قسط نمبر 3

41 5 7
                                    

من کجا
   از قلم۔ زینب شیخ
                      
دس بجے کے قریب انھیں یہ پیغام ملا کہ فرسٹ ایئرکی اورینٹیشن ھے تو نیچے کانفرنس روم میں جمع ھو جایئں۔ھانیہ کمرے میں داخل ھو رھی تھی جب اس کی نظر ایک لڑکی پر پڑی۔ھانیہ اس کی جانب بڑھی اور پیچھے سے اس کے کندھے پر ھاتھ رکھ دیا۔
عکس۔۔۔۔۔۔
وہ کچھ گھبرا کر پلٹی اور کچھ لمھے ساکت کھڑی رھی جب اس کی آنکھوں میں شناسائی ابھری اور بے یقینی کے عالم میں آگے بڑھ کر اسے ملی۔۔۔۔
م۔میں بلکل ٹھیک۔۔مجھے یقین نھیں ا رھا تم یہاں۔
بس دیکھ لو قسمت نے ھمیں دوبارہ ملا دیا۔وہ ھنستے ھوے اسے اپنی اسلاماباد سے لاھور آنے کی رواداد سنانے لگی۔
امل اور عکس ایک دوسرے کو اس وقت سے جانتی تھیں جب امل پہلی مرتبہ
لاھور زیادہ عرصہ کے لیے رھنے آئی تھی۔ اس وقت اس کی عمر بارہ سال تھی جب امل کے دادا نے اپنا آبا ئی گھر بیچ کر اپنی اولاد کو ان کے حصے دیے تھے۔ ابراھیم اپنا حصہ لے کر لاہور آ گئے تھے۔ کچھ پیسوں سے انھوں نے کاروبار کر لیا اور باقی رقم سے انہوں نے لاہور میں پلاٹ خریدا۔ اس وقت امل اپنے دو بھن بھائیوں ور امی ابا کے ساتھ لاھور ایک کرائے کے گھر میں آ گئی۔
تقریبا ایک سال وہ وہاں رھے اور جب اس کے والد کا کاروبار نہ چلا تو وہ وآپس اسلاماباد آ گئے جہاں اس کے والد الیکٹرانکس کی کمپنی میں جاب کرنے لگے۔
امل ابراھیم اور عکس سلطان اس ایک سال ایک ساتھ پڑھتی رھیں۔اور بھت اچھی دوستیں بھی بن گئیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
کالج کا تیسرہ دن تھا۔ امل نے کلاس میں آ کر بیگ رکھا دپٹا گلے من اٹکایا اور اپنی بھوری ھائی ٹیل پونی کو ٹایئٹ کر کے کلاس سے باھر آئی۔اسے عکس کی کلاس میں جانا تھا ان کی کلاسس الگ الگ تھیں ۔ عکس آئی سی ایس کر رھی تھی اور امل ایف ایس سی۔صرف کمپلسری سبجکٹس میں وہ ایک کلاس میں ھوتیں۔ اس کی کلاس کے باھر کھڑے ھو کر اس ن عکس کو اشارہ کیا۔
اسلام و علیکم۔۔۔کیسی ھو؟کہتے ھوئے امل آگے برھ کر اسے ملی۔
وعلیکم سلام۔۔۔میں ٹھیک تم بتاو۔۔
perfectly fine
مسکراتے ھوئے اسے جواب دے کر اس سے الگ ھوئی جب عکس اپنی دایئں جانب اشارہ کرتے ھوئے کہا، امل  یہ مروہ ہے، میٹرک میں میرے ساتھ پڑھتی تھی۔
Ohhh..hyyy
مسکراتے ھوئے اس نے اپنا ھاتھ آگے بڑھایا جسے اس نے تھام لیا۔عکس کے توسط سے ملنے والی اس لڑکی سے امل کی بھت جلدی دوستی ھو گئی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کاریڈور کی سیڑھیوں پر بیٹھی وہ لیز کا پکٹ ھاتھ میں پکڑے وہ گم سم سی بیٹھی گنگنا رہی تھی
کبھی آشنا کبھی اجنبی۔                    
            ہے کبھی گماں تو کبھی یقیں۔                
وہ جو پاس ہیں کہاں ساتھ ہیں۔              
میرے ہم نوا میرے ہم نشیں۔                 
۔۔کیا ھوا اداس کیوں بیٹھی ھو۔ عکس اس کے ساتھ آ کر بیٹھی تھی۔۔۔۔کچھ نہیں۔۔اسلامااباد کو مس کر رہی ہوں۔۔۔فرینڈز، کزنز اس نے منہ بنا کر کہا۔۔
اوہو تو اس میں پریشان ھونے والی کون سی بات ھے۔کبھی نہ کبھی تو ہمیں کسی نہ کسی سے الگ ہونا ہی پڑتا ہے۔تمھیں پتا ھے؟؟ میں بھی اپنی ایک دوست کو بہت مس کرتی ھوں۔ میرے بچپن کی دوست ہے تم ملی تھی اس سے یاد ہے
ہاں۔۔امل نے مختصر جواب دیا
۔۔تمہیں پتا ھے میں نے اور اس نے ایک دوسرے سے وعدہ کیا تھا کہ ھم کھیں بھی چلے جایئں ھمیشہ بسٹ فرینڈز رہیں گے۔
امل حیرت سے اسے دیکھ رھی تھی۔۔اس کی اداسی میں اضافہ ھوا تھا۔پتا نہی کیوں۔۔شاید اس لیے کہ عکس اس کی کلاس میں اس کی واحد دوست تھی جو پہلے بھی اس کی دوست رھ چکی تھی۔
آو میں تمھیں اپنا سکول دکھاتی ھوں بھت بڑا سکول ھے ھمارا۔۔عکس نے امل سے کہا۔
ھاں چلو۔۔
تمھیں پتا ھے جو تمھاری نانو ھیں نا وہ میری بھی نانو ھیں۔سیڑھیوں کی طرف بڑھتے ھوے اس نے کہا۔
اچھا وہ کیسے۔۔نانو تو خالہ کے بچوں کی سیم ھوتی۔۔
ھاں۔۔۔جو میری کزن ھے نا وہ تمھاری نانو کو نانو کھتی ھے اس لیے میں بھی کھتی۔
اووووو۔۔۔۔واو۔۔۔کہتے ھوے وہ اس کی طرف مڑنے ھی لگی تھی کہ اچانک پیر پھسلا اور وہ سیڑیوں میں گرتی ھی چلی گئی۔
اوووو۔۔۔۔امل کہتے ھوے عکس اس کے پیچھے لپکی۔۔
ھاھاھھاھاھاھا۔۔۔شکر ۔۔ھے۔۔۔ چار پانچ سیڑھیاں ھی رہ گئی تھی ورنہ آج سکول کا پہلا دن ھی فلاپ ہو جاتا۔
اس کا ھاتھ پکڑ کر کہتے ھوے وہ اٹھی اور کپڑے جھاڑنے لگی۔
ضرورت ھی کیا تھی زیادہ شوخی ھونے کی اب مزہ آیا۔۔۔
امل۔۔امل۔۔کیا ھوا۔کدھر گم ھو گئی؟
ھاں وہ چونک کر ہال میں واپس آئی۔کچھ نہیں کلاس کا ٹائم ھو گیا ھے۔میں جا رھی ھوں۔
وہ اداسی سے کہتی کلاس کی طرف بڑھ گئ۔

من کجاWhere stories live. Discover now