آٹھویں قسط ۔

113 8 4
                                    

یہ ایک بہت بڑا گودام تھا جو اس وقت تاریخی میں ڈوبا ہوا تھا۔آس پاس ایکسپورٹ کرنے والا مال پڑا تھا۔کچھ ہی فاصلے پر دو نفوس کرسیوں سے بندھے بے حس و حرکت پڑے ہوئے تھے۔ان میں سے ایک وجود نیم بے ہوشی کی حالات میں تھا جبکہ دوسرا وجود بے حس و حرکت پڑا تھا ۔اپنے سر میں اٹھنے والی درد سے اس کے منہ سے بے اختیار کراہ نکلی تھی۔اس نے انکھیں کھول کے آس پاس دیکھنے کی کوشش کی اندھیرے کی وجہ سے اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کے وہ کہاں ہے۔پھر اچانک اس کے ذہن میں تھوڑی دیر پہلے ہونے والا واقع گھوما۔اس نے بے اختیار اپنی چیخ روکھی۔پھر اپنے ساتھ دوسری کرسی پہ پڑے وجود کو دیکھتے وہ اس کی جانب متوجہ ہوئی۔۔حیات ۔۔۔حیات اٹھو۔۔۔میری جان۔۔۔حیات ۔۔۔وہ اس کو دیوانا وار پکار رہی تھی۔۔۔لیکن حیات کے جسم میں کوئی لرزش نا ہوئی۔۔۔مناہل نے اپنے پیروں کی مدد سے کرسی گھسیٹنا شروع کی ۔۔کچھ دیر اپنے پیروں کی مدد سے وہ حیات تک پہنچنے میں کامیاب ہوچکی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چلو یار چلتے ہیں اب بس بھی کرو تم سب جنت کا دل کب سےگھبڑا رہا تھا تو وہ بلآخر اکتا کر بولی بولی۔

مزمل اور امل نے جنت کی بات پر ایک دوسرے کو گھوری سے نوازا اور ان بوڑھی خاتون کو معذرت کرتے مڑے۔

حیات، منو تم دونوں نے آئسکریم نہیں لینی دانین اپنی آئسکریم پکڑتے پیچھے ان کی طرف مڑتے بولی۔

ہیں یہ دونوں کہاں گئیں؟؟دانین ادھر ادھر نظر دوڑاتے ہوئے بولی۔

اسکی بات پر ان سب کو بھی مناہل اور حیات کی غیرموجودگی کا احساس ہوا۔ان سب نے اپنے اردگرد دیکھنا شروع کیا  وہ دونوں تو کہیں نظر نہیں آرہیں تھی۔

یہ لوگ کہاں گٸیں؟ دیکھو مجھے نہیں لے کے گٸیں صبح بھی دونوں خود ہی کافی پینے چلی گٸیں تھیں اب میں ان سے ناراض ہوں امل بچوں کی طرح خفگی سے بولی۔

ہاں مگر وہ جا کہاں سکتی ہیں ہمیں بتاۓ بغیر جنت اب پریشان نظر آ رہی تھی۔ویسے بھی اس کا دل کب سے گھبڑا رہا تھا اور اب اچانک مناہل اور حیات کی غیر موجودگی سے اسے نئے سرے سے پریشانی لاحق ہوگئ۔

یہیں کہیں آگے کسی شاپ پر نا چلی گٸیں ہو۔ آٶ دیکھتے ہیں عیان خود کو پرسکون ظاہر کرتے بولا اندر سے وہ بھی ان کے لیے کافی پریشان تھا۔

ہاں چلو دیکھتے ہیں یہیں کہیں ہوگی۔ریان بھی خود کو ریلیکس کرتے ہوئے بولا۔

وہ سب خود کو ریلیکس ظاہر کر رہے تھے دل تو سب کے تیزی سے دھڑک رہے تھے۔

وہ سب پچھلے آدھے گھنٹے سے آس پاس کی ساری جگہوں، دکانیں اور مرکزی سپاٹس  پر دیکھ آۓ تھے مگر وہ انہیں کہیں نہیں ملیں۔کہیں بھی ان کا نام و نشان نہیں تھا۔وہ سب ازحد پریشان ہوچکے تھے۔

انہیں کون بتاۓ کہ آج وہ اپنی لاپرواہی کی وجہ سے انہیں کھو چکے تھے۔ ان کی ایک لاپرواہی ان کو کافی مہنگی پڑنے والی تھی۔

سلامت رہے دوستانہ ہمارا۔Donde viven las historias. Descúbrelo ahora