نظر آیا۔۔
سوری ٹو سے مائی ڈئیر کزن ۔۔۔ٹرائفل تو صرف میں کھاوں گا۔۔۔یہ کھیر لایا تھا۔تم سب کو یہ دے دو۔۔حنزلہ نے کچن کے دروازے سے جھانک کر کہا اور اوپر اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔۔
حنزلہ۔۔۔۔امل غصے سے وہیں کھڑی رہ گئ۔۔کھیر کا باؤل کھانے کی میز پر رکھ کر فاطمہ کے کمرے کی طرف گئ۔۔پھر اچانک رکی اور قدم حنزلہ کے کمرے کی طرف بڑھاۓ۔۔اس کا تو ابھی دماغ درست کرتی میں۔۔سوچتے ہوۓ دھم سے اس کے کمرے کا دروازہ کھولا۔۔وہ جو ٹرائفل کا باول پکڑے بیٹھا تھا اچانک اٹھا اور باؤل اپنے پیچھے کیا۔۔۔اگر تم چاہو تو ایک ڈیل ہو سکتی ہے۔۔
میں کوئی ڈیل کرنے نہیں آئی۔۔ٹرائفل واپس کرو حنزلہ۔۔۔سب انتظار کر رہے ہیں۔۔میں نے ان کو ٹرائفل کا کہا اور تم مجھے انہیں کھیر دینے کا کہہ رہے ہو۔۔وہ غصے سے بولی
میں نے فاطمہ کو بتا دیا تھا وہ سب کو سمجھا دے گی۔۔تحمل سے کہتا وہ ٹرائفل کھانے لگا۔۔۔
تم نہایت ہی ڈھیٹ ہو اسے ٹرائفل کھاتا دیکھ کر امل کو اور غصہ آیا۔۔ایک تو سب کے سامنے مجھے شرمندہ کیا اوپر سے سارا ٹرائفل کھا جاۓ گا۔۔میں نے بھی کھانا تھا۔۔
ڈھیٹ تو میں واقع ہی ہوں مس امل ابراہیم ۔۔۔اور اپنی پسند پر کوئی کمپرومائز نہیں کرتا۔۔اس کے قریب کھڑا وہ اسے دیکھ کر کہہ رہا تھا۔۔اور یاد رکھنا یہ بات۔۔اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ اس نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوۓ کہا۔۔امل کو اس کو آنکھوں سے خوف آیا تھا۔۔اسے لگا تھا کہ وہ اسے اپنی آنکھوں میں قید کر لے گا۔۔۔
امل کا ہاتھ پکڑ کر ٹرائفل کا باول اسے تھما کر وہ اپنی وارڈروب کی طرف بڑھ گیا۔۔امل تقریباً بھاگتی ہوئی فاطمہ کے کمرے میں آئی تھی۔۔حنزلہ کریم اس کا بدلہ تو میں تم سے لے کر رہوں گی۔۔سمجھتا کیا ہے یہ خود کو۔۔ایسے حق جمانے کی کوشش کر رہا ہے جیسے زرخرید غلام ہوں اس کی۔۔نہیں امل تم یہ نہیں ہونے دے سکتی۔۔تم اس سے محبت نہیں کر سکتی۔۔قطعاً نہیں۔۔تمہیں ابھی بہت ۔۔۔۔۔کچھ کرنا ہے۔۔ڈاکٹر بننا ہے،
شہرت حاصل کرنی ہے، نام کمانا ہے۔۔بہت سے کام کرنے ہیں امل۔۔
امل۔۔۔کدھر گم ہو۔۔فاطمہ نے اسے ہلایا۔۔ہاں کہیں نہیں وہ چونکی۔۔یہ کیا۔۔۔تم نے حنزلہ سے ٹرائفل لے لیا۔۔کتنی بے حس ہو تم۔۔میرے معصوم بھائی نے تم سے بہانے سے بنوا ہی لیا تھا تو کھانے دیتی یار۔۔۔اتنے مان سے وہ لے کے گیا تھا اور کھیر لا تو دی تھی اس نے۔۔۔فاطمہ نے اسے ڈانٹا۔۔
اچھا۔۔۔تو اب آپ بھی اسی کی سائیڈ لیں گی۔۔۔وہ ایڈیٹ۔۔۔کوئی طریقہ بھی ہوتا ہے۔۔۔اس نے سب کے سامنے مجھے شرمندہ کیا۔۔۔
امل سب کون۔۔۔اور کیسی شرمندگی یار۔۔کسی نے کچھ کہا۔۔۔
میں نہیں لائی اس سے ٹرائفل ۔۔اس نے خود دیا ہے۔۔۔لے جاؤ۔دے دو اسے۔۔۔غصے سے کہتی وہ اٹھی اور چہرے تک کمبل اوڑھ کر لیٹ گئی۔۔
*******
امل۔۔۔اٹھو۔۔فاطمہ نے اسے اٹھایا۔۔۔ٹائم دیکھتے ہوۓ امل اٹھی لیکن اس سے کوئی بات نہ کی۔۔۔
امل۔۔۔اٹھو یار۔۔امی نے کہا ہے ہم تمہارے نکاح کا ڈریس لے آئیں۔۔اور میں نے اپنی بھی بہت سی شاپنگ کرنی ہے۔۔چلو۔۔
امل خاموشی سے اٹھی
، خالئی الذہنی کے عالم میں تیار ہوئی۔۔ابالوں لو ہئر بینڈ لگا کر ہلکی سی لپسٹک لگا کر بیگ پکڑا۔۔۔فاطمہ حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔امل امل۔۔۔۔۔اس کے پیچھے بھاگتی فاطمہ نے اسے بازو سے پکڑا۔۔امل ناراض ہو۔۔
نہیں۔۔آر یو شیور امل۔۔ہممم۔۔گاڑی میں بیٹھ کر امل نے سر سیٹ کی پشت سے ٹکایا اور آنکھیں موند کر بیٹھی رہی۔۔فاطمہ اور حنزلہ نے ایک دوسرے کو اشارا کیا۔۔کیا ہوا۔۔
پہلے کدھر جانا ہے؟؟ حنزلہ نے گاڑی سٹارٹ کرتے ہوۓ پوچھا۔۔فاطمہ کچھ کہنے ہی لگی تھی کہ امل بولی۔۔۔
کسی کافی شاپ پر۔۔۔ناشتہ نہیں کیا میں نے۔
سینچرس مال کی کافی اچھی ہے۔۔ادھر چلو۔۔ امل کےکافی پینے تک میں اپنی شاپنگ پوری کر لوں گی اور امل ناشتہ کر کے اپنی شاپنگ کر لے گی۔
۔اوکےآنکھیں موندے امل نے جواب دیا۔۔۔
مال میں داخل ہو کر فاطمہ جے ڈاٹ کی آوٹلیٹ کی طرف بڑھ گئ جبکہ حنزلہ امل کے ساتھ کیفے کی طرف بڑھا۔امل۔۔۔آر یو اوکے؟؟
ہممم۔۔کہہ کر وہ ایک ٹیبل کی کرسی کھینچ کر بیٹھی۔۔مینیو کارڈ چیک کرتے ہوۓ حنزلہ کی طرف دیکھا جو ویٹر کو آرڈر بتا رہا تھا۔۔اس کو پتا تھا وہ کیا پسند کرتی ہے۔۔رکیں۔۔کہہ کر امل نے آرڈر چینج کرویا۔۔
امل۔۔تم تو ناشتے چاۓ پیتی ہو۔۔میں نے تمہاری پسند کا ہی آرڈر کیا تھا۔۔۔
پسند کا کیا ہے۔۔۔چند سیکنڈز میں بدل جاتی ہے۔۔۔
امل۔۔۔تم ناراض ہو؟؟ آیم سوری۔۔۔
نہیں۔۔کہہ کر امل خاموش ہو گئی۔۔۔
امل کچھ بولو تو۔۔۔مجھے تمہاری خاموشی سے ڈر لگ رہا ہے۔۔آئی ڈو ریمیمبر ۔۔۔جب بچپن میں بھی تم مجھ سے ناراض ہو گئی تھی تمہاری شکایت چچی کو بتانے پر۔۔تو بہت برا لگا تھا مجھے۔۔۔کتنی مشکل سے منایا تھا میں نے تمہیں۔۔تم مان تو گئ تھی لیکن میرے ساتھ ٹیوشن لینی چھوڑ دی تھی تم نے۔۔۔۔ایک منٹ۔۔۔امل۔۔۔کیا اب بھی تو تم مجھے چھوڑنے کا تو نہیں سوچ رہی؟؟؟ نکاح سے انکار تو نہیں کر دو گی۔۔۔حنزلہ نے پریشانی سے پوچھا
امل نے چونک کر اسے دیکھا۔۔۔امل کا دل ڈوب کر ابھرا تھا۔۔نہیں۔۔ہاں مگر کچھ شرائط تمہیں میری ماننا ہوں گی۔۔
کیسی شرائط امل۔۔
نکاح والے دن پتا چل جائیں گی۔۔
حنزلہ کی پریشانی کچھ کم ہوئی تھی۔۔وہ اس کی ہر شرط ماننے کے لیے تیار تھا۔۔
۔

من کجاWhere stories live. Discover now