چھٹی قسط

193 13 7
                                    

گھر آنے کے بعد کسی سے بھی ملے بغیر اس نے خود کو کمرے میں بند کرلیا تھا۔۔۔آج سے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا تھا وہ یونی سے واپسی پر ہمیشہ سب سے پہلے اماں بی کو ملتی تھی ۔۔۔۔۔

اماں بی نے جب اسے کمرے میں بند ہوتے دیکھا تو وہ پریشانی کے عالم میں اس کے کمرے کی جانب بڑھی ۔حیات میرا بچہ کیا ہوا ہے مجھے بتاٶ تو سہی میری جان۔۔ اماں بی کا پریشانی سے برا حال تھا اور وہ مسلسل ساتھ ساتھ دروازے پر دستک دیتی جا رہیں تھیں۔ مگر اندر سے کوٸی جواب نہیں آرہا تھا۔

حیات اماں بی نے پھرسے اسے پکارا میری پیاری بیٹی دروازہ تو کھولو نا۔

کچھ بھی  نہیں ہوا اماں بی میں ٹھیک ہوں رات ڈنر پر آپ سے ملتی ہوں اندر سے بھیگی آواز میں جواب دیا گیا تھا۔

اماں بی نے اس کی آواز میں بھیگا پن بخوبی محسوس کیا تھا اور وہ پریشانی کے علم میں وہاں سے چلی گٸیں تھیں۔ ان کو پتا تھا کہ وہ اپنی ضد کی پکی ہے اگر رات کو ملنے کا بولا تھا تو اب انہیں رات کا انتظار تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ چاروں نک سک سے تیار چودھری انڈسٹری کے سامنے کھڑے تھے۔چلو بھاٸیوں کھڑے کیا ہو؟ اپنا ہی آفس سمجھو مزمل آنکھوں پر گلاسسز لگاتے ہوۓ بولا(وہ سارے ٹور کے لیے وجدان اور ریان کو منانے آۓ تھے جنہوں نے فون پر انہیں نا آنے کی صاف ہری جھنڈی دکھائی تھی) رک جا بیٹا فون کر کے بتا دیتے ہیں ان کو وہ لوگ کسی ضروری میٹنگ میں نا ہوں عیان سمجھداری سے بولا۔

کیوں بتاٸیں ہمارے یار کا دفتر ہے کسی کا باپ بھی مجھے انہیں ملنے سے روک نہیں سکتا اب کی بار عفان بولا۔

بھاٸی یہ تو ایسے بکواس کر رہا ہے جیسے اپنی سوتیلی اماں کے دفتر آگیا ہو مزمل بولا۔

بکواس نا کرو عیان چڑ کر بولا۔

یار کیسے یار ہیں کوٸی بھی ہمیں دروزے پر رسیو کرنے نہیں آیا چلو خود نا آتے کوئی مینیجر ہی بھیج دیتے ارتضی تاسف سے بولا۔

ہاں تو۔۔۔۔تو جیسے امریکہ سے پاکستان لینڈ ہوا ہے جو تجھے رسیو کیا جاۓ اور ان کو بھلا ہماری آمد کا کیسے پتا عیان پھر سے گویا ہوا۔

ایسی کی تیسی سب کی بھاٸیوں مزمل کہتے ہوۓ آگے بڑھ گیا۔

اس کے پیچھے وہ سب بھی اندر کی جانب چل دیے۔

مزمل حیدر بلیک جینز اور بلیو شرٹ پہنےبالوں کوجیل لگا کر ایک ساٸیڈ پر سیٹ کیے آنکھوں پر گلاسز لگاۓ مغرورانہ چال چلتے ایک شان سے اندر داخل ہوا۔

اس کے بعد عفان ارتضی اور عیان بھی ایک ادا سے اندر داخل ہوۓ۔وہ سب ایسے چل رہے تھے جیسے ان کے باپ کا آفس ہو۔۔۔۔۔وہ چاروں ہم قدم آفس کے اندر داخل ہوئے جہاں مختلف کولیگز اپنی روز مرہ کی مصروفیات میں بزی تھے۔وہ چاروں سب کو نظرانداز کیے سب سے بے نیاز وجدان اور ریان کے مشترکہ آفس کی جانب بڑھ گئے۔۔۔

سلامت رہے دوستانہ ہمارا۔Où les histoires vivent. Découvrez maintenant